مضامین

مولانا الیاس کاندھلویؒ ایک انقلابی شخصیت

نقی احمد ندوی، ریاض، سعودی عرب

اسلام کا سورج فاران کی چوٹیوں سے نمودار ہوا اور صرف ڈیڑھ صدی میں اس کی ضیا پاش کرنیں ایشیاء، یوروپ اور افریقہ کے تینوں براعظموں کو روشن کرنے لگیں۔ اسلام کی یہ عظیم الشان اشاعت مسلم سلطاتین کی تلواروں کی دھار اور مسلم کمانڈروں کے للکار کا نتیجہ نہیں تھیں بلکہ وہ آنحضورؐ، صحابہ وتابعین اور تبعِ تابعین کی پیہم اور مسلسل کوششوں اور قربانیو ں کا نتیجہ تھیں۔

مگر بعد کی صدیوں میں مسلمانوں کی تعداد تو بڑھ گئی، اسلامی سلطنتوں کے حدود تو وسیع ہوگئے مگر رفتہ رفتہ دین کی دعوت و تبلیغ اور نشرواشاعت کا جذبہ ٹھنڈا پڑنے لگا۔ دنیا کے مختلف گوشوں میں مسلمان گو تو موجود تھے مگر کلمہ کے حقیقی معنی سے نا آشنا۔ اسلامی وضع قطع تو موجود تھا مگر اسلامی روح سے خالی، اسلامی اور عربی نام تو موجود تھے مگر اسلامی تہذیب و تمدن سے عاری اور برصغیر ہندوپاک کی صورتحال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھی۔

مگر انیسویں صدی میں ہندوستان میں ایک ایسی شخصیت پیدا ہوئی، جس نے دعوت و تبلیغ اور مسلمانوں کی اصلاح کا ایک ایسا گروہ پیدا کردیا، جو قرآن پاک کی آیت ولتکن منکم امت یدعون الی الخیر کا عین مصداق تھی۔

اس نے ایک ایسی جماعت کی بنیاد ڈالی جس کا آج بھی کوئی آرگنائزیشنل چارٹ نہیں، جس کا کوئی سالانہ بجٹ اور بینک اکاؤنٹ نہیں مگر اس جماعت کے ایک کروڑ لوگ دنیا کے 138ممالک میں اپنے خرچ پر اللہ کے دین کو پہنچانے اور ایک مسلمان کو مسلمان بنانے کے مشن میں مصروف ہیں۔

اسلامی تاریخ میں یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس کی نظیر پورے ایک ہزار سال میں دکھائی نہیں دیتی۔ دنیا کے کروڑوں مسلمانوں کی زندگی میں جس جماعت نے یہ عظیم انقلاب برپا کیا اس کا نام تبلیغی جماعت ہے اور اس عظیم الشان اور عالمی جماعت کے بانی اور مؤسس کا نام حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلویؒ ہے۔

مولانا محمد الیاس صاحب موجودہ اترپردیش کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ کاندھلہ میں 1885ء کو پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد کا نام مولانا محمد اسماعیل تھا جو ایک خدا ترس عالمِ دین تھے اور بہادر شاہ ظفر کے سمدھی مرزا الٰہی بخش کے بچوں کو پڑھایا کرتے تھے جن کا بنگلہ موجودہ نظام الدین میں درگاہ کے پاس تھا، اسی بنگلہ کے پھاٹک پر مولانا اسماعیل کی رہائش تھی اور اسی پھاٹک کے پاس ایک ٹین کی چھوٹی سی مسجد تھی جس کو بنگلہ والی مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے، اسی میں مولانا الیاس صاحب کے والد پھر آپ کے بڑے بھائی میوات وغیرہ کے بچوں کو بھی دینی تعلیم دیتے تھے۔ مولانا الیاس کی والدہ ماجدہ خود حافظہ قرآن تھیں اور ایک انتہائی نیک خاتون تھیں۔ مولانا الیاس صاحب کے دو بڑے بھائی تھے ایک مولانا محمد صاحب اور دوسرے مولانا یحییٰ صاحب اور دونوں بہترین عالمِ دین تھے۔مولانا الیاس صاحب نے بچپن ہی میں قرآن پاک حفظ کرلیا اور ابتدائی تعلیم اپنے گھر اور گاؤں میں حاصل کی، آپ کے ایک ہم درس اور ہم عمر ریاض الاسلام صاحب کاندھلوی آپ کے بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم لوگ مکتب میں پڑھتے تھے تو ایک دن مولانا الیاس لکڑی لے کر آئے اور کہا میاں ریاض الاسلام! چلو بے نمازیوں پر جہاد کریں!

اس زمانہ کے مشہور عالم دین اور مجاہد آزادی مولانا رشید احمد گنگوہی گنگوہ میں دینی تعلیم وتربیت میں مشغول تھے جہاں مولانا الیاس کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ چلے گئے، پھر بعد میں وہ مولانا الیاس صاحب کو بھی گنگوہ لے گئے، اس طرح مولانا الیاس صاحب نے مولانا رشید گنگوہیؒ کے پاس تقریباً دس سال گزارے، اس کے بعد 1326ھ (1908ء) میں آپ نے دیوبند جاکر شیخ الہند مولانا محمود حسن صاحب سے ترمذی اور بخاری کی سماعت کی۔ پھر مولانا خلیل احمد سہارنپوری سے بیعت و تعلق قائم کرلیا۔ اس کے دو سال بعد آپ نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور میں بحیثیت مدرس کام کرنا شروع کیا۔

1328ھ/1910ء میں آپ نے درس و تدریس شروع کیا۔1330ھ /1912 ء میں آپ کی شادی ہوئی اس کے تین سال بعد آپ نے پہلا حج 1913/ 1333ھ میں کیا۔ حج سے واپسی کے ایک سال بعد آپ کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ صاحب جنھوں نے گنگوہ میں اپنے ساتھ رکھ کر آپ کی تعلیم و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، کا انتقال 1916ء میں ہوگیا۔ جس نے مولانا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے دو سال بعد آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صاحب بھی جو اپنے والد صاحب مولانا اسماعیل کی جگہ پر نظام الدین کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور دین کی خدمت میں مصروف تھے 1918ء میں اس دارِ فانی سے1328ھ/1910ء میں آپ نے درس و تدریس شروع کیا۔1330ھ /1912 ء میں آپ کی شادی ہوئی اس کے تین سال بعد آپ نے پہلا حج 1913/ 1333ھ میں کیا۔ حج سے واپسی کے ایک سال بعد آپ کے منجھلے بھائی مولانا یحییٰ صاحب جنھوں نے گنگوہ میں اپنے ساتھ رکھ کر آپ کی تعلیم و تربیت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا، کا انتقال 1916ء میں ہوگیا۔ جس نے مولانا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اس کے دو سال بعد آپ کے بڑے بھائی مولانا محمد صاحب بھی جو اپنے والد صاحب مولانا اسماعیل کی جگہ پر نظام الدین کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالے ہوئے تھے اور دین کی خدمت میں مصروف تھے 1918ء میں اس دارِ فانی سے کوچ کرگئے۔۔

مولانا محمد صاحب کے انتقال کے بعد وہاں کے معتقدین اور خاندان والوں نے مولانا الیاس صاحب سے اصرار کیا کہ وہ سہارنپور کے مدرسہ چھوڑ کر یہاں آجائیں اور اپنے والد اور بھائی کی دینی و تعلیمی خدمات کو آگے بڑھائیں اور نظام الدین کی اس مسجد اور مدرسہ کو آباد کریں جہاں پر ان کے والد اور بھائی نے اپنی عمریں گزار دیں ہیں۔

مولانا الیاس صاحب نے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور سے ایک سال کی چھٹی مانگی اور نظام الدین منتقل ہوگئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ جب مولانا الیاس صاحب نے یہاں کی مسجد اور مدرسہ کو سنبھالا تو وہاں میوات کے ہی زیادہ تر طلبہ زیرِ تعلیم تھے اور میواتی لوگوں کا اس مدرسہ اور مسجد میں برابر آنا جانا تھا۔چنانچہ میواتیوں کا ایک بڑا طبقہ مولانا الیاس صاحب کے والد اور ان کے بھائی کا معتقد تھا۔ جب مولانا الیاس صاحب نے میواتیوں کی دینی،تعلیمی اور مذہبی  صورتحال  دیکھی تو وہ بے چین ہوگئے۔

ایک انگریز میجر پاؤلٹ 1878کے گزیٹیڈ میں میوات کے مسلمانوں کی دینی ومذہبی حالت کے بارے میں لکھتا ہے:

”میو (یعنی میواتی) اب تمام مسلمان ہیں لیکن برائے نام، ان کے گاؤں کے دیوتا وہی ہیں جو ہندو زمینداروں کے ہیں، وہ ہندوؤں کے کئی تہوار مناتے ہیں، جتنا عید، محرم اور شب برات مناتے ہیں اتنا ہی وہ جنم اشٹمی، دسہرا اور دیوالی بھی مناتے ہیں۔“

آگے لکھتا ہے:

”میواتی عادات میں آدھے ہندو ہیں۔ ان کے گاؤں میں شاذ ونادر ہی مسجد ہوتی ہیں۔“

میوات کے لاکھوں مسلمانوں کی اپنے دین مذہب سے دوری، مشرکانہ رسم و رواج میں گرفتاری اور اسلام کی نعمت سے عدمِ واقفیت اور بے رغبتی نے مولاناالیاسؒ کو مضطرب کردیا، شب و روز وہ یہ سوچاکرتے کہ کس طرح یہاں کے مسلمانوں کے اندر دینی بیداری لائی جائے۔

چنانچہ جب بھی آپ کے والد اور بھائی کے معتقدین  نظام الدین کے بنگلہ والی مسجد میں آتے تو مولانا الیاس ان کو اپنے اپنے گاؤں میں مکتب و مدرسہ کھولنے کی تلقین کرتے۔ آپ یہ چاہتے تھے کہ اگر میوات میں مدارس و مکاتب کا جال بچھا دیا جائے تو وہاں کے مسلمانوں کی دینی حالت میں سدھار خود بخود آجائے گا۔چنانچہ جب میوات کے معتقدین نے آپ کو میوات آنے پر اصرار کیا تو آپ نے یہ شرط رکھی کہ تم لوگ اپنے علاقے میں مکتب کھولو پھر میں آؤں گا۔ مگر وہاں کے لوگوں نے مکتب نہیں کھولا، جب مولانا تشریف لے گئے تب اس علاقہ میں آپ نے دس مکاتب کھولے۔ اس کے بعد آپ کا میوات کا سفر ہوتا رہا اور دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ہی دنوں میں سیکڑوں مکاتب وہاں کھل گئے۔

مولانا نے دوسرا حج اس کے دوران 44ہجری (14جون 1926) میں کیا اور مکہ مدینہ میں پانچ ماہ گزارنے کے بعد آپ 45ھ (1927)کے شروع میں کاندھلہ واپس آئے۔ حج سے واپسی پر آپ نے میوات کے حالات کا جائزہ لیا تو بہت مایوسی ہوئی۔ میوات کے عام مسلمانوں کی زندگی میں کوئی سدھار نہیں نظر آرہا تھا۔ مکاتب کے اندر ایک مخصوص تعداد دینی تعلیم حاصل کررہی تھی۔ اور میوات کے سارے مسلمانوں کو مدرسہ اور مکتب میں پڑھانا اور انہیں دین سکھانا ناممکن تھا۔ اس کے لیے مولانا الیاس کاندھلویؒ نے حضور پاک ﷺ کا وہ طریقہ اختیار کیا جو آپؐ نے دین کی نشرواشاعت میں شروع میں اپنایاتھا۔ آپؐ مکہ کے اندر گھر گھر جاکر دین کی دعوت دیتے اور آپ نے طائف کا بھی سفر کیا اوروہاں کے رؤسا کے سامنے دین کی دعوت پیش کی۔ لہٰذا مولانا نے فیصلہ کیا کہ گروپ کی شکل میں نکلا جائے، گشت کیا جائے اور لوگوں کو دین سکھایا جائے۔ دعوت کے اس طریقے سے لوگ بالکل ناآشنا تھے۔ آپ کے معتقدین اور ساتھیوں نے شروع میں ہچکچاہٹ کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں خود دین آتا تو ہم لوگوں کو کیسے دین سکھائیں گے۔ چند لوگوں نے بڑی شرم و حیاء اور رکاوٹ کے ساتھ یہ خدمت انجام دی۔

اسی بیچ میوات کے نوح میں ایک بڑا جلسہ ہوا، آپ نے حاضرین سے مطالبہ کیا کہ جماعت بناکر علاقہ میں نکلا جائے اور دین کی تبلیغ کی جائے۔ لوگ بہت ہچکچائے، اور لوگوں نے مولانا سے ایک مہینے کی مہلت مانگی۔ مگر ایک مہینہ کے بعد آخر کار پہلی جماعت دوسرے چند گاؤں جانے کے لیے تیار ہوئی۔ فیصلہ ہوا کہ گڑگاؤں کے سوہنا کی مسجد میں جماعت اگلا جمعہ پڑھے گی۔ اس جمعہ کو مولانا خود سوہنا کی مسجد پہنچے، جماعت کی کارگزاری سنی، اور آگے کا پروگرام طے کیا۔ ایک طویل مدت تک اسی طرح میوات کے علاقہ میں جماعتیں نکلتی رہیں اور مولانا خود جاکر جمعہ کے اجتماع میں شریک ہوتے رہے اور سرگرمیوں کا جائزہ لیتے رہے۔

اسی دوران آپ نے 1351ھ /1933ء میں تیسری بار حج کیا اورحج سے واپسی پر جماعت کی سرگرمیوں کو اور تیز کردیا۔ جب مولانا 1356ھ /1937ء کے اواخر میں آخری حج پر مکہ مدینہ پہنچے تو وہاں بھی تبلیغی سرگرمیاں جاری رکھیں اور لوگوں کو دعوت و تبلیغ کے لیے جماعت بناکر نکلنے پر آمادہ کرتے

رہے۔

مکہ کے امیر سے مکہ میں تبلیغی جماعت کی سرگرمیوں کے لیے اجازت مانگی، ان کے سامنے تحریری طور پر جماعت کے اغراض و مقاصد پیش کیے۔ مکہ کے قیام کے دوران ہی احباب کی رائے سے تبلیغی جماعت کے لیے اس وقت کے سلطان سے ملاقات طے ہوئی۔ چنانچہ 14مارچ 1938ء کو مولانا حاجی عبداللہ دہلوی،عبدالرحمن، مظہر شیخ المؤمنین اور مولانا احتشام الحسن کاندھلوی کے ساتھ سلطان سے مکہ میں ملاقات کی۔ جلالۃ الملک نے بہت اعزاز کے ساتھ مسند سے اتر کر استقبال کیا اور اپنے قریب اس دعوتی وفد کو بٹھایا، وفد نے تبلیغی جماعت کا معروضہ پیش کیا، جلالۃ الملک نے تقریباً چالیس منٹ توحید و کتاب و سنت اور اتباعِ شریعت پر مبسوط تقریر کی پھر اس کے بعد مسند سے اتر کر خود بہت اعزاز کے ساتھ سبھوں کو رخصت کیا۔ اگلے روز سلطان ریاض کے لیے روانہ ہوگئے۔ اسی طرح مدینہ کے امیر سے بھی اس سلسلہ میں درخواست دی گئی۔ اہل الرائے نے بتایا کہ اس ملک میں دعوت و تبلیغ کا سلسلہ بڑھانے کے لیے مولانا کو کم سے کم دو سال قیام کرنا ہوگا۔ مگر آپ نے واپسی کا ارادہ کرلیا کیونکہ اس سے ہندوستان کے کام کے ضائع ہونے کا خطرہ تھا۔ چنانچہ آپ ہندوستان واپس آگئے۔

واپسی پر آپ نے تبلیغی جماعت کے وفود سہارنپور، کاندھلہ، دلی، خورجہ، علی گڑھ، آگرہ اور بلند شہر وغیرہ میں بھیجنا شروع کیا۔ 1362ھ /1943ء میں لکھنؤ بھی تشریف لے گئے اور مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کے ادارہ دارالعلوم ندوۃ العلماء میں قیام کیا۔

مولانا الیاس کاندھلویؒ کی اٹھارہ سال کی شب و رز کی محنت رنگ لانے لگی، ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں جماعتیں نکلنے لگیں، اور علماء اور عام لوگوں کے اندر دینی بیداری کی ایک لہر چلنے لگی۔ مولانا سید ابوالحسن علی ندوی لکھتے ہیں:

”میوات میں دینداری کے وہ اثرات ظاہر ہونے لگے جن میں ایک ایک کے لیے اس سے پہلے اگر برسوں جدوجہد کی جاتی تو شاید کامیابی نہ ہوتی۔ بلکہ الٹی ضد پیدا ہوجاتی۔ ملک میں دین کی رغبت پیدا ہوگئی اور اس کے آثار نظر آنے لگے۔ جس علاقہ میں کوسوں مسجد نظر نہیں آتی تھی، وہاں گاؤں گاؤں مسجدیں بن گئیں اور دیکھتے دیکھتے اس ملک میں ہزاروں مسجدیں بن کر کھڑی ہوگئیں۔ صدہا مکتب اور متعدد عربی کے مدرسے قائم ہوگئے، حفاظ کی تعداد سیکڑوں سے متجاوز ہوگئی، فارغ التحصیل علماء کی بھی ایک خاصی تعداد پیدا ہوگئی، ہندوانہ وضع و لباس سے نفرت پیدا ہونے لگی اور اسلامی و شرعی لباس کی وقعت دلوں میں پیدا ہوگئی، ہاتھوں سے کڑے اور دکانوں سے مرکیا اترنے لگیں، بے کہے آدمیوں نے داڑھیاں رکھنی شروع کردیں۔ سود خواری کم ہوگئی، شراب نوشی تقریباً ختم ہوگئی، قتل و غارت گری کی واردات میں بہت کمی ہوگئی، جرائم، فسادات اور بداخلاقیوں کا تناسب پہلے کے مقابلے میں بہت گھٹ گیا۔ بے دینی، بدعات و رسوم اور فسق و فجور کی باتیں اور عادتیں موافق ہوا اور فضا نہ پانے کی وجہ سے خود بخود مضمحل ہونے لگیں۔

ایک فقیر درویش اور بے لوث عالم دین کی محنت نے صرف 18سال میں نہ صرف میوات بلکہ پوری دنیا میں ایک ایسا انقلاب برپا کردیا جس کی کوئی مثال پچھلی ایک ہزار سال کی اسلامی تاریخ میں دکھائی نہیں پڑتی چنانچہ آج دنیا کے 138ممالک میں تبلیغی جماعت سے جڑے ایک کروڑ سے زیادہ لوگ اللہ کے دین کو پہنچانے میں مصروفِ عمل ہیں۔

تاریخ اسلامی کے اندر اتنا بڑا انقلاب برپا کرنے والا یہ یہ عالم دین 13جولائی 1944ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔

پھونک کر اپنے آشیانے کو

بخش دی روشنی زمانےکو

متعلقہ خبریں

Back to top button