مضامین

شریعت کمیٹی دربھنگہ۔تاریک ماحول میں روشن چراغ

محمد نظرالہدیٰ قاسمی

استاذمدرسہ اسلامیہ چہرا کلاں ویشالی

جنرل سکریٹری نوراردولائبریری حسن پور گنگھٹی ویشالی

 ضلع دربھنگہ کا وہ علاقہ جو دھرور کہلاتا ہے جیسے پالی، مرزاپور، مہپتیا،دھمسائن پوہدی بیلا وغیرہ ان علاقہ میں شادی کے موقع سے ایک عام رواج تھاکہ بارات رات میں لے جائی جاتی اور تین چار وقت کا کھانا لڑکی والے کے ذمہ ہوتا،ایسے موقع سے لڑکی والے کیا کرتے” مرتا کیا نہ کرتا ” کے تحت اپنی لاڈلی بیٹی کی رخصتی کے لئے اس ظلم کوبرداشت کرنا پڑتا، ایک موقع سے کسی غریب کے یہاں شادی تھی اور لڑکے والے اس بات پر مصر تھے کہ تم کو تین چار وقت کا کھاناکھلانا ہی ہوگااس بے چارے کے پاس اتنی مالیت نہیں تھی ،وہاں کے دانشور لوگوں نے آپسی مشورہ کیا کہ سماج میں جڑ پکڑی ہوئی اس بیماری کا خاتمہ کرنا ہے، ۱۹۹۱ء ؁میں حضرت مولانامحمد قاسم صاحب مظفرپوریؒ پالی کی کسی مجلس میں تشریف لائے ہوئے تھے، اسی مجلس میں شریعت کمیٹی دربھنگہ کے نام سے ایک کمیٹی کی باضابطہ تشکیل ہوئی اور پھر اس کمیٹی کی محنت سے الحمدللہ وہ تمام رواج ختم ہوگئے،پھر سے جب جب اتداد اور اس جیسے معاملہ نے اپنے پَرپھیلانے شروع کیے توماسٹرمحمد قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی سرپرستی میں یہ کمیٹی پھر سرگرم ہوگئی اسی سرگرمی کے ایک حصہ میں شریک ہونے کے لئے کچھ دن قبل میرے مشفق و محترم حضرت مولانا سرفراز عالم قاسمیؔ اسسٹینٹ پروفیسر مدھے پور ٹیچرس ٹریننگ کالج مدھے پور، مدھوبنی کا بذریعہ فون حکم ہوا کہ ۴/ مارچ کو رات میں جامعۃ الصفہ مدھوراپور سیتامڑھی کے پروگرام میں بحیثیت مقررآپ کی شرکت ہونی ہے ۵؍ مارچ بروز اتوار بوقت ۹؍بجے صبح شریعت کمیٹی دربھنگہ کے زیر اہتمام مدرسہ قادریہ موضع پڑی، پوسٹ جدیوپٹی، وایا کرسوں ندیامی، دربھنگہ کی وسیع و عریض میدان میں ” بچیوں کے ارتداد اور اس کے روک تھام” جیسے حساس موضوع پر عوامی گفتگو کرنی ہے؛لیکن خیال رہے کہ ہمارے چاروں اطراف برادران وطن کی کثیر تعداد ہے، اسی کے درمیان ہم لوگوں کا اٹھنا بیٹھنا ہے؛بہرحال بذریعہ کار حضرت مولانا مفتی اکبر علی قاسمی اور عزیزم امتزاج الہدیٰ سلمہ کے ہمراہ طویل سفر کرتے ہوئے بحیثیت مقرر خصوصی حاضری کی سعادت ہوئی۔

 

دیہاتی علاقہ اور سورج کی رشنی کے سایہ میں لوگوں کا امنڈتا ہوا سیلاب دیکھ کر انگشت بدنداں رہ گیا، عموماََ دن کے اجالے میں دین و شریعت کے عنوان سے سجائے ہوئے پروگرام میں اس طرح کا ازدحام خال خال ہی دیکھنے کوملتاہے، ماسٹرمحمد قاسم صاحب دامت برکاتہم العالیہ کی صدرات،مولانامحمد سرفراز عالم قاسمی کی خوبصورت نظامت، حافظ و قاری فیض الباری مدرس مدرسہ قادریہ پڑی دربھنگہ کی مسحورکن تلاوت، عزیزم قمر عالم سلمہ کے حمدیہ کلمات اور حافظ محمداسلام صاحب صدرالمدرسین مدرسہ تعلیم القرآن سمری دربھنگہ کی نعتیہ شاعری سے باضابطہ پروگرام کا آغاز ہوا، مقررین کے ذریعہ منتخب شدہ عناوین پر اپنی بات پیش کرنے سے قبل مدرسہ قادریہ پڑی کی طرف سے حافظ و قاری فیض الباری اور باشندگاں پڑی کی طرف سے جناب ڈاکٹر زبیر عالم صاحب سابق سمیتی پڑی جیدوپٹی نے دور دراز سے آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا،بعدہ علاقہ کے بافیض عالم نائب ناظم مدرسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا دربھنگہ و دارالقضاء امارت شرعیہ کے فعال و متحرک قاضی حضرت مولانا و مفتی محمدعاصم صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے ان عناوین کا جس کے ضمن میں مقررین کو اظہار خیال کرنا تھااحاطہ کرتے ہوئے جامع کلیدی خطبہ پیش فرمایا،اس کے بعد ” ہمارا معاشرہ، مسائل اور اس کا حل” پرمدرسہ تعلیم القرآن بھیم پور، مدھے پور کے استاذ حدیث وفقہ اور دارالقضاء امارت شرعیہ مدھے پور کے قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی عبد الباسط قاسمی صاحب نے عنوان کا حق ادا کرتے ہوئے قرآن و حدیث کی روشنی میں مفصل مدلل گفتگو کی اور تجاویز بھی پیش کیا،” جہیز ایک ناسور ” جو معاشرہ کے ہر گھر کا روگ ہے، اس قبیح عمل کو اتنا رواج مل گیا کہ اس کی حرمت پرکسی محفل میں گفتگو کرنا جرم عظیم سمجھا جاتا ہے،ایسے حساس موضوع پر اس کی قباحت اور سماجی نقصانات پر مشتمل حضرت مولانا مفتی اختر رشید قاسمی بانی و مہتمم مدرسہ سراج العلوم ککوڑہا، دربھنگہ نے اس موضوع کے اہم اہم نکات کو سامنے رکھتے ہوئے بہت ہی خوبصورت انداز میں اپنی بات رکھی، ” شراب نوشی و نشہ خوری کے نقصانات اور اس کا ازالہ ” یہ ایک ایسا عنوان ہے جس نے انسانی بھیڑمیں ایک زہرآلود فضاء قائم کردی، نشہ چھوٹا ہو یا بڑا انسانی زندگی کو تباہ وبرباد کردیتاہے، اس موضوع پر حضرت مولانامحمد زبیرعالم قاسمی صدرالمدرسین مدرسہ ہدایت المسلمین بتھیا دربھنگہ نے اپنے اطراف میں شراب کے نشہ میں اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دینے کے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے شراب نوشی کی حرمت کو قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیا،مقررین کی فہرست میں درج ایک نام احقر کا بھی تھا، عنوان ” بچیوں کا ارتداد اور اس کا روک تھام ” پر گفتگو کرنی تھی وقت کی قلت اور شامیانے میں سورج کی تپش سے پریشان حال لوگوں کی پیشانی کی سِلوٹوں اور برادران وطن کی مستقل اقامت کو سامنے رکھتے ہوئے عربی خطبہ،قرآنی آیات کے بعد اس شعر سے ہم نے اپنی بات کا آغاز کیاکہ۔ع

خواہش سے نہیں گرتے پھول جھولی میں

وقت کی شاخ کو میرے دوست ہلانا ہوگا

کچھ نہیں ہوگا اندھیرے کو بُرا کہنے سے

اپنے حصے کا دیا خود ہی جلانا ہوگا

مذکورہ شعر کی تشریح کرتے ہوئے مرتد ہونے والے بچے اور بچیوں کا قصور وار ہم نے اپنے آپ کو مانااور ان علماء کو اس کاذمہ دارٹھہرایا جس نے اپنی ذمہ داری کو فراموش کردیاہے، اس فتنہ کا سب سے بڑا ذمہ دار گھر کے گارجین اور سرپرست کو ٹھہرایا اگر گھر کے ذمہ داراور علماء اپنے اپنے حصے کا دیا(چراغ) خود جلاتے تو آج ہندوستان کی کوئی بھی طاقت ہمارے بچوں کے ایمان کو نہیں خرید پاتا،کچھ نہیں ہوگا اندھیروں کو بُرا کہنے سے،فسطائی طاقتوں اور دیگر تنظیم کو برابھلا کہنے کاکچھ حاصل نہیں، ہم سرپرست ہیں تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کہ گھر میں بچے بچیوں کی تربیت میں کون سی کمی رہ گئی کہ ہمارےبچے ذہنی، فکری، اور مذہبی ارتداد کا شکار ہوکرہمارے ہاتھ سے نکلتے جارہے ہیں، اخیر میں شریعت کمیٹی کے جنرل سیکریٹری کے حضور میں ایک تجویز پیش کیاکہ اس کمیٹی کے ماتحت علماء کا ایک دستہ تیار کیا جائے جو علاقہ قرب و جوار میںان عنوانات پرگفتگو کرے ۔ ” بچوں کی تعلیم وتربیت کے مسائل اور ان کاحل ” پرحضرت مولانا محمد موسیٰ قاسمی استاذ مدرسہ فرقانیہ بگھیلا گھاٹ، دربھنگہ نے شرح و بسط کے ساتھ خصوصی گفتگو فرمائی، ” ملی، تعلیمی دینی و معاشرتی گراوٹ اور اس کا ازالہ ” کے عنوان پر جامع مسجد محلہ پرانی منصفی دربھنگہ کے امام وخطیب حضرت مولانا محمد ابرارالحق قاسمی نے گفتگوکی، ” ملی، تعلیمی، دینی ومعاشرتی گراوٹ کے ازالے میں علمائے کرام کی ذمہ داری” کے عنوان پر جامعہ رحمانی خانقاہ مونگیر کے سابق استاذ حدیث و فقہ اور مدرسہ رحمانیہ سوپول کے نائب مہتمم حضرت مولانا ڈاکٹر محمد شہاب الدین قاسمی ازہری نے اس موضوع پر قرآن و حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے تفصیلی گفتگو کی اور تجاویز پیش کیا۔

 

اس پروگرام کی سب سے بڑی اور پہلی خصوصیت یہ تھی کہ زیب و زینت سے پاک عام پروگراموں سے ممتازاور اس پروگرام میں آنے والے تمام عوام وخواص ایک فکر کے ساتھ جلوہ آرا تھے،تصویر کشی اور ویڈیوگرافی سے یہ پروگرام خدا کے فضل سے پاک و شفاف تھا، دینی پروگراموں میں بے جا تصویر کشی اور ویڈیو گرافی کے تعلق سے میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اس سے اخلاص کا جنازہ نکل جاتا ہے، لاکھوں کڑوروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ہم پروگرام کو بامقصد نہیں بنا پاتے۔

دوسری خصوصیت یہ تھی کہ عوامی بھیڑ میں گاؤں گرام کے بااثر اشخاص کی شمولیت کثیرتھی جس نے مجھے متاثرکیا۔

تیسری اور اہم خصوصیت وہ یہ کہ شیخ عبد الجلیل فاؤنڈیشن دربھنگہ،مدھے پور ٹیچرس ٹریننگ کالج مدھے پور مدھوبنی،الاقراء ایجوکیشنل ٹرسٹ دھنباد،کریسینٹ انٹرنیشنل اسکول دھنباد کے بانی و چئیرمین، الاقراء ٹیچرس ٹریننگ دھنباد کے بانی و پرنسپل،ڈاکٹر ذاکر حسین ٹیچرس ٹریننگ کالج لہریا سرائے دربھنگہ کے سابق لکچرر، ملت ٹیچرس ٹریننگ کالج مدھوبنی کے سابق پرنسپل، سابق ڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن،وینووابھاوے یونیورسیٹی، ہزاری باغ جھارکھنڈ اور شریعت کمیٹی دربھنگہ کے بانی و جنرل سیکریٹری پروفیسرڈاکٹر محمدشمیم احمد صاحب پروگرام کے اختتام کے وقت تجاویز پیش کرنے کے لئے اٹھے تو ان کی گفتگو، زبان کی لڑکھراہٹ اور بدن کی ظاہری ہیت سے یہ محسوس ہوا کہ معاشرہ کی اصلاح کا جنون و جذبہ ان کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے، انہوں نے تجاویز سنانے کے بعد مجمع میں جتنے لوگ تھے انہیں خدا کا واسطہ دے کر باضابطہ حلف لیا،اِکادُکا جس کے دل میں شیطانیت تھی، ان کا بھی اس مجمع میں دیدار ہوا، پروفیسر شمیم صاحب جب بارات کے تعلق سے حلف دلارہے تھے تو انہوں نے کہا کہ بارات کم لے جانی ہے تو قاضی شریعت حضرت مولانا مفتی محمد عاصم صاحب دامت برکاتہم العالیہ نے فرمایا کہ کم یا زیادہ کیا ہوتا ہے بارات جب شریعت میں نہیں ہے تو اس طرح کا حلف لینا مناسب نہیں، پھر لوگوں نے بارات نہ لے جانے کاحلف لیا، میرے دل نے کہا کہ اللہ تعالیٰ شریعت کمیٹی دربھنگہ کی کاوشوں کو ضرور قبول کرے گا وجہ اس کی یہ ہے کہ ہزار آدمی میں سے کچھ نہ کچھ تو اس حلف کی لاج رکھیں گے اور جو اس کی پاسداری نہیں کریں گے تو دوسرے لوگ اسے اس حلف کی یادہانی کرائیں گے اس طرح سے معاشرہ میں پھیلی شریعت کے خلاف جو بے راہ روی ہے اس کا تیزی سے سد باب ہوگا۔پروفسیر شمیم صاحب کی اختتامی تقریر سے اس بات کا احساس ہو اکہ ٹیم ورک کے لیے افراد کا فقدان ہے، ہم اس علاقہ کے علماء سے گذارش کریں گے کہ آپ پروفیسر شمیم صاحب کا ساتھ دے کر علاقہ و قرب وجوار میں شریعت کے خلاف جوفضاء بنی ہوئی ہے اس کے ختم کرنے کی کوشش کریں، اخیر میں ہم مدرسہ قادریہ کے اساتذہ و طلباء کے مشکور ہیں کہ انہوں نے مہمانوں کی آمد پر اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے ساتھ پیش آئے، اللہ تعالیٰ تمام حضرات کو اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے۔شریعت کمیٹی دربھنگہ کی وہ قرار داد جس کو پروفیسر شمیم صاحب نے پیش کیا تھا وہ درج ذیل ہیں۔

صدر شریعت کمیٹی، شیخ طریقت، بقیۃ السلف عارف باللہ حضرت اقدس الحاج ماسٹر محمد قاسم صاحب مدظلہ العالی خلیفہ و مجاز سراج الامت حضرت مولانا شاہ سراج احمد صاحب امروہوی قدس سرہ و ناظم مدسہ اشرفیہ عربیہ پوہدی بیلا دربھنگہ نے پروفیسر (ڈاکٹر) محمد شمیم احمد صاحب جنرل سکریٹری شریعت کمیٹی کے نام تحریر کردہ اپنے تفصیلی خط میں کامیابی و کامرانی کے لئے مندرجہ ذیل امور کی نشاندہی کرتے ہو ئے تمام اراکین کمیٹی والوں کو حسب ذیل لائحہ عمل بنانے کی تلقین کی تھی، پہلے اسے ملاحظہ فرمائیں۔

(۱) شریعت کمیٹی کا مقصد شریعت ہے،کمیٹی نہیں ہے، لہذا شریعت کی پابندی ہر خاص و عام کو کرنا ہے خواہ کمیٹی کامیاب ہو یا نہ ہو۔

(۲) شادی بیاہ میں بارات اور دیگر سامان کی طلب اتنا طول طویل ہوتا ہے کی لڑکی والا دم توڑ دیتا ہے، ان خرافات کی وجہ سے بہت ساری لڑکیاں شادی سے محروم رہ جاتی ہیں اور اخلاقی خرابی میں مبتلا ہوجاتی ہیں حتی کہ غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ گھر سے نکل جاتی ہیں جس کی کئی مثالیں علاقے میں موجود ہیں، اس سلسلے میں دو تین مثال سامنے کرتا ہوں خدا کرے کمیٹی والے اور ہماری قوم کی سمجھ میں بات آجائے اور سدھار کی صورت پیدا ہو جائے۔

(۳) نینا گھاٹ کے ڈی ایس پی ڈاکٹر شکیل الرحمٰن خان جھنجھار پور کے ڈی ایس پی تھے اور بہت ہی پختہ دین دار تھے، کئی بار ان سے ملنا جلنا ہوا، جھنجھار پور میں تھے تو ان کے قیام گاہ پر جانے کا کئی بار موقع ہوا، انہوں نے اپنے لڑکے کی شادی بنگلور کی، اس بارات میں ایک دلہا، ایک ان کے والد، ایک میں، اور ایک کوئی ان کا قریبی آدمی، چار نفر تھے، دوری کی وجہ سے میں نہیں گیا،صرف تین نفر رہ گئے، یہی بارات اور یہی شادی تھی۔کمیٹی والے غور کریں اور اپنا جائزہ لیں تاکہ میٹنگ سے نہیں خود سدھار کی نیت سے پرُعزم ہو جائیں تو کامیابی دامن تھام لے گی۔

(۴) کچھ دن پہلے ڈاکٹر عارف شاہنواز صاحب کے یہاں شیودھارہ کلینک پر میرا پائلس کاآپریشن تھا، آپریشن کے بعد عبدالحنان صاحب جمال چک دربھنگہ کے مکان پر ہفتہ عشرہ رہنے کا اتفاق ہوا، ان کے یہاں ایک مسلمان پولیس کا قیام تھا، ایکمی تھانہ میں ملازم تھے، ان سے میری ملاقات ہوئی، ان کا وطن غازی پورضلع یوپی تھا، ان سے گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ دس بارہ گاؤں ان کی برادری کے غازی پورضلع میں ہے، جہاں شادی بیاہ میں اتنی خرافات ہوتی تھی کہ کنواں میں چینی کا کئی بورہ ڈال دیا جاتا تھا اور اس پانی کو چلا کر شربت بنایاجاتا تھا اور باراتی اس کو پیتے تھے، یہ حرکت کئی سال چلتی رہی، بعد میں یکایک ان لوگوں کو تنبہ ہوا اور اس سے توبہ کرکے دس بارہ گاؤں میں دولہا لے کر گیارہ آدمی کی بارات لڑکی والے کے ہاں جانے لگےاور اسی تعداد سے آج تک شادی ہوتی ہے۔ سارا خرافات ختم ہوگیا، مسلم جوان بچیوں کی عفت و آبرو محظ ہوگئی، حق تعالیٰ ان باشندگان کو ہر طرح کی کامیابی وکامرانی نصیب فرمائے۔ آمین۔ یہ دو نمونے ہیں، شریعت کمیٹی والے اس کو لائحہ عمل بنائیں تو بیڑا پار ہے۔ امید ہے کمیٹی والے سبق حاصل کریں گے۔پاس شدہ تجاویز کے الفاظ یہ ہیں۔

شریعت کمیٹی یہ یقین رکھتی ہے کہ ہمارے لئے ذاتی عائلی، اور معاشرتی تمام معاملات میں محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں بہترین نمونہ ہے اور اسی نمونےکے مطابق معاشرتی امور طے کرنے میں حقیقی کامیابی ہے۔قرارداد (لڑکے والوں کے لیے).اسلام میں نکاح ایک اہم عبادت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آسان بنا کر عملاََ پیش فرمایا ہے مگر ہم مسلمانوں نے اسیاپنی خواہشات کے تابع بنا دیا ہے جس کے نتیجے میں نکاح جیسا مقدس عمل عیش پرستی، تفریح طبع اور فیشن بن کر رہ گیا ہے۔صورتحال یہ ہے کہ نکاح سے قبل انتخاب رشتہ کے وقت کوئی قد ناپتا ہے، کوئی رنگ دیکھتا ہے، کوئی دولت کا اندازہ کرتا ہے، کوئی خوبصورتی کے پیمانے پر لڑکی کو پرکھتا ہے،تو کوئی تعلیم کا اپنا معیار پیش کرتا ہے، کوئی عمر اور وزن کو دیکھتا ہے اور اب تو نوکری اور جاب کو پسند اور ناپسند کا پیمانہ بنا دیا گیا ہے۔افسوس کی بات یہ ہے کہ اس معاملہ میںجو جتنا قابل ہے وہ اسی قدر بے راہ روی کا شکار ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کوئی عمر کی وجہ سے، کوئی خوبصورتی و جمال کی وجہ سے،کوئی حسب و نسب میں کمال کی وجہ سے اور کوئی مالداری کی وجہ سے آپس میں رشتہ کرتا ہے مگر جو دین اور حسن سیرت کو معیار بنا کر رشتہ کرے گا وہ کامیاب ہوگا۔اطلاع ہے کہ ایک شخص بعض اوقات پچاس پچاس لڑکیوں کی تصویریں دیکھتا ہے اور پھر کہیں ایک جگہ رشتہ کرتا ہے، اس طرح اپنی اوچھی حرکتوں سے بہت دلوں کو تکلیف پہنچانے کا سبب بنتا ہے، مگر جیسی ’’نیت ویسی برکت‘‘ کہ اخیر میں وہ اس بری طرح سے ٹھگا جاتا ہے کہ سماج میں ’’سامان عبرت‘‘ بن جاتا ہے۔شادی کو آسان سے آسان تر بنائیے۔سادگی اور کم خرچ سے شادی کیجئے۔اسلامی تہذیب کو برتیے۔ ولیمہ کرکے اپنے گھر ضیافت کیجئے۔

اپنے کپڑوں میں شادی کا عمل انجام دیجئے۔لڑکے اور لڑکی کی مناسبت سے مہر رکھیے نہ کم نہ زیادہ اور کوشش کیجئے نقد مہر ادا کرنے کی؛ تاکہ نقد مہر ادا کرنے کا رجحان پروان چڑھے۔دو چار آدمی لڑکی کو رخصت کرانے جائیں، ان کے لیے اپنے کرائے کے نظم سے گاڑیوں کا انتظام کیجئے۔کثیر تعداد میں براتیوں کولے جانے کے گناہ اور بغیر دعوت کے کھانے سے بچئے۔فضول خرچی، ناچ گانے، بینڈ باجا اور آتش بازی سے خود کو بچائیے۔برکت والی شادی کیجئے، تاکہ آپ خوش رہ سکیں، سماج میں عزت کما سکیں اور خالق و مخلوق کے یہاں ذلیل ہونے سے بچ سکیں۔قرارداد (لڑکی والوں کے لئے)اگر آپ مسلمان ہیں اور ایک مسلمان سے آپ نے اپنی بچی کا رشتہ طے کیا ہے تو خدارا ’’ناک اور عزت‘‘ کی دہائی دے کر لڑکے والوں کو غلط راہ اختیار کرنے اور بارات لانے پر مجبور مت کیجیے۔جن غلط کاموں سے وہ بچنا چاہتے ہیں انہیں اس پر راضی مت کیجئے۔بے جا رسوم و رواج سے اپنے گھر کو بچائے۔فضول خرچی سے اپنی بیٹی کی شادی کو پاک رکھئے۔لڑکے والوں سے گاڑیوں کی لمبی قطار دروازے پر لانے کی شرط مت رکھئے۔لڑکیوں کو وراثت میں حصہ دیجیے، آئیے اس قرارداد کو ہم سب اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ شریعت کے مطابق مسلم معاشرے میں شادی کے عمل کو فروغ دیں گے۔اور شریعت کمیٹی کے پیغام کو گھرگھر پہنچا کر بن بیاہی بیٹیوں کے لیے رشتوں کو آسان کریں گے، تاکہ سماج میں کم خرچ کے ساتھ برکت والے نکاح کی ماحول سازی ہو سکے اور جہیز کی لعنت سے پاک صالح معاشرہ کی تشکیل میں ہم ایک مؤثر کردار اور ذمہ دار شہری ہونے کا رول ادا کرسکیں۔

شریعت کمیٹی کے ممبران اور ذمہ داران سے گزارش ہے کہ آپ اپنے حلقہ، بلاک اور گاؤں کی سطح پر از سرنو کمیٹی تشکیل دے کراسے فعال اور متحرک بنائیں۔کمیٹی کے تین ونگ پہلا علما کرام کا دوسرا نوجوانان اور تیسرا ذمہ داران حضرات پر مشتمل ہوگا۔تینوں ونگ کے الگ الگ صدر، سکریٹری اور ممبران کا انتخاب کیاجائے۔صدر، سکریٹری اور ممبران کے انتخاب میں متبعین اور محبین شریعت کو لازمی طور پر ترجیح دیں۔ان تینوں ونگ پر مشتمل اپنے گاؤں کی سطح پر ایک مرکزی کمیٹی بھی تشکیل دیں جس کے صدر، سکریٹری اور ممبران کا انتخاب مذکورہ تینوں کمیٹی سے ہی کیا جائے۔اس کمیٹی کو اپنے گاؤں کی سطح پر مرکزیت حاصل ہوگی۔ اور علما ونگ، نوجوانان ونگ اور ذمہ داران ونگ اس کمیٹی کے ذیلی ونگ کہلائیں گے۔جلد از جلد اس تشکیلی عمل سے فارغ ہوکر اس کے صدر سکریٹری اور ممبران کی پوری تفصیلات مرکزی کمیٹی کو ایک ہفتہ کے اندر بھیج دیں۔مذکورہ اجلاس عام میں پاس شدہ تمام قرار داد کو عملا نافذ کر نے کی کوشش کریں۔ اللہ آپ کا حافظ و ناصر ہو۔ آمین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button