مضامین

"خود احتسابی”

کے این واصف
سوشیل میڈیا کی خرابیاں یا منفی اثرات اپنی جگہ، مگر اسی جگہ اچھی باتیں بھی نکل کر آتی ہیں، جیسے ہم نے واٹس اپ پر ایک ویڈیو کلپ دیکھی منظر یوں تھا کہ دو نوجوان کسی پارک میں ایک بزرگ کو کچھ کھاتے پیتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ قریب جاکر اس شخص سے پوچھتے ہیں چاچا جی آپ نے روزہ نہیں رکھا؟ جواب میں بزرگ کہتے ہیں بیٹا میں روزہ سے بوں مگر دن میں دو ایک وقت کچھ کھاتا پیتا ہوں یہ سنکر نوجوان بنس پڑے، اور کہا، کیا ایسا بھی کیا جاسکتا ہے۔ اس پر باباجی نے کہا سنو بچو میں جھوٹ نہیں بولتا، کسی کی دل آزاری نہیں کرتا، ناجائز و حرام نہیں کھاتا، اپنے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی نہین کرتا، کسی سے دشمنی نہیں پالتا، دل میں بغض و کینہ نہیں رکھتا، حسد نہیں کرتا، صلہ رحمی اور حسن سلوک کے تقاضے پورے کرتا ہوں، اعزا و احباب سے ناراضگی یا خطہ تعلق نہیں کرتا۔ محسن کی ناشکری نہیں کرتا۔ چونکہ مجھے ایک عارضہ لاحق ہے اس لئے میں لمبا عرصہ اپنا معده خالی نہیں رکھ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ میں آپ کو کچھ کھاتا پیتا نظر آگیا، پھر اس بوڑھے نے لڑکوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا آپ لوگ روزے سے ہیں؟ لڑکے سر جھکائے خاموش رہے پھر آبستگی سے ہم آواز کہا ہم صرف دن بھر کھانا نہیں کھاتے۔

حاضرین کرام واٹس اپ پر جاری اس ویڈیو کلپ کو لاکھوں مسلمانون نے دیکھا ہوگا۔ مگر شاید ہی کسی کے دل میں خود احتسابی کا خیال آیا ہوگا۔ اور خود احتسابی کریں بھی تو ہماری اکثریت کے ضمیر کا جواب ہوگا ہاں ہم صرف کھانا نہیں کھاتے۔
حضرات ہم سخت موسم میں بھی 14 15 گھنٹے کا روزہ رکھتے ہیں۔ ماہ رمضان میں ہم نہ صرف فرائض بلکہ نفل عبادتوں کی پابندی کا اہتمام کرتے ہیں۔ روزے کی حالت میں خلوت میں بھی کچھ کھانے پینے کا تصور تک نہیں کرتے۔ صدقہ اور عمال خیر کی طرف مائل رہتے ہیں۔ یعنی ماه رمضان میں ہمارے تقوی کا یہ عالم ہوتا ہے۔ مگر کیا ہم کبھی ان اعمال کی پابندی کی طرف غور کرتے ہیں جو اوپر اس بزرگ شخص نے کہیں۔ جبکہ روزہ اپنے نفس پر قابو پانے کی عملی تربیت ہے۔ روزہ ایک ایسا قالب یا سانچہ ہے جس میں ڈھل کر انسان کو ایک ایسا بندہ مومن ہوجانا چاہئیے جس کی توقع ہم سے ہمارا رب کرتا ہے۔ اخلاق اور حسن سلوک اسلامی تعلیمات کی بنیاد ہیں۔ حقوق العباد کی پابندی کے بغیر صوم و صلوٰۃ اور دیگر فرائض کی ادائیگی کرنے کی مثال یوں دی گئی جیسے ہم چھید والے مٹکـہ کو اجر و ثواب کا پانی بھرنے کی کوشش کررہے ہوں۔

حاضرین کرام ماه رمضان مین بظاہر مسلمان ایک لمبا وقفہ کھانا پینا ترک کر دیتے ہیں۔ لہذا ہونا تو یہ چاہئیے کہ ماہ رمضان میں اشیائے مایحتاج کی مانگ میں کمی واقع ہونی چاہئیے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ماہ رمضان میں ہم اپنے خوراک کا معیار اور مقدار بڑھا لیتے ہیں۔ نت نئی ڈشس تیار کی جاتی ہیں۔ افطار کی کچھ مخصوص ڈشسس تو ایسی ہیں لگتا ہے اس کے بغیر افطار مکمل نہیں ہوگی۔ اس کے سبب غذائی اشیا کی کی مانگ میں بے تحاشہ اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس صورت حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بازار میں قیمتیں بڑھادی جاتی ہیں۔ دوسرے معنی میں ہم خود تاجروں کو استحصال کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ اگر ہم وہ تمام غذائیں جنہیں ہم رمضان میں کھانا ضروری قرار دئیے ہوئے ہیں ترک کر دیں تو روزه میں بھوک کا احساس ہوگا تو اس سے نہ صرف روزہ کا مقصد حاصل ہوگا بلکہ ہماری صحت پر مثبت اثرات بھی مرتب ہونگے۔

روزہ ہمارے لئے ایک عملی تربیت ہے تاکہ ہم ان افراد کی بھوک کی تکلیف کا احساس کریں جن کے چولہوں میں نہیں بلکہ پیٹ میں آگ لگی ہوتی ہے۔ ان کم نصیب بندگان خدا کی تکلیفوں کا احساس اسی وقت ہوگا جب ہم ۱۵ گھنٹے کے روزے کے بعد سادی سی غذا حسب ضرورت یا ضرورت سے کچھ کم کھائیں اور بھوک کے احساس کو اپنے اوپر طاری رکھیں۔ رمضان میں ہم اپنی غذا کے معیار اور مقدار کو بڑھا کر اغیار میں روزے کے بے مثال مقصد کی نفی کرتے ہوئے اغیار میں ایک غلط پیام پہنچا رہے ہیں۔ ایک عام غير مسلم تو ماه رمضان میں ہمارے کھانے پینے کے معیار اور مقدار کو دیکھ کر یہ سمجھتے ہونگے کہ ماہ رمضان بھوکے رھ کر بھوک کا احساس کرنے کا نہیں بلکہ اچھا اور زیادہ کھانے کا مہینہ ہے۔ ہمیں چاہئیے کہ ہم اغیار تک یہ پیام پہنچائیں کہ ہمارے دین نے ہمیں محروموں مجبوروں غریبوں اور محتاجوں کے دکھ درد کو عملی طور پر محسوس کرنے کے لئے ہمیں یہ ماہ مبارک عطا کیا ہے۔ اگر ہم روزے کے حقیقی مقصد کو سمجھتے ہوئے روزے رکھیں تو ہم دین کی تبلیغ کا ایک خاموش پیام دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔ ہم اغیار تک یہ پیام پہنچائیں کہ دین اسلام صرف زکوة کے ذریعہ غرباً و مساكين كى مدد کی تلقین نہین کرتا بلکہ روزہ رھ کر ان کم نصیب افراد کی بھوک پیاس کو عملی طور پر محسوس کرنے کا حکم بھی دیتا ہے۔
الله ہمیں اچھا سچا اور دردمند مسلمان بنے رہنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کیلئے کروبیان کچھ کم نہ تھیں

متعلقہ خبریں

Back to top button