مضامین

مشن تقویتِ امت کے زیر اہتمام ایک نئے نظامِ تعلیم کا خاکہ 

 

23 نکاتی بنیادی خد و خال، مشن تقویتِ امت قسط 21

آج امت کے ہر دھڑکتے دل کو یہ فکر لاحق ہے کہ آنے والی نسل ایمان و عمل صالح کے ساتھ کیسے تعلیمی میدان میں آگے بڑھ سکے، لہذا مشن تقویتِ امت کے زیر اہتمام ہم ایک ایسے نظام پر کام کررہے ہیں جہاں موجودہ نظاموں کی خرابیوں کا ادراک کرکے نئی مفید چیزیں شامل کی جاسکیں جن سے ایک مسلمان دینی و دنیوی ہر میدان میں احسان کے درجے کو پہنچ سکے، تو ہم اپنا نظام شریعت کے مقاصدِ خمسہ پر قائم کرنا چاہتے ہیں۔

مشن تقویتِ امت کے تعلیمی نظام کے ابتدائی خدو خال

1 سال کی باونڈیشن اور تحدید ختم کردی جائے گی یعنی اگر آپ سال بھر کی پڑھائی تین مہینے میں بھی کرلیتے ہیں تو ایک اسپیشل امتحان میں کامیاب ہونے پر اگلے درجے میں ترقی دے دی جائے گی۔

وجہ: ہمیں یہ خواہ مخواہ کی کھینچا تانی لگتی ہے کہ جس کی استعداد فطرتاً اچھی ہو اسے بھی متوسط درجوں میں اتنا لمبا عرصہ پڑھایا جائے کہ اعلی تعلیم تک پہنچتے پہنچتے وہ تعلیم سے بیزار یا معاشی پریشانیوں کی وجہ سے چھوڑنے پر مجبور ہوجائے، نصاب متوسط طبقے کو ذہن میں رکھ کر بنایا جانا چاہیے، لیکن ذہین لوگوں کی پیاس کو بجھانے کے لئے مخصوص شارٹ کٹ راہیں نکالنا بھی ضروری ہے جس سے وہ خود کو اسپیشل بھی محسوس کریں اور ان پر خصوصی توجہ بھی دی جاسکے۔

2 ہمارا ٹارگٹ ہر قسم کے فیس کو ختم کرنا ہے۔

وجہ: کیوں کہ ایجوکیشن کا فیس اور پیسوں سے کوئی تعلق ہی نہیں، میں اس ایجوکیشن سسٹم کو ناکام مانتا ہوں جہاں غریب بچہ اپنی تعلیم محض اس لئے جاری نہ رکھ پائے کہ اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔

البتہ جب تک اس سسٹم پر ہم قابو نہیں پالیتے ہمارا فیس کا اسٹرکچر یہ ہوگا کہ گھر میں ہونے والی کمائی (خرچ کے تناسب کا بھی لحاظ کیا جاسکتا ہے) کے ایک متعینہ فیصد کے حساب سے فیس لی جائے گی۔

3 ہر کلاس میں غرب اور امیر دونوں قسم کے بچوں کو رکھنا لازم ہوگا

وجہ: تاکہ امیروں بچوں کے اندر غربت کا مشاہدہ کرسکیں، ان کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہو، غریبوں کے ساتھ رہنے کا سلیقہ پیدا ہو، اور غریبوں کے اندر خود اعتمادی کا احساس پیدا ہو، نیز بعد میں خود کفیل ہونے نیز بڑے ادارے قائم کرنے میں یہ امیر ان غریبوں کے کام آسکیں، آپ غور کریں کہ جتنے بھی تحریکی حضرات ہیں اکثر کو ایسے ہم سبق اور دوست میسر آئے ہیں جنہوں نے اپنی مال کے ذریعے اس تحریک کو خون فراہم کیا ہے۔

4 مختلف قسم کے انٹرنیشنل مسابقوں میں شرکت کو لازمی بنایا جائے گا

وجہ: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ، دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے کے لیے دنیا سے جڑنا اور اپنا ٹیلینٹ دکھانا ضروری ہے، اس سے بچوں میں خود اعتمادی بھی بڑھے گی اور تنافس کا جذبہ بھی بڑھے گا نیز پبلسٹی اور شہرت بھی ملے گی، اور خیر کو عام کرنے کے لیے شہرت ایک مؤثر ہتھیار کی حیثیت رکھتا ہے۔

5 ٹیچر کو روزانہ کی بنیاد پر یہ رپورٹ دینی ہوگی کہ آج اس نے اپنے سبجیکٹ کے میتھڈ اور سسٹم کو اپگریڈ کرنے کے لیے کیا ریسرچ کیا؟ کیا اقدامات کئے؟ یعنی وہ ایک ٹیچر کے ساتھ ساتھ ایک ریسرچر بھی ہوگا جو ہر وقت مختلف ایکسپیریمنٹ کرتے ہوئے اپنا وقت گزارے گا، اور ان روزانہ کی رپورٹس کے مواد کو جمع کرکے اس کو آرگنائزیشن کے سیکھے ہوئے اسباق کے ذخیرے میں رکھا جائے گا تاکہ وہ دیگر شعبوں اور مستقبل میں کام آسکیں۔

وجہ: ایک تعلیمی ادارہ استاذ، طالب علم اور کتاب سے وجود میں آتا ہے، اور اس میں سب سے اہم رول استاذ کا ہوتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ وہ ہر وقت اپنی صلاحیت میں اضافہ کرتا رہے، اپنی طلب کو جگائے رکھے، سدا اپنے علم میں اضافہ کرتا رہے کیوں کہ یہ ٹرانسفارمر کی حیثیت رکھتا ہے وہ جتنا پاورفل اور مضبوط ہوگا اتنی اچھی بجلی باشندگانِ جہانِ علم تک پہنچ سکے گی۔

6 کتابیں تو شامل نصاب ہوں گی مگر استاذ کتاب پڑھانے کے بجائے اپنا لکھا ہوا خلاصہ پڑھائے گا۔

وجہ: اس طرح استاذ محنت کرکے لائے گا اور اپنی محنت کرنے کے بعد دوسروں کو سمجھانے کی لذت بھی بڑھ جاتی ہے، اور سمجھانا بھی آسان ہوجاتا ہے۔

دھیرے دھیرے ہم اس مرحلے تک پہنچیں گے جہاں بچیں بھی اپنا خلاصہ لکھ کر لائیں گے اور اساتذہ بھی، پھر طلبا اپنے اساتذہ کے خلاصے کے ساتھ اپنے خلاصے کا مقارنہ کرکے اپنی کمیوں کا تدارک کریں گے ان شاءاللہ۔

7 ابتداء کے پانچ سال تک ہمارے طلبا کے کھیل اور اخلاقیات کا فیصد ستر رہے گا اور تعلیم کا فیصد تیس ہوگا۔

وجہ: بچوں سے ان کا بچپن چھیننا کسی طور بھی ہمیں زیبا نہیں دیتا، اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تو سات سال تک نماز کے لیے اصرار کرنے تک سے منع کیا ہے، اسے جتنا کھیل کود ملے گا والدین سے جتنی محبت ملے گی اتنا ہی جذباتی، ذہنی و جسمانی طور وہ مضبوط بنے گا، نیز اسی عمر میں وہ اپنی اخلاقیات اور تہذیب کی تعمیر کرتا ہے، اور ہمیں ایک تعلیم یافتہ سماج سے زیادہ ایک مہذب با اخلاق سماج کی ضرورت ہے۔

8 کوئی بھی شخص اسی وقت مدرسہ یا اسکول کھولنے کا اہل کہلائے گا جب وہاں کم از کم پانچ اکیلے کھیلے جانے والے اور پانچ جوڑی میں کھیلے جانے والے اور پانچ گروپ میں کھیلے جانے والے گیمز ہوں۔

وجہ: اجتماعیت کمیونیکیشن اسکلز لیڈرشپ جیسی چیزیں پڑھانے سے زیادہ عملی طور پر سکھانے کی ہوتی ہیں اور کھیل ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے ذریعے یہ ساری چیزیں غیر محسوس طریقے پر بچوں کے اندر پروان چڑھائی جاسکتی ہیں۔

9 ہر فن کو ارتقائی انداز میں پڑھایا جائے گا۔

مثال: اگر موبائل کے بارے میں بات کرنی ہے تو شروعات سے لے کر آج تک کی پوری ترقی کو زمانی ترتیب کے ساتھ 3 ڈی ویڈیو کے ذریعے یا ایک نمائش اور پروٹو ٹائپ کے ذریعے بتایا جائے گا۔

کسی بھی فن کو پڑھانا ہے تو صدی وائز اس پر لکھی گئی کتابوں، ان کے مصنفین اور فن کی تدریجی ترقی کی تدریس لازم ہوگی۔

وجہ: کیوں کہ اس سے تخلیقی و تجزیاتی صلاحیت پیدا ہوتی ہے، انسان بہتر طریقے سے اپنے ماضی کو سمجھ سکتا ہے اور مربوط ہوسکتا ہے ورنہ ہم بس ایک صارف اور قاری بنے رہتے ہیں تجزیہ کار اور مفکر نہیں بن پاتے، آپ تصور کریں کہ ایک شخص کی نظر میں اس فن کی ابتدا سے لے کر اب تک کی ساری کتابوں اور مصنفین کا سرسری تعارف موجود ہو اور وہ جب چاہے ان سے مراجعت کرسکتا ہو تو یہ چیز کتنی خود اعتمادی پیدا کرے گی طالب علم کے اندر۔

10 ہر فن کو مقارنے کے انداز میں یعنی اضداد و مماثل کے ذریعے پڑھا یا جائے گا۔

وجہ: کیوں کہ چیزیں اپنے اضداد کے ذریعے بہتر طریقے سے سمجھی جاسکتی ہیں، اور کئی بار مختلف چیزیں ہمیں مماثل نظر آرہی ہوتی ہیں لہٰذا صلاحیتِ تمیز و فروق فہمی کا ملکہ پیدا کرنے کے لیے مقارنہ کا طریقہ بہت مفید ہے۔

11 ہر مظہر کو علم کا ذریعہ بنانا ہے، یعنی ادارے کے دروازے سے لے کر کلاس کی دیوار درخت بلڈنگ غرض ہر نظر آنے والی چیز کو ذریعۂ علم بنانا ہے۔

وجہ: انسان شعوری طور پر جو چیزیں سیکھتا ہے اس سے کہیں زیادہ چیزیں لاشعوری طور پر سیکھتا ہے، اور لاشعوری طور پر ذہنیت بنانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے ارد گرد کی ہر نظر آنے والی چیز کے بارے میں یہ تصور کریں کہ اس مظہر کے اندر ذہن کو تبدیل کرنے اور اثر انداز ہونے کی صلاحیت موجود ہے، لہذا ہر مظہر کو آرٹ کے ذریعے ایک ذریعۂ علم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔

12 ایسا نصاب مرتب کیا جائے گا جس میں روزانہ کی بنیاد پر تمام بارہ ذہنی صلاحیتوں

1 حسابی و منطقی ذہانت logical mathematical intelligence

2 لسانی ذہانت linguistic intelligence

3 خلائی و ابعادی ذہانت spatial intelligence

4 موسیقی و نغماتی ذہانت musical intelligence

5 جسمانی و عضلاتی ذہانت Kinesthetic intelligence

6 تعاملی ذہانت interpersonal intelligence

7 خود شعوری ذہانت intrapersonal intelligence

8 جذباتی ذہانت emotional intelligence

9 فطرت پسند ذہانت naturalistic intelligence

10 آئیڈیاتی و تخلیقی ذہانت creative intelligence

11 وجودی و روحانی ذہانت existential and spiritual intelligence

12 اجتماعی ذہانت collaborative intelligence، کو بہتر بنایا جاسکے۔

وجہ: ہر انسان ایک خاص قسم کی ذہانت میں مہارت لے کر پیدا ہوتا ہے، لیکن نصاب اگر محدود اقسام کی ذہانت کی ہی تربیت کرے، تو بسا اوقات ایک طالب علم کو غبی تصور کرلیا جاتا ہے حالاں کہ وہ شخص ذہانت کی کسی اور قسم میں بہت جلدی آگے بڑھ سکتا تھا جس کی وہاں تربیت نہیں دی جاتی، نتیجتاً وہ ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہوجاتا ہے۔

13 عمر کی نفسیات کو سامنے رکھ کر فنون پڑھائے جائیں گے۔

وجہ: کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ جس عمر میں کوئی چیز پڑھائی جارہی ہے اس عمر میں وہ چاہ کر بھی اس کا حقیقی فہم حاصل نہیں کرپاتا، نیز کئی بار بچے کو اس کی عمر کے لحاظ سے بہت سی نامناسب چیزیں پڑھائی جاتی ہیں، اس لیے سال کی حد بندی ختم کرکے عمر کی حد بندی کی جائے گی، البتہ اسپیشل ذہین بچوں کو اس حد بندی سے بھی ضرورت پڑنے پر مستثنیٰ رکھا جائے گا۔

14 اکیسویں صدی میں سب سے زیادہ ضروری مہارتوں کو باضابطہ ایک سبجیکٹ کے طور پر پڑھایا جائے گا، یہ مہارتیں تین اقسام کی ہیں:

لرننگ اسکلز جیسے پرابلم سالونگ (مسئلے کا حل نکالنا) کیریٹکل اینالیٹیکل تھنکنگ (تجزیاتی سوچ)، کرئیٹیویٹی (تخلیقیت)، کمیونیکیشن اسکلز (تعاملی مہارت)، اور ٹیم ورک۔

لٹریسی اسکلز جیسے انفارمیشن لٹریسی (صحیح انفارمیشن کہاں سے کیسے حاصل کرنی ہے)، میڈیا لٹریسی (الگ الگ میڈیا کے ذرائع کو استعمال کرکے معلومات کیسے اکٹھا کی جاسکتی ہے) ، ٹکنالوجی لٹریسی (کون کون سی نئی ٹیکنالوجی دستیاب ہیں اور ان کو اپنے فائدے کے لیے کیسے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

لائف اسکلز یعنی زندگی کو بہتر بنانے والی مہارتیں جیسے فلیکسیبیلٹی (لچک)، لیڈرشپ، اینشیئٹو (اقدام)، پروڈکٹیویٹی (افادیت) (فلپس)

وجہ: نئی نسل کی ذہنیت کو سامنے رکھ کر محض لاشعوری طور پر تربیت کرنے کے ساتھ شعوری طور پر انہیں یہ چیزیں بلاواسطہ سکھانا ضروری ہے تاکہ وہ تیزی سے بدل رہی اس دنیا میں اپنا صحیح مقام متعین کرسکیں۔

15 نظام الاوقات ایسا ہوگا کہ کم از کم ایک نماز کا وقت بیچ میں آئے جس میں سب کے لیے باجماعت نماز پڑھنا لازمی ہو۔

وجہ: کیوں کہ پڑھانے کے ساتھ ساتھ عملی مشق کروانا اور ان کو اسوۂ حسنہ کا پیکر بنانا بھی ہمارے نصاب کا لازمی حصہ ہے۔

16 ہمارا ٹارگٹ ہے کہ بلوغت اور شادی کے درمیان کے فاصلے کو کم سے کم تر کیا جائے اور اسی وجہ سے ابتداءً بیس سے پچیس سال کی عمر کے اندر اندر شادی کو لازمی بنایا جائے گا۔

وجہ: چوں کہ معاشرے میں فساد کے سب سے بڑے اسباب میں سے ایک جنسی بے راہ روی ہے، جس کا تدارک شادی کے ذریعے ہی ممکن ہے، اور بلوغت کے بعد شادی نہ ہوپانے کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ موجودہ تعلیمی نظام ہے۔

17 دسویں بارہویں تک ہی طلبا کو پیشہ ورانہ اسکلز، چھوٹے صنعتی کاروبار اور گھریلو صنعت کی اتنی مقدار سکھادی جائے گی کہ وہ اگر پڑھائی چھوڑدے تو اپنے ہنر کے بل بوتے پر کما سکے

وجہ: معاشی حالت کو درست کئے بغیر اعلی تعلیم کے خواب دیکھنا پریکٹیکل نہیں ہے، نیز شادی کے لیے کمانے کے لائق ہونا ضروری ہے اس لیے سولہ سے سترہ سال تک وہ ہنرمند بن چکا ہوگا، اور چار پانچ سالوں میں وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرکے حفظِ نسل کا اور ایک عورت کی کفالت کے لائق خود کو بنا چکا ہوگا ان شاءاللہ۔

18 اول دن سے ہی کمپیوٹر ہر نصاب کا لازمی جزو ہوگا۔

وجہ: کیوں کہ میٹا ورس، آرٹیفیشل انٹیلیجنس، ویب 3، سافٹ ویئر ڈولپمنٹ آنے والے زمانے میں ایک معمول کی چیز بن چکی ہوں گی، اور ہمارے پاس ان کو کنٹرول کرنے، نئے سسٹم بنانے اور ان کے صحیح استعمال سکھانے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہوگا۔

19 موجودہ نصاب کی زہرناکیوں کی تعیین و اصلاح کے لیے اساتذہ کو باضابطہ ٹریننگ دی جائے گی۔

وجہ: چوں کہ موجودہ سرکاری نصاب کے ذریعے طالب علم کے قلب و دماغ میں اس وقت الحاد و غیر اسلامی نظریات پیوست کردئیے جاتے ہیں جب اس کے اندر صحیح غلط کی تمیز ہی نہیں ہوتی، وہ ان چیزوں کو ایک حقیقت بدیہیہ کے طور پر قبول کررہا ہوتا ہے۔

اس سے نمٹنے کے لیے دو صورتیں ہیں: ایک تو اساتذہ کو ٹریننگ دی جائے دوسرے باضابطہ طور پر موجودہ سرکاری کتابوں کی گائیڈ بک تیار کی جائے جس میں ان خرابیوں کی نشان دہی کی گئی ہو، اور بچوں کو کتاب کے ساتھ ساتھ گائیڈ بک بھی پڑھائی جائے۔

20 روزانہ ہر کلاس کی شروعات کیوں سے کی جائے، یعنی یہ فن ہم کیوں پڑھ رہے ہیں اور ہر سبجیکٹ کو قرآنی آیات و احادیث سے جوڑکر سبق کی شروعات ان الوہی مقاصد کے ذکر سے کی جائے۔

مثال: میں انگلش اس لئے پڑھ رہا ہوں/پڑھ رہی ہوں کیوں کہ اللہ نے قرآن میں "و من آیاتہ خلق السماوات والارض و اختلاف السنتکم و الوانکم کہ کر” زبانوں کے اختلاف کو اپنی نشانی بتایا ہے، تو ہم اس کی نشانی پر غور کرنے کے لیے انگلش پڑھ رہے ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں خدا کی معرفت حاصل ہوگی اور خدا کا قرب نصیب ہوگا۔

وجہ: کیوں کہ ہر وہ علم جو رب کی معرفت میں اضافہ کرے نور ہے، اور جو رب تک نہ پہنچائے وہ ظلمت ہے۔

علم کی تقسیم

یعنی علم کی اولا دو قسمیں ہیں: علم نافع اور علم غیر نافع، اور نافع کی تعریف یہ ہے کہ وہ علم رب کی معرفت و قربت کا ذریعہ بنے، پھر اس علم نافع کی دو قسمیں ہیں علوم عالیہ اور علوم آلیہ، علوم عالیہ میں قرآن و حدیث و فقہ اور ان کے اصول اور علوم آلیہ میں دنیا کے دیگر تمام علوم شامل ہوجائیں گے۔

21 فیلڈ ورک اور سوشل ورک ہمارے نظام تعلیم کا لازمی حصہ ہوگا۔

وجہ: ہمارے اداروں اور سماج کے درمیان ضرورت سے زیادہ گیپ اور خلا پیدا ہوگیا ہے، بڑے نامور ادارے ہیں مگر ان کے اردگرد کا ماحول دیکھئے تو چراغ تلے اندھیرا نظر آئے گا، نیز ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے طلبا سماج میں گھومیں، ان کے دکھ درد کو سمجھیں، ان کی ضرورتوں کا اپنے قلب و نظر سے احساس و مشاہدہ کریں، اس کے بعد جو علم وہ حاصل کریں گے اس میں اور بنافیلڈورک والے علم میں آسمان و زمین کا فرق ہوگا۔

22 اسکول اور مدرسے دونوں نظام کی ابتداء حفظ قرآن مع ترجمہ قرآن سے ہوگی۔

وجہ: چوں کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو الحاد سے بچانے کا واحد سب سے مؤثر ذریعہ یہ سمجھ میں آتا ہے کہ انہیں قرآن سے جوڑ دیا جائے، اور محض حفظ کراکے خاطر خواہ فائدہ نہیں کیوں کہ وہ اس سے اپنی زندگی میں رہنمائی حاصل نہیں کرسکتا، اس لیے اب ہمارے پاس بچوں کو قرآن حفظ کرانے کے ساتھ ساتھ قرآنی عربی پڑھانے کے علاوہ کوئی چارہ بچا ہی نہیں ہے، چاہے وہ اسکول کا طالب علم ہو یا مدرسے کا۔

23 سیرت کے واقعات اور ان سے اخذ کردہ دروس ہمارے نظام کا لازمی حصہ ہوں گے۔

وجہ: اپنی نئی نسل کو اسوۂ حسنہ جب تک سکھایا نہیں جائے گا کیسے ہم ان سے یہ مطالبہ کرسکیں گے کہ تم سچے مسلمان بنو اور نبی کے سچے امتی اور متبع بنو؟!؟!

ہم جانتے ہیں کہ جو ٹارگٹ ہم نے سیٹ کئے ہیں ان کو پورا کرنا بے حد دشوار ہوگا، اس سنگلاخ وادی کو عبور کرنا جان جوکھم میں ڈالنے کے مترادف ہوگا، لیکن ہم نے اپنی کشتیاں جلادی ہیں، ہمارے پاس اس خاردار رہ گزر پر چلنے کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں بچا ہے، اب چاہے ہزار برق گریں لاکھ آندھیاں اٹھیں

جو مشکل راستے ہیں ان کو یوں ہموار کرنا ہے

ہمیں جذبوں کی کشتی سے سمندر پار کرنا ہے

چراغوں کا ہمیں اک کارواں تیار کرنا ہے

یہ تو تھیں کچھ بنیادی باتیں جو اس تعلیمی نظام کے تحت بنائے جانے والے ہر نصاب میں مشترک تھیں، آئیے اب ہم ہر طبقے کے لیے مخصوص نصاب اور ان کی خصوصیات پر کچھ روشنی ڈالتے ہیں۔

جاری۔۔۔

قیام الدین قاسمی سیتامڑھی خادم مشن تقویتِ امت

7070552322

[email protected]

نوٹ! اس نظام کو مزید مضبوط اور پائیدار بنانے کے لیے آپ کی تجاویز اور مشوروں کے ہم منتظر ہیں

 

متعلقہ خبریں

Back to top button