جنرل نیوز

تفہیم القرآن

تحریر : مجاہد صدیقی 

اردو زبان میں قرآن مجید کے کئی تراجم ہوئے اور کئی تفاسیر لکھی گئی ہیں، ہر تفسیر کی الگ خوبی ہے جیسے ہر پھول کی خوشبو منفرد ہوتی ہے. تفاسیر لکھنے والے اہلِ علم اپنے مسلک اپنی دعوت کا خصوصی لحاظ رکھتے ہیں اور قرآن مجید کی تفسیر لکھتے وقت اپنے پسندیدہ عنوانات پر زیادہ سے زیادہ لکھنے اور اُس کی حقانیت ثابت کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ دلائل دینے کی کوشش کرتے ہیں. مثلاً کسی مفسر کا منہج توحید ہے تو وہ توحید پر زیادہ کلام کرتے ہیں کسی کا منہج حُبّ مصطفیٰﷺ ہے تو اُنہوں نے اِس پر زیادہ زور دیا کسی نے فقہی مباحث کو زیادہ بیان کیا کسی نے لغت کے بیان کو ترجیح دی،لیکن تفہیم القرآن کی انفرادی حیثیت یہ ہے کہ اِسے پڑھتے وقت قرآن مجید کا مدعا بہت واضح طور پر سمجھ آتا ہے.

زیادہ تر تفاسیر عالمانہ طرزِ تحریر کی آئینہ دار ہیں جسے پڑھتے وقت مفسر کی علمی وجاہت ظاہر ہوتی ہے لیکن ایک عام آدمی کسی انسان کی علمی قابلیت جاننے کے لیے تفاسیر کا مطالعہ نہیں کرتا وہ تو قرآن مجید کو سمجھنا چاہتا ہے جس کے لیے میں نے تفہیم القرآن کو دیگر تفاسیر سے منفرد و مختلف پایا ہے.

کچھ تفاسیر ایسی بھی ہیں جس میں مفسر نے رطب و یابس جمع کیا ہے یعنی اُس موضوع پر جو مواد دستیاب ہوسکتا تھا تحریر کرڈالا نتیجہ یہ نکلا کہ تفسیر کا حجم بڑھ گیا اور دیکھنے والا یوں ہاتھ نہیں لگاپاتا کہ ایک تو اتنی لمبی تفصیل کون پڑھے اور دوسرا یہ کہ اتنی زیادہ تفصیل میرے کس کام کی، ساری ہی باتوں کو پڑھنا اور پھر بھی بے نتیجہ رہنا کوئی فائدہ مند عمل نہیں، لہٰذا ایسی تفاسیر علماء کرام، خطباء اور مدرسین کے لیے تو ٹھیک ہیں لیکن ایک عام قاری کی ہمت سے باہر ہیں.

البتہ تفہیم القرآن میں یہ التزام رکھا ہے کہ مختصر مگر جامع بات کی جائے اور دلائل میں سب سے قوی دلائل کا انتخاب کیا جائے تاکہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجائے اور کہیں کوئی اشکال یا پیچیدگی باقی نہ رہے.

میں نے شیخ القرآن والحدیث حضرت مولانا غلام رسول سعیدیؒ کی تفسیر "تبیان القرآن”، مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع ؒکی تفسیر "معارف القرآن”، حضرت مولانا عبدالرحمن کیلانیؒ کی تفسیر "تیسیر القرآن”،شیخ القرآن مولانا غلام اللہ خان ؒکی تفسیر "جواہر القرآن”،مولانا امین احسن اصلاحی ؒکی تفسیر ” تدبر قرآن”، حضرت پیر کرم شاہ الازہری ؒکی تفسیر "ضیاء القرآن "، سید قطب شہیدؒ کی تفسیر "فی ظلال القرآن "اور مفکر اسلام مولاناسیّدابوالاعلیٰ مودودی رحمہ اللہ کی تفسیر "تفہیم القرآن” کا مطالعہ کیا ہے.

تبیان القرآن میں بہت تفصیل ہے، کتابوں کے بہت حوالے ہیں، حوالہ جات کے تحت مقالات لکھنے والوں کے لیے بہترین تحفہ ہے، معارف القرآن عالمانہ طرز کی حامل ہے، جواہر القرآن میں توحید کو موضوع بنایا ہے اور تین جلدوں کی تفسیر میں زیادہ کلام توحید پر ہی کیا ہے. تدبر قرآن، فی ظلال القرآن اور تفہیم القرآن میں اقامتِ دین کو نمایاں پیش کیا گیا ہے.

میری عادت تو یہی ہے کہ میں پہلے ساری تفاسیر میں متعلقہ بحث دیکھتا ہوں پھر آخر میں "تفہیم القرآن” کا مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے یہ طریقہ زیادہ بہتر محسوس ہوا ہے.

جیسا کہ میں نے شروع میں عرض کیا کہ ساری ہی تفاسیر اچھی ہیں، ہر انسان کا ذوق دوسرے سے مختلف ہوتا ہے ممکن ہے کسی کو کوئی اور تفسیر زیادہ بہتر لگی ہو مجھے جو محسوس ہوا میں نے بیان کیا ہے.

الحمد للہ کبھی بھی تنقیدی نظر سے کسی تفسیر کا مطالعہ نہیں کیا اور ہمیشہ یہی سمجھتا آیا ہوں کہ ہر مفسر نے اپنے بس کے مطابق جو بہتر تھا وہ کیا ہے، یہ جو ہمیں بُرا لگتا ہے یہ تفسیر میں بُرائی نہیں ہوتی یہ ہماری محدود سوچ کا کڑوا پھل ہے جس بنا پر ہم صرف تنقید، اعتراض اور کمزوری کی تلاش میں مصروف رہتے ہیں.

میری تجویز، رائے، مشورہ ہے کہ تفسیر "تفہیم القرآن” کا مطالعہ کیجئے، یقیناً قرآن مجید کا فہم، قرآن مجید کا مدعا اور قرآن مجید کا مطالبہ(میری سمجھ کے مطابق) زیادہ بہتر سمجھ آئے گا.

متعلقہ خبریں

Back to top button