بنگلہ دیش میں تشدد پھوٹ پڑا، ڈھاکہ میدان جنگ میں تبدیل۔ 72 ہلاک سینکڑوں زخمی۔ غیر معینہ مدت تک کیلئے کرفیو نافذ

نئی دہلی/ پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں کوٹہ سسٹم کے خلاف پھوٹ پڑے تشدد میں 72 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہو گئے۔ اطلاعات ہیں کہ طلبہ پولیس اور حکمران جماعت کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ وزیراعظم شیخ حسینہ سے استعفٰی کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج پر اتر آئے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا
صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اتوار کی شام چھ بجے سے ملک بھر میں غیر معینہ مدت کے لیے کرفیو نافذ کرنے کا اعلان کر دیا۔ گزشتہ ماہ شروع ہوئے احتجاج کے بعد پہلی بار حکومت نے اس طرح کا سخت فیصلہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں طالب علم سرکاری ملازمتوں کے لیے کوٹہ سسٹم کے خاتمہ کا مطالبہ کرتے ہوئے زائد ایک ماہ سے احتجاج کر رہے ہیں، طلبہ کے اس احتجاج میں پہلے بھی تشدد بھڑک اٹھا تھا اور تاحال ملک بھر میں غریب 200 افراد کے ہلاک ہونے کی اطلاعات ہیں۔
دارالحکومت ڈھاکہ احتجاج کا مرکز بنا ہوا ہے، میڈیا رپورٹس کے مطابق اتوار کے دن احتجاجیوں کا ہجوم لاٹھیاں وغیرہ لے کر پہنچا جب یہ ہجوم ڈھاکہ کے وسط میں واقع شاہ باغ چوراہے پر جمع ہوا تو پولیس اور مشتعل افراد کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ اس کے علاوہ کئی مقامات اور بڑے شہروں میں بھی سڑکوں پر احتجاجیوں اور پولیس عہدیداروں کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات ہیں۔ احتجاجیوں نے کئی اہم نیشنل ہائی ویز کو بلاک کر دیا تھا۔اس تصادم میں پولیس کے ساتھ حکمران جماعت عوامی لیگ کے حامی بھی شامل تھے، جن سے احتجاجی آمنے سامنے ہو گئے۔ احتجاجیوں میں طلبہ کے ساتھ ساتھ کچھ گروپس بھی شامل بتائے گئے ہیں۔ ڈھاکہ ضلع کے ایک پولیس عہدیدار نے میڈیا کو بتایا کہ پورا شہر میدان جنگ میں تبدیل ہو گیا ہے۔ بنگلہ دیشی میڈیا کے مطابق ہلاکتیں بوگورہ، ماگورا، رنگپور اور سراج گنج سمیت 11 اضلاع میں ہوئیں جہاں عوامی لیگ اور بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے ارکان براہ راست آپس میں متصادم ہو گئے۔
بعض عینی شاہدین نے میڈیا کو بتایا کہ ڈھاکہ کے علاقہ اترا میں دیسی ساختہ بموں کے دھماکے ہوئے اور گولیوں کی آوازیں سنی گئیں، کئی گاڑیوں کو بھی آگ لگائے جانے کی اطلاعات ہیں۔