نیشنل

یکساں سول کوڈ کے نفاذ پر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں اپنا موقف پیش کیا

نئی دہلی _ 18 اکتوبر ( اردولیکس) مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کرتے ہوئے یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے لیے دائر درخواستوں کی مخالفت کی ہے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت نے سپریم کورٹ سے کہا کہ یہ ایک پالیسی مسئلہ ہے، جس پر فیصلہ کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ عدالت پارلیمنٹ کو اس حوالے سے قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتی۔ پارلیمنٹ کو کسی بھی معاملے پر قانون لانے کا خودمختار حق ہے۔ کوئی بیرونی اتھارٹی اسے قانون بنانے کی ہدایت نہیں دے سکتی۔ لہٰذا ملک میں یکساں سول کوڈ کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں کو خارج کیا جائے۔

 

معاملے کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے مختلف مذاہب کے پرسنل لاز کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی وجہ سے مرکزی حکومت کی درخواست پر 21 ویں لاء کمیشن نے پرسنل لاء کا مطالعہ کیا اور مختلف اسٹیک ہولڈرز سے رائے طلب کی اور اپنی ویب سائٹ پر ریفارم آف فیملی لا کے نام سے ایک مشاورتی پیپر اپ لوڈ کیا۔

 

چونکہ 21ویں لاء کمیشن کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس لیے نئے 22ویں لاء کمیشن کے ممبران کی تقرری کے بعد یہ مسئلہ ان کے سامنے رکھا گیا۔ لاء کمیشن کی رپورٹ کے بعد حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کرے گی۔ بی جے پی لیڈر اشونی اپادھیائے کی طرف سے دائر عرضی میں شادی، طلاق، نفقہ، جانشینی کے لیے تمام مذاہب کے لیے ایک مشترکہ قانون نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

 

حکومت کا حلف نامہ یکساں سول کوڈ کے حوالے سے دائر درخواستوں اور اس سلسلے میں عدالت کی مداخلت کے خلاف ہے، لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ یکساں سول کوڈ کے بھی خلاف ہے ۔ حلف نامے میں ایک جگہ آرٹیکل 44 کے تحت پالیسی کے ہدایتی اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے حکومت نے کہا ہے کہ مختلف مذاہب/کمیونٹیوں کے قوانین ملک کے اتحاد کے خلاف ہیں۔ اس تناظر میں حکومت نے لاء کمیشن سے کہا ہے اور اس کی سطح پر مختلف اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت اور مختلف مذاہب کے پرسنل لاء کے مطالعہ کی ضرورت ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button