ایک چھوٹی سی بھول کی وجہ تین دن جیل میں قید
محمد حسن الدین مڑکی
بات ہے 1985 کی رمضان کا مہینہ چل رہا تھا جب مصر سے سعودی کے لیے میرا سفر تھا. کمپنی کے کچھ کام کی وجہ سے ریاض سعودی کا سفر ہونا ہوا جمعرات کا دن تھا شام کے وقت ریال ریاض پہنچ کر ہوٹل چلا گیا ہر بار کی طرح اس بار بھی اسی ہوٹل میں بکنگ کی.
ہوٹل پہنچنے کے بعد ہوٹل کی ایک اسٹاف سے سلام دعا ہوئی، ہوٹل اسٹاف نے کہا سر اپنا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دیجئے میں اپنا بکنگ کا کام کرتی ہوں۔ اور آپ جب تک روم میں جا کر تیار ہو جائیں اور آرام کریں پھر میں آپ کو آپ کے کاغذات واپس کرتی ہوں۔
روم میں پہنچ گیا تیار ہو کے بیٹھا ہی تھا کہ اتنے میں کمپنی کے ساتھی کا فون آیا اور کہنے لگا میں آپ کے ہوٹل کے پاس آیا ہوں آپ باہر آؤ ہم بازار ہو کے آتے ہیں۔ ہم دونوں نے ملاقات کی سلام دعا کے بعد بازار کی طرف نکلے ہوٹل سے تھوڑی ہی دور نکلے تھے کہ سڑک کے چوراہے پر پولیس عوام کی جانچ کر رہی تھی ہم دونوں کا بھی وہیں سے گزر ہوا پولیس ہم دونوں کی طرف آئی اور ہمارے سے شناختی دستاویزات مانگی میرے ساتھی نے اپنا اقامہ دکھایا اور جب پولیس نے میری طرف آکر مجھ سے سوال کیا، کیا دیکھتا ہوں کہ میں اپنا پاسپورٹ ہوٹل اسٹاف کو دیا تھا اور واپس لینا بھول گیا جب میں نے پولیس کو یہ بات بتائی تو پولیس کو یقین نہیں ہوا اتنے میں میرے ساتھی نے کہا کہ کہاں رکھے ہو پاسپورٹ میں ہوٹل جا کے لے آتا ہوں، وہ پاسپورٹ لینے چلا گیا،
اور پاسپورٹ لے آیا اسی درمیان پولیس نے اپنی گاڑی میں بٹھا کر میرے کو وہاں سے لے گئے میرا ساتھی اس جگہ پر آکر دیکھا کہ وہاں نہ تو پولیس موجود ہے اور نہ ہی میں، میرا ساتھی ایک آدمی سے پوچھا یہاں پولیس اور کچھ لوگ تھے وہ لوگ کہاں گئے، اس انجان آدمی کا جواب آتا ہے پولیس نے ان سب کو گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن لے گئی ہے، پھر ساتھی نے پولیس اسٹیشن کا پتہ معلوم کر کے پولیس اسٹیشن کی طرف نکلا اب یہاں پولیس ہم سب سے سوال کر رہی ہے کون کیا کیا غلطی کیا ہے جب پولیس میری طرف آئی تو میں نے کہا میرا پاسپورٹ ہوٹل میں رہ گیا تھا۔
اور میرا ساتھی پاسپورٹ لے کر آتا ہی ہوگا تھوڑی دیر بعد میرا ساتھی پاسپورٹ لے کر پولیس اسٹیشن میں داخل ہوا، میں اور میرا ساتھی پولیس سے بات کرنے کے لیے آگے آئے اور پولیس کو اپنا پاسپورٹ دکھایا اور تفصیل سمجھائی، پولیس نے بات سننے کے بعد جواب دیا ٹھیک ہے لیکن میں اب کچھ نہیں کر سکتا تمہیں جس پولیس آفیسر نے اسٹیشن لایا تھا وہ ابھی کسی کام سے باہر گئے ہیں وہ آنے کے بعد ان سے بات کرنا، میں اور میرا ساتھی کھڑے ایک دوسرے کا چہرہ دیکھنے لگے پھر تھوڑی دیر بعد ایک پولیس نے آکر میرے ساتھی کو باہر بھیج دیا اور مجھے باقی لوگوں کے ساتھ جیل میں لے گئے رات کا وقت تھا جیل کا نظارہ کچھ اس طرح تھا ایک لمبا سا کمرہ جس میں قیدیوں کا شور شرابہ کوئی جان نہ پہچان سب ایک دوسرے کی سوچ میں مصروف ہیں ہر کوئی ایک دوسرے سے اپنی پریشانی ظاہر کر رہے ہیں، پھر میری نظر وہاں کے بیت الخلاء پر گئی اتنا گندا بیت الخلاء اور بدبو پھیل رہی تھی، کئی قیدی باہر کھڑے ہو کر پیشاب کر رہے ہیں میرے اندر ایک سوچ پیدا ہوئی جب تک یہاں ہوں بیت الخلاء نہیں جاؤں گا، پولیس عہدیدار نے تمام قیدیوں کو بستر دستیاب کیا جو اسی حال میں بچھا کر سو جانا تھا، میری آنکھ نیند کے متعلق دور دور تک نہیں سوچ رہی تھی دیوار کو ٹیک لگا کر دونوں پیروں پر بیٹھا رہا اسی طرح رات گزر گئی جمعہ کا سورج جب نکلتے دیکھا تو امید تھی کہ آج میری چھٹی ہوگی پھر معلوم ہوا کہ جمعہ کا دن چھٹی کا دن ہوتا ہے، میں ایسے ہی ایک طرف خاموش بیٹھا رہا اپنی سوچ میں مگن ہوکر، کچھ جیل کے ساتھی قریب آکر بیٹھ گئے اور میرا حال پوچھنے لگے کس جرم میں جیل آئے ہو میں نے تفصیل سنائی پھر کچھ ساتھیوں نے اپنا اپنا حال سنایا کچھ ساتھی کام زیادہ ہونے کی بیزارگی میں ہندوستان آنا چاہتے ہیں اور کچھ پاکستان جانا چاہتے ہیں، اسی درمیان دو حیدرآباد کے لوگوں سے ملاقات ہوئی وہ بھی کام زیادہ ہونے کی وجہ سے ہندوستان واپس آنا چاہتے ہیں، ایک مہینہ گزر گیا لیکن پولیس نے ابھی تک کچھ کاروائی نہیں کی ہم ایک مہینے سے انتظار کر رہے ہیں کہ کب پولیس اپنی کاروائی مکمل کرے گی اور کب ہمیں ہندوستان بھیجے گی۔
اسی طرح جمعہ کی شام قریب آئی میرے ساتھ کمپنی میں کام کرنے والے ساتھی نے کچھ پھل لا کر دیے اور کہا کہ تمہاری رہائی کی کاروائی چل رہی ہے شاید جلد ہی تمہاری رہائی ہوگی، جمعہ کی رات کا وقت تھا حیدراباد کے ساتھی نے کہا کہ کل سے تم نے بیت الخلاء نہیں گیا خراب ہے تو کیا ہوا باقی لوگ بھی جا رہے ہیں نہ۔
پھر میں نے جواب دیا وہ بیت الخلاء حد سے زیادہ غلیظ ہے اور میں صبح یہاں سے رہا ہو جاؤں گا اسی طرح جمعہ کی رات گزر گئی اور ہفتے کی صبح میرے ساتھی نے کمپنی کے مینجر سے بات کر کے میری رہائی کی کاروائی شروع کی کاروائی مکمل ہونے تک عصر کا وقت ہوا اور میں عصر کے بعد جیل سے رہاء ہوا۔
جیل میں ایک واقعہ ایسا بھی ہوا کچھ لوگ میری رہائی کی خوشی سے میرے نزدیک آئے اور دریافت کرنے لگے کہ یہ ہمارے ساتھیوں کا فون نمبر ہے آپ باہر جانے کے بعد ان سے کہو کہ ہم یہاں کس حال میں ہیں میں نے ان کا نام اور فون نمبر میرے ہاتھ پر لکھ لیا میری ہتھیلی فون نمبروں سے بھر گئی اور بھی لوگوں کے نمبر لکھنا باقی تھا، پولیس نے میرا نام پکارا اور میں جیل سے رہا ہو گیا۔ پھر میں نے اپنی دو راتوں کی نیند ہفتے کی رات ہوٹل میں آرام سے گزاری۔
محمد حسن الدین مڑکی