جنرل نیوز

اردو ختم ہونے جا رہی ہے

اردو ختم ہونے جا رہی ہے

انصارالحسن صدیقی

بھوپال ۔ مدھ پردیش کے دانشوروں کے لیے یہ ایک اچھی خبر ہو سکتی ہے کہ اب اسکول کالج کے بعد میڈیکل کالج بی یو ایم ایس سے بھی اردو کے خاتمے کا پروگرام ہے اب یونانی کالج میں اردو کے جگہ ہندی میں کورسز ہوں گے جو لوگ اردو کے تاجر ہیں جنہوں نے اردو کے نام پر اپنا نام اخبار رسائل سے لے کر ٹی وی چینل پر اور شہر کی گلیوں سے لے کر بین الاقوامی سطح تک مشاعرے کیے وہیں کچھ لوگوں نے اردو اکیڈمی کو بلیک میل کرنے کے لیے کبھی اردو اے اکیڈمی کے حق میں اور کبھی اردو کے اکیڈمی کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے کیے کبھی حکومت کے پالے میں تو کبھی حکومت کے خلاف اور اسی کے سہارے اپنی زندگی کی روٹی روزی چلاتے رہے مگر اردو کے لیے کچھ نہیں کیا اور اب حالات یہاں تک پہنچے کہ اردو مکتب مدرسوں سے ختم ہوتی ہوئی اسکول اور کالج کے راستے یونیورسٹی سے بھی خاتمہ ہوتا گیا اور اب میڈیکل کالج میں بی یو ایس کورسز میں اردو کی جگہ ہندی کو ملنے والی ہے

 

اس کی کوششیں تیز ہیں مگر جو اردو کے محافظ ہیں ان کا دور دور تک پتہ نہیں،،،ٹھیک ہے اردو کا جنازہ ہے بڑی دھوم سے نکلے،،،یہ حالت ہے مدھ پردیش کی جہاں پر اردو کا وجود خاتمے کی طرف ہے مگر جن لوگوں نے اردو کے نام پر تجارت کی اور اپنے اپ کو بہت قابل سمجھا ان کی نظر اندازی کی وجہ سے اب حکومت مدھ پردیش نے بھی ٹیڑھی نظر کر لی ہے،مدھ پردیش میں اردو اساتذہ کی بھرتی کب سے نہیں ہوئی یہ تو کسی کو نہیں معلوم مگر کاغذوں میں اردو میڈیم کے اسکول موجود ہیں جہاں پر اردو اساتذہ کی جگہ پر دوسرے سبجیکٹ پڑھائے جا رہے ہیں اور وہ لوگ اردو زبان سے ناواقف ہیں ان کا نام مسلم اساتذہ ہے ایسے اسکولوں میں مہمان اساتذہ رکھے جا سکتے تھے مگر کبھی بھی کسی نے بھی اس طرف دھیان نہیں دیا خود ڈی پی ائی کا کہنا ہے کہ ہم نے تمام ضلعوں کے بھی ای او کو کہا ہے کہ ضرورت پڑنے پر اردو گیسٹ رکھے جائیں مگر افسوس کسی نے یہاں پر درخواست ہی نہیں دی اور نہ ہی ان اردو کے محافظوں نے کبھی اس سلسلے میں مانگ کی،کالج اور یونیورسٹی میں جو افسران اردو میں پی ایچ ڈی کراتے تھے ان لوگوں نے یہ کہہ کر اس معاملے کو ختم کر دیا کہ اب کوئی بھی طالب علم اس طرف دلچسپی نہیں رکھتا لہذا وہ افسران دوسرے محکمے میں ڈیپوٹیشن پر چلے گئے اسی میں ایک خاتون جو ایم ایل بی کالج کی اسی محکمے کی افسر تھی وہ وقف بورڈ میں چلی گئی یہی حال برکت اللہ یونیورسٹی کا رہا اور انجام یہ ہوا کہ وہاں سے بڑی بڑی تنخواہ پانے والے اور اپنے نام کے اگے پروفیسر لکھنے والے لوگ خاموش ہیں اور اپنے دوسرے ادارے چلا رہے ہیں جن کا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔اسی طرح جو لوگ ہمیشہ اردو اکیڈمی کو نشانے پہ لے کر کبھی پریز کانفرنس کر کے تو کبھی ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کے کبھی اردو اکیڈمی کے حق میں تو کبھی اردو اکیڈمی کے خلاف ہو کر یہ بتانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم اردو کے محافظ ہیں اج ان کا بہت دور دور تک پتہ نہیں ہے اسی طرز پر جو لوگ اردو یافتہ نہیں ہیں وہ لوگ اج بھی حکومت کی گود میں بیٹھ کر حکومت کو گمراہ کر رہے ہیں اور سال دو سال بعد ریٹائر ہو کر اپنے گھر چلے جائیں گے جنہوں نے اردو کے خاتمے کے لیے ایسے کام کیے ہیں جو ہمیشہ یادگار بنیں گے،اردو کے نام لیوا صحافی جن کے بڑے بڑے مقالے صرف اپنی لیے چھپتے ہیں اور بار بار چھپتے ہیں اس سے اخبار کا پیٹ بھرتا ہے مگر اردو کے فروغ کے لیے ان کے قلم میں ایک بوند سیاہی نہیں ہے اور نہ ہی کوئی جذبہ بس ان لوگوں کا نام اردو صحافی کے نام پر چلتا رہے اور اسی کے ذریعے وہ حکومت کی تمام سہولیتیں لیتے رہیں اور وقتا فوقتا اردو کے سیمینار میں شرکت کرتے رہیں،ان تمام محافظوں کے ماتم کے بعد یہ بات قابل غور ھےکی اب اردو کا وجود اخری سانسیں لے رہا ہے جن لوگوں نے اپنے گھر سے اردو کو رخصت کیا اپنے بچوں کو اردو میڈیم میں رکھ کر وہ لوگ اصل مجرم ہے اردو کے کہ اج حکومت اس بات پر امادہ ہے کہ اسکول مدرسوں سے لے کر میڈیکل کالج تک اردو کو ختم کر دیا جائے،اردو کے دانشور نے اپنے بچوں کو انجینیئر ڈاکٹر بنایا انگریزی میڈیم سے مگر انہوں نے اپنی نسل کو اردو سے ناواقف رکھا اس کا نتیجہ اب سامنے ہے۔معتبر ذرائع کے مطابق مدرسوں کو ختم کرنے کے لیے ودھان سوا میں معاملہ جا چکا ہے اور ائندہ ودھان سوا میں اس پر کاروائی ہوگی اس کی پوری تیاری ہو چکی ہے وہ تو اچانک ودھان سوا ایوان کا وقت ختم ہو گیا ورنہ اگلے دن ہی اس پر مہر لگ جاتی ۔اسی طرح میڈیکل کالج میں بی یو ایم ایس کورسز میں اردو کی جگہ ہندی کو شامل کرنے کی تیاری ہے تاکہ ہندی زبان کے لوگ بھی بی یو ایم ایس کر سکیں،دور اندیش لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ کتنی بڑی سازش ہے اردو کو ختم کرنے کی مگر اس پر کوئی بھی ابھی تک بولنے کو تیار نہیں ہے

 

اردو کے دانشوروں کے علاوہ وہ لوگ جو اردو میں حلف لیتے ہیں ودھان سوا میں وہ بھی خاموش ہیں اور وہ لوگ بھی خاموش ہیں جن کے ووٹ سے مدھ پردیش کی 40 ودھان سبھا سیٹوں پر مسلمان ضمانت بچاتے ہیں،اس کے علاوہ اس وقت جو حکومت کے اور جو بی جے پی کے عہدے دار ہیں ان کا تو ذکر کیا ان کے لیے حکومت کا یہ اقتدام بہت بہتر ثابت ہو رہا ہے ان کا خیال ہے کہ اس سے جو اردو کی خالی سیٹیں تھیں وہ ہندی سے بھر جائیں گی بات دراصل یہ ہے کہ یہ بیچارے مسلم بھاجپائی اردو زبان سے ناواقف ہیں اور بھاجپا حکومت کی نظر میں بہت چھوٹے سے کنکر پتھر ہیں جن کا کوئی وجود نہیں ہے وہ لوگ صرف اپنا پیٹ پالنے کے لیے اس طرح کی بیان بازی کرتے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ شکوہ کس سے کیا جائے اور کون سنے گا۔یہ معاملہ تاریخ کا ایک اوراق ثابت ہوگا جس میں اردو کے تاجر درج ہوں گے اور وہ لوگ بھی بے نقاب ہوں گے جنہوں نے لمبے وقت تک اُردو کے نام پر اپنی روٹیاں سینکیں مگر اردو کے فروغ کے لیے کچھ نہیں کیا ایسے حالات میں ایک نامعلوم شاعر کا شہر یاد اتا ہے۔۔۔۔۔ جب بھی تاریخ گلشن مورخ لکھے یہ بھی لکھے کہ ہم بے سہارے رہے*

متعلقہ خبریں

Back to top button