انٹر نیشنل

ہندوستان کے سکولر کردار کو ختم کیا جانا ایک پرانی سازش ۔ قربان علی

ریاض ۔ کے این واصف

ہندوستان آج جن حالات کا سامنا کررہا ہے ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے کی ابتداُ چار دہائیوں قبل ہی ہوئی تھی جس کی بنیاد مسز اندرا گاندھی نے اپنے دوسرے دور اقتدار (۱۹۸۰) میں رکھی تھی۔ دستور کی حفاظت اور ملک کے سیکولر کردار کو قائم رکھنے کی کامیاب کوشش صرف ہندوستان کے پہلے وزیر آعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور اس دور کے قائدین نے کی۔ ان خیالات کا اظہار مملکت کے دورے پر آئے معروف صحافی قربان علی نے کیا۔ وہ “جائزہ” کے عنوان اجلاس سے مخاطب تھے۔ قربان علی کو ملک کے موجودہ حالات پر تبصرہ اور انٹر ایکٹیو سشن سے خطاب کرنے کے لئے علیگڈھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز اسوسی ایشن ریاض (اموبا) نے مدعو کیا تھا۔ قربان علی نے یہ بھی کہا کہ بابری مسجد ۱۹۹۲ میں ڈھائی گئی جب پی وی نرسمہا راؤ ملک کے وزیر آعظم تھے۔ اور اس منصوبے کی بنیاد 1984 میں رکھی گئی تھی جب راجیو گاندھی کے دور اقتدار میں مسجد کا تالا کھولا گیا بہ الفاظ دیگر اسی دن رام مندر کے تعمیر کی بنیاد پڑی۔

قربان علی نے سلسلہ خطاب کو جاری رکھتے ہوئے یہ بھی کہا کہ آزادی کے بعد ملک کی قیادت نہرو جیسے سیکولر قائد کے ہاتھ میں نہ ہوتی تو آج ملک کے حالات اور ابتر ہوتے۔دھرم سنسد کا انعقاد اور اس میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے بیانات کے خلاف PIL داخل کرنے والے بےباک صحافی قربان علی نے کہا کہ یہ اشتعال انگیز بیانات نہ صرف دستور بلکہ ملک کے وقار کو داؤ پر لگا رہے ہیں اور 2014 میں دئے گئے نعرون کی نفی بھی کرتے ہیں جن مت انصاف اور مساوات کے وعدے کئے گئے تھے۔
قربان علی نے یہ بھی کہا کہ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ آزادی کی پہلی جنگ کی قیادت آخری مغل بادشاہ بہادر ظفر نے کی اور حصول آزادی کی آخری جنگ مہاتما گاندھی کی قیادت میں لڑی گئی۔ انھون نے کہا کہ آزادی کی جنگ ایک سیکولر اور جمہوری ملک کے قیام کی بنیاد پر لڑی گئی تھی۔ اور ہمارے دستور کا preamble بھی یہی ہے۔ لیکن اس میں بغیر کسی ترمیم کے آج ملک میں عملاُ ہندوراشٹر قائم ہوچکا ہے۔

 

انھوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس ایک ہی حل بچا ہے وہ یہ کہ ملک کے سارے مظلوم اور نا انصافی کے شکار یکجا ہوں۔ BBC سمیت کئی صحافتی ادارون سے وابستہ رہے قربان علی نے یہاں مقیم این آر آئیز سے کہا کہ وہ مخالف دستور ہونے والے ہر عمل کے خلاف سوشیل میڈیا پر آواز اٹھائیں۔ دیگر لوگ ملک مین FIR اور پی آئی ایل دائر کریں۔ یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کا کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوگا۔
آخر میں انھوں نے سابق وزیر آعظم چندرا شیکھر کے کہے جملے “جب دل ٹوٹتے ہین تو ملک ٹوٹتا ہے” پر اپنی گفتگو ختم کی۔
اس اجلاس کی ابتدا ڈاکٹر عبد الاحد کی قراُت کلام پاک سے ہوئی۔ تقی الدین میر کے ابتدائی کلمات کی بعد صدر اموبا ابرار حسین نے حاضرین کا خیر مقدم کیا۔ صحافی راشد حسن (عرب نیوز) نے مہمان مقرر قربان علی کا تفصیلی تعارف پیش کرتے ہوئے انھیں ایک حق گو اور بے باک صحافی قرار دیا۔
اس موقع پر اموبا ٹیم کے ہمراہ ابرار حسین نے مہمان خصوصی قربان علی کو ایک یادگاری مومنٹو پیش کیا۔ ایک مقامی رسٹورنٹ کے ھال میں منعقد اس اجلاس میں کمیونٹی کے سرکردہ شخصیات اور علیگیرینز کی ایک بڑی نے شرکت کی۔ تقی الدین میر نے نظامت کے فرائض انجام دئیے۔ نائب صدر اموبا نجم الحسن کے ھدیہ تشکر پر اس محفل کا اختتام عمل میں آیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button