نیشنل

یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے سپریم کورٹ کا انکار

نئی دہلی _ 26 اگست ( اردولیکس) سپریم کورٹ نے اشتعال انگیز تقاریر کے معاملے میں  اترپردیش کے چیف منسٹر یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔

یہ کیس 2007 کا ہے۔ مئی 2017 میں، اترپردیش حکومت نے یوگی آدتیہ ناتھ کے خلاف اس بنیاد پر مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا کہ ثبوت ناکافی ہیں اس وقت یوگی آدتیہ ناتھ، گورکھپور کے رکن پارلیمنٹ تھے ۔ اس کے بعد الہ آباد ہائی کورٹ نے بھی فروری 2018 میں مقدمے کی سماعت کی اجازت نہیں دی۔ جس کے بعد درخواست گزار پرویز نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ۔ سپریم کورٹ کے جسٹس این وی رمنا، جسٹس ہیما کوہلی اور جسٹس سی ٹی روی کمار کی بنچ، جو آج ریٹائر ہو رہے ہیں، نے آج اس کیس کا فیصلہ سنایا۔

درخواست گزار کے وکیل فضیل احمد ایوبی نے ہائی کورٹ کے سامنے رکھے گئے دلائل میں سے ایک کا سپریم کورٹ میں ذکر کیا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ کیا حکومت دفعہ 196 کے تحت فوجداری کیس میں کسی ایسے شخص کے لیے حکم جاری کر سکتی ہے جو اس دوران ریاست کا چیف منسٹر منتخب ہو اور آرٹیکل 163 کے تحت ایگزیکٹو ہیڈ ہو۔ وکیل نے کہا کہ ہائی کورٹ نے اس معاملے پر غور نہیں کیا۔

اس پر سپریم کورٹ کی بنچ نے کہا کہ ایک بار جب آپ معیار اور  قابلیت کو دیکھیں گے، اگر کوئی مقدمہ نہیں بنتا، تو منظوری کا سوال ہی کہاں ہے؟ کوئی کیس ہو گا تو منظوری کا سوال آئے گا۔ اگر کوئی کیس نہیں ہے تو پھر منظوری کا سوال ہی کہاں ہے؟ وہیں یوپی حکومت کی جانب سے وکیل مکل روہتگی نے کہا کہ اس معاملے میں کچھ بھی نہیں بچا ہے۔

2007 میں گورکھپور میں فسادات ہوئے تھے۔درخواست گزار پرویز نے کہا کہ اس وقت کے ایم پی یوگی آدتیہ ناتھ کی تقریر کے بعد 2007 میں گورکھپور میں فساد ہوا تھا۔ اس میں کئی لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ریاستی سی آئی ڈی نے سال 2008 میں درج ایف آئی آر کی کئی سالوں تک تفتیش کی۔ اس نے ریاستی حکومت سے 2015 میں مقدمہ چلانے کی اجازت طلب کی تھی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ مئی 2017 میں ریاستی حکومت نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ جب تک ریاستی حکومت نے مقدمہ چلانے کی اجازت دینے سے انکار کیا، یوگی آدتیہ ناتھ چیف منسٹر بن چکے تھے۔ ایسے میں حکام کی طرف سے لیا گیا یہ فیصلہ شاید دباؤ میں لیا گیا ہو۔

متعلقہ خبریں

Back to top button