جنرل نیوز

وقف ترمیمی بل پر بی آرایس اور تلگودیشم کو اپنا موقف واضح کرنے پر زور

اسمبلی کے خصوصی اجلاس میں قرارداد منظور کرنے تلنگانہ و آندھرا پردیش حکومتوں سے ظہیر الدین ثمر کا مطالبہ

حیدر آباد – 4 نومبر (پریس نوٹ ) سابق رکن حج کمیٹی آندھرا پردیش و بی آرایس لیڈ رمحمد ظہیر الدین ثمر نے وقف ترمیمی بل 2024 پر بی آرایس اور تلگودیشم سے اپنے موقف کو واضح کرنے کا مطالبہ کیا کیوں کہ تلنگانہ و آندھرا پردیش کے مسلمانوں کی نگاہیں اب بی آرایس اور تلگودیشم قیادت پر ہیں جس کے ذریعہ وقف ترمیمی بل کا استرداد ممکن ہے اور کہا کہ مرکزی بی جے پی حکومت وقف ترمیمی بل 2024 کے ذریعہ وقف کے تحفظ اور شفافیت کے نام پر اوقانی جائیدادوں کو تباہ و تاراج کرتے ہوئے ہڑپنے کی گھناؤنی سازش کر رہی ہے

 

جو مسلمانوں کیلئے نا قابل قبول ہے جس کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنا چاہئے کیوں کہ اگر مودی سرکار پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل پاس کرتی ہے تو ملک میں بڑے پیمانہ پر مساجد ، مدارس، درگاہوں تعلیمی اور دینی و خیراتی اداروں پر سوالیہ نشان لگ جائے گا اور وقف املاک کے ذریعہ مساجد سمیت بیشمار دینی مراکز واداروں اور خانقاہوں کا تحفظ بھی خطرہ میں پڑ جائے گا اور کہا کہ مجوزہ بل میں نہ صرف وقف کی تعریف کے نام پر متولیوں کی حیثیت اور وقف بورڈس کے اختیارات سے چھیڑ چھاڑ کے علاوہ سنٹرل وقف کونسل اور وقف بورڈ کے ارکان کی تعداد میں اضافہ کے نام پر غیر مسلم ارکان کی شمولیت کو بھی لازم قرار دینے کی تجویز پیش کی گئی جب کہ چیف منسٹر آندھرا پردیش این چندرا بابو نائیڈو نے وقف بورڈ میں کسی بھی غیر مسلم رکن کو شامل کرنے کی مخالفت کی ہے۔ ظہیر الدین ثمر نے کہا کہ سنٹرل وقف کونسل میں پہلے ایک غیر مسلم رکن کو شامل کیا جا سکتا تھا لیکن مجوز وبل میں اب اس کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے 13 تک کیا جا سکتا ہے

 

جس میں دوارکان کو تو لازماً شامل کرنا پڑے گا جب کہ دستور ہند کے آرٹیکل 26 میں مذہبی فرقوں اور طبقات کو اپنے مذہبی امور ، اداروں اور جائیدادوں کے انتظام کی آزادی کے ساتھ مذہبی و رفاہی مقاصد کے لئے اداروں کے قیام کے علاوہ مذہبی معاملات کی انجام دہی کی اجازت دی گئی اسی مناسبت سے اقلیتوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنے مذہبی و ثقافتی اداروں کو نہ صرف قائم کریں بلکہ اس کو اپنے انداز سے چلا ئیں لیکن وقف بل کی مذکورہ بالا تجویز دستور کی خلاف ورزی کے مترادف ہے ۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مسلمانوں کے اتحاد اور بلالحاظ مذہب و مسلک و فرقہ متحدہ طور پر بل کی مخالفت کو وقت کی اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے وقف ترمیمی بل کے مضر اثرات سے عوام کو واقف کروانے کیلئے مساجد میں بیانرس و دیگر تشہیری مواد اور خطابات کے ذریعہ شعور بیداری پروگرام منعقد کرنے پر زور دیا تا کہ عوام کو معلوم ہو جائے کہ مرکزی حکومت مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کو تباہ کرنے کے مشن پر عمل پیرا ہے اور کہا کہ اوقانی جائیدادوں کے تعلق سے مرکزی حکومت کے قوانین کے خلاف احتجاج بھی ہمارا جمہوری حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ مرکزی حکومت کے متعارف کردہ وقف بل کی مخالفت کرتے ہوئے وقف جائیدادوں کے تحفظ کیلئے ہر مسلمان کو آگے آنے کی ضرورت ہے اور کہا کہ وقف بل کے خلاف مشتر کہ پارلیمانی کمیٹی کو روانہ کرد و احساسات کو غیر جانبدارانہ انداز میں پیش کرنا چاہئے کیوں کے مسلمانوں کو جے پی سی پر پورا اعتماد ہے کہ وہ اوقافی مسائل پر حاصل کردہ تجاویز کو غیر جانبدارانہ انداز میں پارلیمنٹ میں پیش کرے گی ۔ انہوں نے کہا کہ وقف جائیدادوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے

 

کیوں کہ مرکزی حکومت کے مجوزہ قانون سے وقف املاک کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے جس کے بعد مستقبل میں اوقافی جائیدادوں پر مسلمانوں کا کوئی حق نہیں رہے گا۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مسلم قائدین بالخصوص علمائے کرام و مشائقین عظام کے علاوہ دانشوران ملت پر زور دیا کہ وہ این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کے سربراہوں بالخصوص این چندرا بابو نائیڈو اور نتیش کمار کے علاوہ تلنگانہ کے قائد اپوزیشن کے چندر شیکھر راؤ سے ملاقات کر کے وقف بل کے خلاف اپنے موقف کی وضاحت طلب کرنے پر زور دیا۔ انہوں نے تلگور یاستوں تلنگانہ و آندھرا پردیش حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اسمبلی کا خصوصی اجلاس طلب کر کے قرارداد منظور کرتے ہوئے وقف ترمیمی بل 2024 کے خلاف اپنے موقف سے مرکزی حکومت کو واقف کروائیں جس کی جمہوریت میں گنجائش بھی ہے۔ انہوں نے دونوں ریاستوں کی اپوزیشن پارٹیوں بالخصوص بی آرایس پر بھی زور دیا کہ وہ بھی سیاست سے بالاتر ہو کر اس بل کی مخالفت کریں تاکہ مسلمانوں کی اوقافی جائیدادوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔

 

انہوں نے مرکزی حکومت مطالبہ کیا کہ وہ اپنی اس حرکت سے باز آتے ہوئے مذکور ہ وقف بل سے فوری دستبرداری اختیار کرے بصورت دیگر مسلمانوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button