اسلامی خطوط پر مسلم بچیوں کی تعلیم وتربیت وقت کی اہم ترین ضرورت
ڈاکٹر شاہ جہاں ندوی
(ڈاکٹر مفتی محمد شاہ جہاں ندوی ملک کے مشہورعالم ، معروف اسلامی محقق و اسکالراورجید فقیہ ہیں۔ آپ کا شمار ملک کی مشہور علمی شخصیات میں ہوتا ہے)۔
آپ کی بنیادی دلچسپی
شریعت ، حدیث ، تفسیر ،افتاء بحث وتحقیق اوراسلامی مالیات سے ہے ۔
آپ جامعہ سید احمد شہید احمدآباد، کتولی ، ملیح آباد میں تدریس اورافتاء کےشعبے سے وابستہ ہيں۔ دختران ملت کی مشہور درسگاہ جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور ، بہار اور اس کے روح رواں مشہور عالم دین مولانابدیع الزماں ندوی قاسمی سے آپ کابڑاوالہانہ اورمخلصانہ تعلق ہے ، آپ جامعہ کی دعوت پر اپنا انتہائی قیمتی وقت نکال کرمسلسل آپ نے قیمتی محاضرات سے طالبات جامعہ کومسفید فرماتے رہتے ہیں)
نحمدہ ونصلی علیٰ رسولہ الکریم امابعد!
عزیزطالبات جامعہ فاطمہ للبنات سے میرا قلبی تعلق رہا ہے جب سے جامعہ کے بانی و مہتمم اور ملک کے جید عالم دین مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی زیدمجدہ سے میرا قلبی تعلق ہوا اس وقت سے جب بھی میرا ادھر آنا ہوتا ہے تو میری یہی کوشش رہتی ہے کہ تھوڑی دیر ہی صحیح لیکن جامعہ کو وقت دینا ہے۔
اس دنیا کےفساد سے بچنے کے لئے تعلیم بہت اہم چیز ہے ، اور آج ہمارا موضوع ہے ” تعلیم ، تقاضے اور ہماری ذمہ داریاں” آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے کے دور کو زمانۂ جاہلیت کہاجاتا ہےاور دنیا میں گویا کہ ایک طرح کا فساد تھا اسی کا قرآن نے نقشہ کھینچا ہے” ظَہر الفساد في البر والبحر بما كسبت ايدي الناس” اور یہ لوگوں کے اعمال کی وجہ یہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وضاحت کی ہے کہ جب انسان راہ سے بھٹکتا ہے تو کس کس کی پوجا کرنے لگتا ہے اس وقت نبوت سے پہلے یہ صورت حال ہو گئ تھی۔ تو اللہ نے آپ کو منصب نبوت سے سرفراز کرتے ہوئے سب سی پہلے فرمایا اقرأ یعنی ان تمام برائیوں اور فساد کی جڑ یہ جہالت ہی ہے۔
تعلیم اس وقت مفید ہے جب کہ الله کے نام کے ساتھ مربوط ہو۔ آپ جو تعلیم حاصل کر رہیں اس کی بڑی اہمیت ہے یہ سب کو نہیں ملتا اللہ نے آپ کا انتخاب کیا یہ بہت بڑی سعادت مندی ہے ۔
ظاہر سی بات ہے حکومت بننے پر لیڈروں کا انتخاب کرتے ہیں۔ اسی طرح اللہ اپنے بندوں میں سے اس دین کے لئے انتخاب کرتا ہے۔بہت سے لوگ دین کے لئے مال خرچ کرتے ہیں لیکن ان کی تمنا ہوتی ہے کہ ہمارا کوئی بیٹا یا بیٹی عالم،عالمہ ہوتے ۔لیکن کس کے سینے میں اس علم کو رکھنا ہے یہ اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اس سے ہمیں یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس میں بچیاں جو دین کا علم حاصل کر رہی ہیں ان کا مرتبہ اللہ کے نزدیک کتنا بڑا ہے ، یہ بہت بڑا مقام ہے کہ آپ شریعت کا علم حاصل کر رہی ہیں۔ جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپورکی طالبات کی طرف سے نکلنے والاماہنامہ مجلہ ” ندائے فاطمہ” میں بھی آپ کی معیاری اور تحقیقی مضامین اور تحریروں کو دیکھتا ہوں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ بڑی محنت و لگن سے علم حاصل کر رہی ہیں مگر اس کا تقاضا یہ ہے کہ علم اللہ سے مربوط ہو اور اللہ کی خوشنودی کے لئے علم حاصل کریں۔علم سیکھنے کے بعد علم کا مصداق پہلےخود ہونا چاہئے ۔
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو ۔تم اپنے اوپرقرآن کو لازم کر لو اور فرماتی ہیں كان خلقه القرآن کہ آپ کا اخلاق پورا کا پورا قرآن ہے۔ آپ چلتا پھرتا قرآن ہیں آپ کو جو حکم ہوتا ہے آپ سب سے پہلے مخاطب ہوتے ہیں۔اور اللہ نے آپ کے دربار کے آداب کو خود متعین کیا ہے کہ نبی کے سامنے کوئی بلند آواز سے کوئی بات نہ بولے ایسا کرنے والے کو ناسمجھ قرار دیا گیا۔ایک مرتبہ ایک بدو نے آپ کی چادر کو اس طرح کھینچا کہ آپ کی گردن میں خراش آگئی جب آپ نے اس کو دیکھا تو اس کو نظر انداز کر دیا اور اس نے مال کا مطالبہ کیا تو اس کو اور زیادہ مال دیا ۔یہ تھے آپ کے اخلاق و اعمال جس کو آپ اپنی ذات پر سب سے پہلے اس کا انطباق کیا۔
آپ جب یہاں تعلیم حاصل کرہی ہیں تو اخلاق کے اس اعلی مقام پر پہنچیں کہ جب آپ یہاں سے جائیں تو لوگ آپ کے بارے میں کہے کہ یہ جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور کی تعلیم کا اثر ہے۔ہم سب کا رشتہ اللہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک ہے۔
مگر اس دور میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ہم عمل سے دور ہو گئے ہیں اس لئے جو علم حاصل کریں اس پر ہم عمل بھی کریں ہم دین کی نمائندگی اس طرح کریں۔ ہمارا عمل ، ہمارا اخلاق ہمارے علم کے مطابق ہونا چاہیے۔
جب قول وعمل اور فعل میں تضاد ہوتا ہے جیسے لوگ سوچتے ہیں کہ اسلام بہت اچھا ہے لیکن مسلمان اس طرح عمل کیوں نہیں کرتے؟ صرف نظریات سے کام نہیں چلتا عمل بھی ہونا چاہئے ہم پڑوسیوں کو دین کی دعوت دیں اور سب کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو مسلم ہی نہیں بلکہ غیر مسلم کے نزدیک بھی بے مثال بن جائیں گے بعض عالمہ کے بارے میں سنا ہے کہ وہ سسرال گئیں تو اس کے پاس کچھ غیر مسلم عورتیں آتی تھیں وہ ان کے کردار سے اتنا متاثر ہوئیں کہ انہیں بھی عمل کرنے کا شوق پیدا ہو گیا ، اس لئے ہر میدان میں آپ کا قابل تقلیدچھاپ پڑنا چاہیے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ آپ با شعور ہیں اور آپ یہ کام بحسن خوبی سر انجام دے سکتی ہیں۔
عزیز طالبات! اسلام کےاندر ایک سے ایک محدثات اور مفسرات رہی ہیں۔
علامہ کاسانی رحمۃ اللہ علیہ بہت بڑے فقیہ تھے ان کی اہلیہ بھی بہت بڑی فقیہہ تھیں کہ کوئی مسئلہ کا جواز ثابت ان کے اور ان اہلیہ دونوں کے دستخط سے ہوتا اور کوئی فتوی بغیر ان کی دستخط کے جاری نہیں ہو سکتا تھا۔ اس سے آپ اندازہ لگا سکتی ہیں کہ خواتین گھر میں رہ کر بھی علم میں اتنے اعلی مقام پر پہنچ سکتی ہیں۔
سکینہ ایک بہت بڑی محدثہ تھیں اہل بیت میں سے تھیں ہزاروں مرد ان سے علم حاصل کرتے تھے معلوم ہوا کہ پردہ کے اندر رہ کر بھی خواتین نے اتنا بڑا مرتبہ حاصل کیا ۔
آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ آپ اسلام میں ایک نقش چھوڑ کر جائیں آپ کا نیک نامی کے ساتھ چرچا ہو۔اپنے علم کو اللہ کے ساتھ مربوط کریں کچھ لوگ ایسا علم حاصل کرتے ہیں جن سے ایسے ہتھیار بناتے ہیں کہ جس سے بے قصور لوگوں کے مارنے کا کام انجام دیا جاتا ہے۔تو ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یہ اللہ سے مربوط نہیں ہوتا۔
تعلیم کی ذمہ داری میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ہم جو حاصل کریں اس کے برحق ہونے پر یقین ہونا چاہیے۔ خواتین کو متوجہ کریں بہت سی ایسی خواتین ہیں جن کو دین کی واقفیت نہیں ہے ان کو دینی تعلیم سے جوڑا جائے کہ کیسے وہ یہاں آئیں آپ کا character اتنا اچھا ہونا چاہئے کہ لوگ متاثر ہوں ، جب آپ اپنے گھروں کو جائیں تو اپنے خاندان اور محلہ کی بچیوں کو اس علم کی طرف متوجہ کرنا یہ پہلی ذمہ داری ہے۔
دوسری ذمہ داری یہ ہے کہ آپ اپنے مضامین و مقالات کے ذریعہ میڈیا پر یہ پھیلائیں کہ مسلم بچیوں کو چاہئے کہ وہ پردہ کریں اور اسلام پر عمل کریں کیوں کہ یہی سچا اور برحق مذہب ہے اسی پر عمل کرکے زندگی میں کامیابی مل سکتی ہے بالخصوص مسلمان عورتوں کے سلسلہ میں اسلام میں جو رعایتیں اور سہولتیں دی گئی ہیں ان کو اجاگر کریں ۔
جب بھی موقع ملے دختران ملت اورخواتین اسلام کے سامنےاسلامی تعلیمات کو اچھی طرح پیش کریں حدیث ،فقہ اور تفسیر کی روشنی میں دنیا کے مسائل کو پیش کریں۔
تیسری ذمہ داری یہ ہے کہ آپ خواتین کااجتماع کر سکتی ہیں اگر ایک خاتون بھی نیک ہو جائے تو اس کا پورا خاندان نیک ہو سکتا ہے اس لئے آپ جب چھٹیوں میں جائیں تو خواتین کو جمع کر کے دعوت و اصلاح کا کام شروع کریں۔
چوتھی ذمہ داری یہ ہے کہ جب گھر جائیں تو جو بہنیں ہیں ان کے اندر جو کمی ہے اس کو کیسے ختم کر سکتے ہیں یہ ذاتی رابطہ ہونا چاہیئے کسی خاتون کے بارے میں معلوم ہو کہ یہ خلاف شرع کام کرتی ہے تو ان سے مل کر سمجھائیں۔جب قریب آئیں گی تو آپ کی بات سنیں گی۔تو یہ ذمہ داریاں ہیں جنہیں آپ اچھی طرح نبھائیں۔
امید ہے کہ میں نے جو باتیں آپ لوگوں کے سامنے رکھی ہیں اس سے آپ کو فائدہ حاصل ہو اور میرے لئے بھی مفید ہو ۔آمین۔