این آر آئی

"شکوہ اور جواب شکوہ "ایک بلند آہنگ قوت آفریں و متحرکہ نغمہ

ادارہ ہدف کا دمام میں پُروقار ادبی پرگرام ـ ممتاز اصحابِ فکر کا خطاب ، علامہ اقبال کو خراج عقیدت

دمام ( سعودی عرب ) یکم دسمبر/سعودی عرب کے معروف ادارے "ھدف” کی جانب سے علامہ اقبال کی دو شہکار نظموں "شکوہ اور جوابِ شکوہ "پر لکچر کا اہتمام کیا گیا۔ "ایوانِ ھدف” دمام کا دیدہ زیب عربی خیمہ جو شہر کے سلجھے ہوئے سامعین اور علمی سرگرمیوں کا مرکز بن چکا ہے۔ اس پروگرام میں "نغماتِ اقبال ” کے حصہ نے خوش گلو فنکاروں کی مدد سے ایک سحرآفریں ماحول بنائے رکھا۔

 

جمشید خان صاحب جو بنیادی طور پر انگریزی کے استاد ہیں ان کی دل کش اُردو نظامت نے شروع سے آخر تک پروگرام کو تازگی کی کمک پہنچائی۔ کلیدی موضوع پر جناب نعیم جاوید نے اجلاس کو دو حصوں میں مکمل کیا۔پہلے حصہ میں نظم ” شکوہ” پر تقریر کی پھر چائے کے وقفے کے بعد "جوابِ شکوہ” پرموثر تقریر کی ۔ آخر میں سوالات کے جوابات دئیے اور سامعین کی طرف سے تفہیم اقبال پر سلسلہ وار ویڈیو کلپس بنانے کی تجویز پر دیر تک گفتگو رہی۔ کئی اہم شخصیات نے اس پروجیکٹ پر اپنے بھر پور تعاون کی پیش کش کی۔

 

نعیم جاوید جو ادارہ ء ھدف کے بنیاد گزار ہیں اپنی دل کش طرزِ گفتگو اورحسنِ اظہار کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ شکوہ اور جواب شکوہ کے مختلف زبانوں میں منظوم تراجم اور نثری تجزیے شائع ہوچکے ہیں ۔ شارحین ِ اقبال کی سینکڑوں کتابوں کے اہم ترین مضامین ان ہی نظموں پر مشتمل ہیں۔ 1911 ء میں لکھا گیا یہ شعری شہکار”شکوہ ” ایک تہذیبی مرثیہ ہے۔ جو ایک بلندآہنگ ،قوت آفریں اورمتحرک نغمہ ہے۔ جس کے مضامین قوتِ عشق ، خلافت اسلامیہ کی گم گشتہ سیاسی متاع کا ذکر، رب رنگ معاشرے کا قیام، ملت کی اجتماعی تقدیر سازی، حسنِ تدبیر کا برتاو، رسول عربی ﷺپر جان و مال فدا کرنا وغیرہ۔ اس نظم میں کئی تاریخی کردار تلمیحات میں رکھ دیے گئے ہیں۔ ۔ "عقبہ بن نافع” جیسی عظیم شخصیت کے حوالے سے کئ اشعار کو حیات ِدائمی عطا ہوئی۔ ” دشت تو دشت ہے دریا بھی نہ چھوڑے ہم نے "۔ جہاں سمندوں کے چھاتیوں پر عزائم سے گزرنے والوں کا ذکر ہے۔

 

1913 میں لکھاگیا "جوابِ شکوہ” تو یقینی منزلوں کا بشارت نامہ ہے۔ جس کا سیاسی پس ِ منظر بلقان کی جنگ تھی ۔جس میں ترکی کے خلاف برطانیہ کی تائید سے بلغاریہ ، یونان، سرویا اور مونٹی نیگرو نے حملہ کرکے ترکی کا 5لاکھ مربع میل سے زیادہ علاقہ چھین لیا تھا۔ عین اسی وقت ہندوستان میں کان پور کی ایک سڑک کی توسیع میں مسجد کی شہادت پر برپا ہنگامہ میں کئی مسلمان اس کے تحفظ میں شہید ہوئے تھے۔ جنگ ِ بلقان کے سپاہیوں اور محاذ کے لیے مالی اعانت کے لیے یہ نظم لاہور کے موچی دروازہ پر مولانا ظفر علی خان کے آواز پر برپا ایک جلسہ میں پڑھی گئی ۔جہاں اس نظم کے ہرشعر کی بولی لگی پھر اس بولی پر بلکہ نوازی گئی شال پر جو کثیر رقم ملی اسے اقبال نے قوم کے حوالے کردی۔ نظم پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ پوری کائنات کو اپنے دل کی آواز بنائی اور اس کی صدائے باز گشت کا بھی گواہ بنادیا ہے ۔ بلکہ پوری کائنات سانس روک کر نظم سن رہی ۔اقبال کی فراواں ذہانت، اعجاز سخن اور افکار کی بلندی نے ایک مجلسی نظم کو ایک عالمی شعری شہکار بنا دیا ۔ ورنہ عوامی شاعر کا شعری سرمایہ تو حالات بدلتے ہی ازکار رفتہ ہوجاتا ہے۔ اس کے مضامین بھی خدا کی آواز میں عروج و تمکنت کی تمناوں کا ذکر ۔صفوں کی کجی کا ذکر۔اپنے آبا کی خوبیوں اور عظمت کا حوالہ اور پھر ہمارے قول و عمل کے فاصلے۔ عصر کے شعلہ پوش مسائل کا ذکر۔ہر شعر علامہ کے فکری نظام کی تشکیل سے ابھر کر نظم کا حصہ بنا ۔ جہاں ضبط ِ نفس و تربیت خودی۔پراگندہ اور منتشر قوتوں کو ترتیب دینے کا امکان۔ شاعر اپنے ہم نفسوں کی ناپختگی سے نالاں ، احساس زیاں سے محروم اور ان کی کم نظری پر احتجاج کرتا ہے۔

 

لکچر کے دوران جناب نعیم جاوید نے علامہ اقبال کی زندگی کے پانچ اہم واقعات کا ذکر کیا۔ 1۔ان کے بچپن میں تربیت جس کی گونج ان کے فارسی قطعات میں تک نظر آئی۔ 2۔ اٹلی کے سفر میں مسولینی سے ملاقات پر احادیثِ رسول سے شہروں کی آبادی کے تعین کا ذکر۔ 3۔ برطانیہ میں برگسان سے ملاقات اور حدیثِ قدی "لاتسبو الدھر”(زمانے کو برا نہ کہو) پر برگسان کا خوش گوار حیرت زدہ ہونا۔ 4۔ اقبال کی وفات کے بعد آنسووں میں بھیگا ہوئے قرآن کے نسخے کا ذکر۔ 5۔ آخری عمر میں مدینہ کے سفر کی تیاریوں میں مصروف رہنا وغیرہ۔

 

اس پروگرام میں گلو کاروں میں جناب خالد صدیقی، نعیم نیازی شریک رہے ۔ شہر کی اہم ترین شخصیا ت میں جناب بابر صاحب، ندیم ، ڈاکٹر ثاقب، جواد، محمدمولانا ، جنید ، عبدالمعز اور دیگر احباب ایک کامیاب پروگرام میں شامل رہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button