مضامین

معمار انسانیت ۔ افتخارِ آدمیت ۔ معلم۔ یومِ اساتذہ کے موقع پر خصوصی مضمون

تحریر :حافظ چاند پاشاہ ، نارائن پیٹ

معمار انسانیت ۔ افتخارِ آدمیت ۔ معلم
دنیا میں کروڑوں افراد سینکڑوں پیشوں سے وابستہ ہیں لیکن ان سب میں جس پیشہ کو عزت، افتخار، شہرت، تقدس، شان و شوکت حاصل ہے وہ پیشہ معلمی کا ہے۔ پیشہء معلمی کا وجود معلم سے وابستہ ہے اس لئے ایک معلم کو معمارِ انسانیت اور افتخارِ آدمیت بھی کہا گیا ہے۔
معلم کا اعزاز وافتخار اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ نبئ آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک موقع پر اپنی ذاتِ اقدس کو معلم قرار دیا اور فرمایا کہ میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ آپ ایسے معلم اولین وآخرین ہیں کہ آپ کی ذاتِ اقدس سے علم وفن کے دریا بہتے ہیں۔ ایک اور مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے آپ کو علم کا شہر قرار دیا یہ آپ کے افکار علم وفن کے تئیں فروغ وارتقاء کی معراج ہے۔
ایک معلم سماج کی فکری ، ذہنی ارتقاء اور نشوونما میں اہم کردار ادا کرتا ہے کیوں کہ یہ اپنی میراث کے بجائے میراثِ پیمبری تقسیم کرنے والا ہے اسی نکتہ نے پیشہ معلمی کو تقدس عطا کیا۔

 

معلم۔کی تعریف وتوصیف میں لاکھوں صفحات لکھے گئے۔ معلم وہ بھی ہے جو اپنے فن پر عبور رکھتا ہے۔ معلم وہ بھی ہے جو طلبہ کی نفسیات کو اچھی طرح جانتا ہے۔ معلم وہ بھی ہے جو کمرہ جماعت ہی میں اپنے طلبہ کو سبق یاد کرودے۔ معلم وہ بھی ہے جو تدریس کا ہنر جانتا ہے لیکن ایک حقیقی وسچا معلم وہی ہوگا جو اپنے شاگردوں پر اپنی مہارت اور جامعیت کا رنگ چڑھا دیا ہو۔
قوموں کی تقدیریں صرف آرزووں اور تمناوں سے نہیں بلکہ اس میں مسلسل حرکت وعمل اور اخلاص کا لہو درکار ہوتا ہے۔ ایک دیانت دار امانت دار معلم قوم کی تقدیر بنانے میں نہایت اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر وہ اپنی شخصیت، اپنی فکری جولانیاں، اپنی خداداد صلاحیتیں، اپنا جوہرِ علم وفن، اپنا طرزِ تدریس، اپنا اسلوبِ تعلیم اور اپنی فنا فی العلم ہستی کے عناصر اپنے طالب علموں میں منتقل کرتا ہے گویا وہ مستقبل کے نوجوان قائدین ، مصلحین و معمارانِ قوم کی تشکیل وتزئین کا فریضہ انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اس طرح ایک معلم اگر اپنے پیشے سے انصاف کرتا ہے تو ذرہ کو آفتاب ، ادنیٰ کو اعلیٰ ، قطرہ کو دریا اور دریا کو سمندر، کلی کو گل اور گل کو گلستان بنا سکتا ہے۔
ایک معلم کا فریضہ یا ڈیوٹی ایک بالٹی کے پانی کو دوسری بالٹی میں ڈالنا نہیں بلکہ اپنے سینے کے گنجینہ الفاظ و معانی کو پورے شعور و فکر اور صلاحیت و صالحیت سے منتقل کرنا ہے۔
ایک سچا حقیقی معلم کتابی لفظوں اور جملوں کا اسیر نہیں ہوتا بلکہ اس لفظی کتاب سے ہٹ کر شعور و فکر کی وہ کتاب جو اس کی حرکات و سکنات, اس کی دلی کیفیات , اس کی صداقت و امانت اور اس کی بصارت و بصیرت سے تصنیف پاتی ہے. اپنے شاگردوں کو پڑھاتا ہے جس کے ان دیکھے تاثرات کے تحت ابو حنیفہ, غزالی, رومی, عطار, رازی, ابن سینا , ارسطو, ابن قیم جیسے لافانی شہرت کے حامل شاگرد تشکیل پاتے ہیـں اور تاریخ کا لازمی حصہ بن جاتے ہیـں.
ایک با شعور ,با احساس , با بصیرت اور استاذ کامل کی جگہ کوئی مشکل ہی سے پاسکتا ہے. ہر مدعی اس کا اہل ثابت نہیی ہوسکتا.

 

ایک جوہری پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے اور ایک معلم ایک آدمی کے بچہ کو تراش کر انسان بناتا ہے. ایک معمار ظاہری عمارت کھڑا کرتا ہے. ایک معلم ایک طالب علم کی ذہنی , فکری و شعوری عمارت کی تعمیر کرتا ہے جو اپنے فکر وتدبر کی ایک شمع تاباں سے ہزارو‌ں عمارتوں کو روشن کردیتا ہے.
معلم کی مثال ایک بحر مواج اوربہتےصاف و شفاف دریا کی سی ہے جوہمیشہ جاری و ساری رہتا ہے اور پیاسوں کی تشنگی بجھاتا رہتا ہے. وہ تعصب سے دور ہوتا ہے اور اپنے پیشہ میں ماہر و مشاق ہوتا ہے. وہ تشکیل و تعمیر پر مامور ہوتا ہے. تخریب کاری اور توڑپھوڑ کا مزاج نہیں رکھتا. وہ پست فطرت نہیں بلکہ بلند فطرت ہوتا ہے. وہ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں.

 

آج کی ماڈرن ,جدید ,عصری , پل پل بدلتی دنیا میں ہر روز ایک نیا منظرنگاہ و دل کو لبھانے ہمارے سامنے آرہا ہے اور ذہن و فکر کو متا‌ثر کرتا جارہاہے. مگر ایک معلم اور حقیقی معلم کا مقام و مرتبہ , رتبہ و درجہ آج بھی مسلم اور متفق علیہ ہے. اگر وہ معلم حق تعلیم ادا کرتا ہے, حق تدریس ادا کرتا ہے. حق طالب علم ادا کرتا ہے. حق انسانیت ادا کرتا ہے. حق آدمیت ادا کرتا ہے. حق امانت ادا کرتا ہے.حق دیانت ادا کرتا ہے. وہ خاکی ہوتے ہوئے بھی ملکوتی ہے, وہ فرشی ہوتے ہوئے بھی عرشی ہے. وہ ادنٰی ہوتے ہوئے بھی اعلی ہے. وہ ذرہ ہوتے ہوئے بھی آفتاب ہے. فارسی میـں سچ ہی کہا گیا ہے جائے استاذ خالی است.

متعلقہ خبریں

Back to top button