مضامین

موبائل نے ہماری زندگی میں سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے. مسلم نوجوان موبائل کے منفی استعمال سے اپنی زندگی تباہ کررہے ہیں

عبدالغفار صدیقی
چیرمین راشدہ ایجوکیشنل ایند سوشل ٹرسٹ
9897565066
خالق کائنات کی بنائی ہوئی اس دنیا میں جو بھی چیزیں ہیں وہ انسانوں کے لیے نعمت ہیں۔اب یہ انسان کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ ان نعمتوں سے خود بھی فائدہ اٹھائے اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچائے۔یہاں تک کہ انسانی جسم کے اعضاء بھی اسی زمرے میں آتے ہیں۔یہی دو ہاتھ ہیں جن سے آپ کسی کو سہارا دے سکتے ہیں،اور انھیں ہاتھوں سے آپ کسی کو دھکا دے سکتے ہیں۔یہی زبان کسی کا حوصلہ بڑھاتی ہے تو کسی کے دل کو کبھی نہ بھرنے والے گھاؤ دے دیتی ہے۔دنیا میں ہر طرح کے لوگ ہمیشہ رہے ہیں۔وہ بھی جو خدا کی عطا کردہ نعمتوں سے فائدہ پہنچاتے رہے ہیں اور وہ بھی جنھوں نے انسانوں کو بھی تباہ کیا اور انسانیت کو بھی۔میرا اور آپ کا شمار کس فہرست میں ہے یہ دیکھنے اور غور کرنے کا مقام ہے۔
گزشتہ سو سال میں بہت سی چیزیں ایجاد ہوئیں۔جس میں جہاں جنگی اور دفاعی سازو سامان کے طور پر میزائل اور ایٹم بم بنے،وہیں راستوں کے فاصلے کم کرنے والے ہوائی جہاز بنے،ایک طرف میڈیکل سائنس نے ترقی کرکے عمل جراحی کی تکالیف کو ناقابل یقین حد تک کم کیا تو الیکٹرانک کی دنیا میں رات کو دن بنادینے والے بلب روشن ہوگئے،ایک زمانہ وہ تھا جب اندھیرے کے ڈر سے لوگ رات کا کھانا سورج ڈوبنے سے پہلے ہی کھالیتے تھے اور ایک آج کا وقت ہے کہ کرکٹ کا کھیل اس وقت شروع ہوتا ہے جب سورج غروب ہوجاتا ہے۔کہاں وہ زمانہ کہ پیغام رسانی کے لیے پوسٹ کارڈ لکھے جاتے،ہفتوں ڈاکیہ کی راہ دیکھی جاتی،دیہاتوں میں کسی منشی کو پڑھنے کے لیے تلاش کیاجاتا،کہاں آج کا دن کہ بٹن دبائیے،آواز بھی سنئے،اور اپنے چاہنے والوں کا دیدار بھی کیجیے۔
موبائل اور انٹر نیٹ کی ایجاد کمیونیکشن کی دنیا میں ایک بڑا انقلاب ہے۔ابھی یہ انقلاب جاری رہے گا۔موبائل اور انٹرنیٹ نے دنیا کو واقعی ایک گاؤں بنادیا ہے۔ہمیں اور آپ کو اندازہ نہیں کہ یہ ایجاد کس قدر بڑی نعمت ہے۔اگر آپ اس کے فائدے شمار کرنا چاہیں تو نہیں کرسکتے۔آپ اپنے عزیزوں سے بات کرتے ہیں،ان کی تصویریں دیکھتے ہیں،ان کے پیغامات پڑھتے ہیں،اپنی پوسٹوں پر کمنٹ حاصل کرتے ہیں۔اپنی صلاحیتوں کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔دوسروں کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اب کسی بہو کو ریسیپی جاننے کے لئے ساس اور نند کی خوشامد نہیں کرنا پڑتی،پورا کچن چھوٹے سے موبائل میں موجود ہے۔آپ کو کچھ خریدنے کے لیے کہیں نہیں جانا ہے،پورا بازارآپ کے سامنے ہے۔اب بینکوں کی لائنوں میں بھی کمی آئی ہے۔جہاں سے چاہیں رقم منگائیے اور جہاں چاہے بھیج دیجیے۔لیکن آپ کی ذرا سی غلطی سے ایسا نہ ہو کہ رقم کسی اور کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوجائے۔
ایک طالب علم،ایک استاذ،ایک ڈاکٹر اور ایک انجینئر کے لیے موبائل میں بہت مواد ہے۔طلبہ اپنے سوالوں کے جوابات حاصل کریں،اپنے مضامین کی اسٹڈی کریں،کہیں بھی بیٹھے ہوئے استاذ سے فیض اٹھائیں،اب ڈاکٹر کو آپریشن کے لیے چلنے کی بھی ضرورت نہیں۔امریکہ میں بیٹھا ہوا ڈاکٹر بھارت کے اسپتال میں آپریشن کرسکتا ہے۔دنیوی معلومات کے ساتھ دینی معلومات بھی ہیں،پورا قرآن موجود چاہے سنئے،یا پڑھئے،یا دیکھیے،جس عالم کی تفسیر چاہیں پڑھیں،حدیث کی تمام کتابیں موجود ہیں،جن سے چاہیں استفادہ کریں۔
اچھی اور مفید باتوں کے ساتھ فساد اور بگاڑ کا مواد موجود ہے۔فواحشات کا پورا بازار ہے،آن لائن طوائفیں موجود ہیں۔سیکس میں اضافہ کرنے والی دوائیں اور براہ راست مشوروں کے لیے حکماء موجود ہیں۔رشتے ناطوں کی سائٹیں ہیں جہاں اپنی مرضی کا جوڑا منتخب کیا جاسکتا ہے۔جوئے اور سٹے کی معلومات بھی دستیاب ہیں۔کھیلوں کے نام پر ہزاروں گیم ہیں،بچوں کی کہانیاں،کارٹونی فلمیں،نظمیں اور ڈرامے موجود ہیں،عقائد کو بگاڑنے والی،خدا سے باغی کرنے والی سائٹیں ہیں۔غرض شیطان سے متعلق جو کچھ ہوسکتا ہے بلکہ ابلیس کے وہم و گمان میں جو نہ ہو،وہ آج کے دور میں انٹر نیٹ کے ذریعے ہمارے موبائل کی اسکرین پر موجود ہے۔
خیر و شر کا یہ معرکہ ہمیشہ رہا ہے۔ابلیس اور آدم کی ذریت روز ازل سے دست بہ گریباں رہی ہے۔ذرائع بدلتے رہے ہیں۔موجودہ دور میں ہر چیز کی رفتار میں اضافہ ہوگیا ہے۔لیکن میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان نوجوان جس قدر موبائل کا غلط استعمال کررہا ہے۔شاید برادران وطن نہ کررہے ہوں۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ میں مسلم ہوں اور مسلم علاقوں میں رہتا ہوں اس لیے مجھے اپنے بچے زیادہ بگڑے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ مگر یہ بات غور کرنے کی ہے کہ جس امت کو بگاڑ دور کرنے کے برپا کیا گیا تھا۔جس کی ذمہ داری تھی کہ وہ زمین کوبرائیوں سے، فساد اور بگاڑ سے پاک کرے وہی امت خود اس قدر بگاڑ میں غرق ہے کہ اسے غیر قوم کے دانشور بیدار کررہے ہیں۔مسلم محلوں میں جس طرف دیکھیے نوجوان چوراہوں پر ٹہلتے ہوئے مل جائیں گے۔دہلی ہویا کوئی بھی بڑا شہر وہاں مسلم علاقوں میں رات کے بارہ بجے تک نہ صرف بازار کھلے رہتے ہیں بلکہ نوجوان گل چھرے اڑا رہے ہوتے ہیں۔مسلمانوں کی تو رمضان کی رونقیں بھی بازار کے دم پر ہیں۔جامع مسجد دہلی کے دوکاندار فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے بازار سحری تک کھلتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ حکم انھیں اللہ اور اسکے رسول نے دیا ہو۔
موبائل پر فحش ویڈیوز بنانے کا سب سے زیادہ کام مسلمان کررہے ہیں۔گالیوں پر مبنی ویڈیوز بنائی جارہی ہیں اور انھیں اپ لوڈ کیا جارہا ہے۔ان کے ویور بھی لاکھوں میں ہیں۔رات کو دیر رات تک موبائل ہاتھوں میں رہتا ہے۔بعض نوجوان تو کانوں میں ایرفون لگاکر سوجاتے ہیں۔دیر رات تک سونے کے باعث صبح دن چڑھے تک سوتے رہتے ہیں۔ماں باپ چلاتے رہتے ہیں۔لیکن ہمارے نوجوانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔
موبائل کے کثرت استعمال کے باعث والدین کی اطاعت میں فرق آیا ہے۔گھر میں ماں باپ کام کو کہتے رہتے ہیں۔مگر نوجوان نسل خواہ لڑکا ہو یا لڑکی،وہ موبائل میں مست رہتے ہیں۔بزرگوں کے احترام میں کمی آئی ہے۔یہاں تک کہ خود اپنے کاروبار متاثر ہوئے ہیں۔گھر کی خواتین تک سیریل دیکھنے کی وجہ سے اپنے کام موخر کردیتی ہیں۔ان کی بھی ترجیحات بدل گئی ہیں،شوہر کام سے تھکا ماندہ واپس آیا ہے۔بیگم سیریل دیکھ رہی ہیں۔جس سے آپسی رشتے خراب ہورہے ہیں۔بچے ہوم ورک نہیں کرتے،اسکول میں ڈانٹ پڑتی ہے،بچے تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔سفر میں کوئی کسی سے بات تک نہیں کرتا،کبھی کبھی اسٹیشن پر اترنا بھول جاتے ہیں،چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی لینے کے چکر میں ہر سال سینکڑوں جانیں چلی جاتی ہیں،رات رات بھر موبائل دیکھنے کی وجہ سے صحت کے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔نوجوان اپنی زندگی خراب کررہے ہیں۔اجنبی لڑکیوں سے دوستیاں اور چیٹنگ ہورہی ہے۔جس سے ایمان اورصحت دونوں متأثر ہیں اور مال کا نقصان بھی ہورہا ہے۔مہنگے موبائل خریدنے کی ہوڑ سے غریب ماں باپ پریشان ہیں۔موبائل کمپنیاں ہر ماہ موبائل کو اپ ڈیٹ کررہی ہیں۔اب تو ریچارج کی قیمت میں بھی اضافہ کیا جارہا ہے۔مہنگائی کے زمانے میں یہ اضافی بوجھ ہے جو ہر گھر پر پڑ رہا ہے۔
سماج کے اہل حل و عقد کو ان پہلوؤں پر سوچنا چاہئے اور اصلاح حال کے لیے کوئی منصوبہ بنانا چاہئے۔موجودہ حکومت سے درخواست کرنا تو فضول ہی ہے کیوں کہ اسے تو پیسہ کمانا ہے اور اپنے خاص دوستوں کو مال دار کرنا ہے۔اسے اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ ملک کے نوجوانوں کے اخلاق خراب ہورہے ہیں۔ ظاہرہے خراب اخلاق کے لوگ کل بڑے ہوکر جب دیش کی کمان سنبھالیں گے تو دیش کا حال اور بھی برا ہوجائے گا۔اس لئے میری گزارش ہے ائمہ مساجد اور دینی و مذہبی رہنماؤں سے کہ وہ موبائل کے منفی پہلوؤں کو اجاگر کریں۔بچوں کو سمجھائیں۔وہ نوجوان جو مسجد میں آتے ہیں،جماعتوں میں نکلتے ہیں،مدارس کا حصہ ہیں،کم سے کم وہی ٹیکنالوجیکل گناہوں سے خود کو بچائیں۔اسی کے ساتھ جہاں تک ہوسکے موبائل کے مفید پہلو بیان کیے جائیں تاکہ نوجوان نسل اس سے فائدہ اٹھائے۔یہ بات یاد رکھیے کہ ہمارے نوجوان موبائل چھوڑنے والے نہیں،انھیں اسے دیکھنا ہے،ہم ان کے دل دماغ کو مفید پہلوؤں کی جانب راغب کرکے نقصانات کو کم کرسکتے ہیں۔اگر آپ ان کے ہاتھ سے موبائل چھیننے کی کوشش کریں گے تو اپنے بچوں کو کھودیں گے۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button