ہیلت

سال2030ء میں ہر پانچ میں سے ایک شخص کینسر میں مبتلا ہونے کا اندیشہ- تمباکو نوشی سے پرہیز اور طرز زندگی پر توجہ کا مشورہ

پروفیسر محمد مسعود احمد، چیف آپریٹنگ آفیسر، رینووا بی بی کینسراسپتال،گاندھی میڈیکل کالج کی قومی کانفرنس سےخطاب

حیدرآباد 2- اگست (اردو لیکس ) پروفیسر محمد مسعود احمد، جو رینووا بی بی کینسراسپتال، ملک پیٹ حیدرآباد کے چیف آپریٹنگ آفیسر اور ہیلتھ کیئر مینجمنٹ کے ‏ممتاز پروفیسر ہیں، نے گاندھی میڈیکل کالج حیدرآباد کے زیر اہتمام منعقدہ قومی کانفرنس’’ ہیلتھ اَکارڈ 3.0،جدید علاج سے ‏صحت کی تشکیل نو‘‘ سے خطاب کیا۔ انہوں نے ’’عالمی صحت کی صورتحال، اور مستقبل کی حکمت عملی ‘‘کے موضوع پر تفصیلی ‏پاؤر پوائنٹ پریزنٹیشن پیش کی۔پروفیسر مسعود نے عالمی ادارہ جات اور تنظیموں کے اعداد و شمار پیش کیے۔ عالمی ادارۂ صحت کے ذیلی ‏ادارے انٹرنیشنل ایجنسی فار ریسرچ آن کینسرجو‎ WHO ‎کا ریسرچ ادارہ ہے کے مطابق،سال 2030 میں تقریباً ہر پانچ میں ‏سے ایک فرد اپنی زندگی میں کینسر کا شکار ہوسکتا ہے

 

 

جبکہ تقریباً ہر 9 میں سے ایک مرد اور 12 میں سے ایک عورت اس مرض سے ‏ہلاک ہونے کا اندیشہ ہے ۔کینسر، دنیا بھر میں اموات کی اہم وجوہات میں سے ایک ہے۔ کینسر کی شرح اُن ممالک میں سب سے زیادہ ہے ،جہاں ‏اوسط عمر، تعلیمی معیار اور معیارِ زندگی بلند ہوتا ہے۔البتہ کچھ اقسام کے کینسر جیسے سروائیکل کینسر ان ممالک میں زیادہ پائے جاتے ‏ہیں جہاں معیارِ زندگی اور تعلیم کی سطح کم ہے۔ بھارت میں 80 فیصد کینسر کے مریض چوتھے اسٹیج میں اس وقت ڈاکٹر سے رجوع ‏کرتے ہیں جب علاج مشکل ہو جاتا ہے۔بھارت میں 30 سے 69 سال کی عمر کے افراد میں 71 فیصد اموات کینسر سے ہوتی ہیں۔ ‏بھارت میں 70 فیصد مریض مرض کی دیر سے تشخیص کی وجہ سے پہلے سال میں ہی فوت ہو جاتے ہیں۔ 50 فیصد کینسر طرزِ زندگی ‏جیسے موٹاپا اور تمباکو نوشی جیسے عوامل کی وجہ سے ہوتا ہے۔پروفیسر مسعود نے یہ بھی بتایا کہ بھارت دنیا کی 18 فیصد آبادی کا حامل ‏ہے لیکن عالمی زمین کا

 

 

صرف 2.4 فیصد حصہ رکھتا ہے۔ بھارت میں دنیا کے 30 میں سے 22 شہر سب سے زیادہ آلودہ شہروں میں ‏شامل ہیں۔ بھارت میں دنیا کے کُل بیماریوں کے بوجھ کا 20 فیصد، ذہنی صحت کے مسائل کا 20 فیصد، خودکشی کے واقعات 28 ‏فیصد، اور نئے جذام (لیپروسی) کے کیسز کا 50 فیصد پایا جاتا ہے۔ بھارت میں عالمی ٹی بی کے کیسز کا 27 فیصد اور موٹر گاڑیوں کا ‏صرف 1 فیصد حصہ ہے، لیکن یہ 6 فیصد گاڑیوں کے حادثات کا بوجھ برداشت کرتا ہے۔پروفیسر مسعود کے مطابق، بھارت میں ‏صحت کے تین بڑے مسائل ہیں: دستیابی، رسائی اور استطاعت۔ صحت کے تحقیقی اعداد و شمار کے مطابق، "24 فیصد بھارتی ‏مریض جوخانگی اسپتالوں میں علاج کرواتےہوئے غربت کی لکیر سے نیچے چلے جاتے ہیں۔اس کانفرنس میں ملک بھر سے ڈاکٹرز، ‏سائنسدان، محققین، طبی سائنس اور ہیلتھ کیئر مینجمنٹ کے طلباء اور میڈیا کے افراد نے شرکت کی۔ اس کانفرنس میں ملک بھر کے ‏ممتاز طبی اداروں سے مقررین موجود تھے، جن میں‎ AIIMS ‎دہلی اور دیگر‎ AIIMS ‎شامل ہیں۔ نمایاں مقررین میں ‏شامل ہونے والوں

 

 

میں(۱)ڈاکٹر بی. بھاسکر راؤ، مینیجنگ ڈائریکٹر، ‏KIMS ‎گروپ آف اسپتال(۲)ڈاکٹر نروپم مدان، سربراہ، ‏شعبہ اسپتال انتظامیہ، ‏AIIMS ‎دہلی(۳)ڈاکٹر رام موہن، سربراہ، شعبہ اسپتال انتظامیہ، ‏AIIMS ‎منگلاگیری اور دیگر ‏نامور اسپیکرس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ یہ سالانہ کانفرنس گاندھی میڈیکل کالج کی جانب سے ہر سال منعقد کی جاتی ہےجس ‏میں نئی بیماریاں ، علاج اوراحتیاطی تدابیرکے بارے میں ریسرچ پیش کی جاتی ہے۔ جس میں ہندوستان بھر سے ممتاز محققین

 

 

اور ‏ڈاکٹرس اور میڈیکل اسٹوڈنٹ کی جانب سے شرکت کرتے ہیں اور مباحثہ میں حصہ لیتے ہیں۔‎ ‎

متعلقہ خبریں

Back to top button