جنرل نیوز

مولانا ابوالکلام آزاد تقسیم ہند اور دو قومی نظریہ کے سخت مخالف تھے 

اصناف سخن گوئی تقریب سے پروفیسر اخلاق آہن، پروفیسر اشرف رفیع ، پروفیسر ایس اے شکور اور دیگر اصحاب کا خطاب

حیدراباد 11 اگست ،( اردو لیکس )پروفیسر اخلاق آہن صدر شعبہ مطالعات فارسی‌ و مرکزی ایشیا جواہر لال نہرویونیورسٹی دہلی نے کہا کہ "جو لوگ تقسیم ہند کی حمایت کر نرہے تھے وہ اسلامی ذہن و فکر سے عاری تھے” ممتاز مجاہد آزادی و ہندوستانی قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد اپنی ذات میں بے مثل انسان تھے مولانا کی علمی بصیرت میں ہمیں ہندوستان کی تہذیب اور علمی مواد بہترین انداز میں ملتا ہے

 

 

مولانا کی وسعت فکر ونظر کافی گہری تھی ان خیالات کا اظہار انہوں نے ابو الکلام آزاد اورینٹل ریسرچ انسٹیٹیوٹ باغ عام نام پلی کی جانب سے انجمن ریختہ گویان کے اشتراک سے مولانا ابوالکلام آزاد اورینٹل انسٹیٹیوٹ میں بہ عنوان ،ابوالکلام آزاد اور جدو جہد آزادی،”توسیعی لیکچر سے خطاب کرتے ہوئے کیا انہوں نے کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد نے تقسیم ہند کی سخت مخالفت کی تھی وہ دو قومی نظریہ کے کھلے مخالف تھے انہوں نے کہا کہ آج ہمارے ملک میں جتنے سائنسی اور انفارمیشن ٹکنالوجی کے ادارے ہیں وہ سب کے سب مولانا نے وزارت سنبھالنے کے بعد قائم کیے تھے مولانا آزاد کا یہ کارنامہ آج ہندوستان کو ٹکنالوجی کی سمت میں مزیدآگے بڑھنے میں بڑا ہی مددگار ثابت ہو رہا ہے

 

 

مولانا آزاد میں قایدانہ صلاحیتیں بے پناہ موجود تھیں وہ بیک وقت ایک عظیم مفکر، مدبر، قانون داں، سیاست دان اور مفسر قرآن تھے سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہندوستان کی تمام قوموں کے درمیان اتحاد اور اتفاق کے لیے ہمیشہ سے کوشاں رہے اور وہ زندگی بھر اس بات کے حامی تھے کہ ہندوستان تمام قوموں کے اتحاد و اتفاق سے ہی استحکام حاصل کر سکتا ہے ڈاکٹر فوزیہ فاروقی شعبہ مطالعات جنوبی ایشیا پرنسٹن یونیورسٹی امریکہ کا محترمہ گل رعنا نے تعارف پیش کیا اور بتایا کہ ڈاکٹر فوزیہ فاروقی نے کئی عالمی کانفرنسوں میں حصہ لیا ہے اور اردو کی منفرد نمائندگی کی ہے ڈاکٹر فوزیہ فاروقی نے اپنے خطاب

 

 

میں کہا کہ مولانا آزاد نے اپنی بصیرت کے ساتھ جمہوری ملک ہندوستان کی تعمیر میں حصہ لیا مولانا نے سیاسی رہنما کے طور پر اپنی مسلم شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے تقسیم ہند کی سیاست کو ہر ممکن شکست دی مولانا نے اپنے لباس اپنے گفتگو اور اپنے فن و فکر کے ذریعے ہندوستانی مسلمانوں کی نمائندہ شخصیت ہونے کا مکمل حق ادا کیا جامعہ اسلامیہ کا قیام عمل میں لایا انہوں نے کہا کہ مولانا آزاد اور جنا ح کا مقابلہ مناسب نہیں کیونکہ مولانا پکے ہندوستانی اور دو قومی نظریہ کے سخت مخالف تھے وہ دور اندیش اور خود اعتماد رہنما تھے مولانا کی شخصیت ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مشعل راہ ہے انہوں نے کہا کہ پورا ملک ہندوستان مولانا آزاد کی خدمات کا معترف ہے ہندوستانی مسلمانوں کے لیے مولانا کی شخصیت مینار ہ نور ہے ان کی تعلیمات سے نئی نسل کو واقف کروانا وقت کا اہم ترین تقاضہ ہے پروفیسر اشرف

 

 

رفیع سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مولانا آزاد عوامی قائد تھے انہوں نے ہندوستان کی آزادی میں جس طریقے سے بے باکانہ طور پر حصہ لیا اور ہندوستانی مسلمانوں کو متحد و منظم رکھا اور دو قومی نظریہ کی جو مخالفت کی تھی وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک بہترین وروشن باب ہے پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ نے اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے ڈاکٹر جاوید کمال کی اختراعی صلاحیتوں کی بھرپور ستائش کی اور کہا کہ دور حاضر میں اردو کو مسلمانوں سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ بالکل غلط بات ہے انہوں نے کہا کہ مولانا کی شخصیت ہمہ پہلو

 

 

شخصیت رہی ہے مولانا ازاد کے زندگی کے مختلف پہلو بیان کرنا شروع کریں تو اس کے لیے کئی دن درکار ہوں گے مولانا ازاد جیسے لیڈر کی اب قومی سطح پر کافی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جنہوں نے ملک اور قوم کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا پروفیسر اشرف رفیع نے مزید کہا کہ مولانا نے قوم کو زندگی کے ہر شعبے میں جھنجوڑا آج ضرورت اس بات کی ہے کہ نئی نسل کو مولانا آزاد کے کارناموں اور تعلیمات سے اور قومی ہمدردی کے جذبے سے واقف کرایا جائے بچوں کے لیے مولانا آزاد پر تقریری اور تحریری مقابلے منعقد کیے جائیں پروفیسر ایس اے شکور ڈائریکٹر دائرۃ المعارف عثمانیہ یونیورسٹی نے مولانا آزاد کی قومی خدمات کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ مولانا

 

 

نے حب الوطنی کے جذبہ کے تحت ہندوستانی قوم کو جس طرح متحد و منظم رکھا تاریخ اس کی مثال پیش نہیں کر سکتی انہوں نے اردو والوں پر زور دیا کہ وہ اردو زبان کے تحفظ کے لیے مزید اگے آئیں انہوں نے کہا کہ سرکاری اردو میڈیم مدارس میں طلباء کا بتدریج گھٹتا ہوا تناسب تشویش ناک ہوتا جا رہا ہے اردو والوں کو چاہیے کہ وہ عملی طور پر اردو مدارس کالجوں اور جامعات میں اردو میڈیم طلبہ کے داخلوں کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن عملی جدوجہد کریں جذباتی نعروں یا تقریروں سے اب کچھ ہونے والا نہیں ہے ہم کو اردو مدارس اور کالجز اور جامعات کو بچانے کے لیے عملی طور پر قدم اٹھانا ہی ہوگا پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہ اردو عثمان سٹی نے کہا کہ سکندر علی وجد نے مولانا ازاد کے بارے میں کہا تھا ہے” تقریر ہو کے تحریر ادب ہو یا صحافت ہر فن میں مکمل تیری معتبر ہے”پروفیسر مجید بیدار نے مزید کہا کہ مولانا آزاد مذہبی شخصیت کے ساتھ ہمہ پہلو شخصیت تھے مولانا نے جہدو آزادی کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ رہتی دنیا تک مثال ہیں ڈاکٹر جاوید کمال نے پروفیسر اخلاق اہن ڈاکٹر فوزیہ فاروقی کا خیر

 

 

مقدم کیا اور کہا کہ ان عظیم مہمانوں کی آمد اور مولانا ابوالکلام ازاد کی شخصیت پر اظہار خیال سے ہم سب کی معلومات میں زبردست اضافہ ہوا ہے ڈاکٹر حمیرہ سعید نے کاروائی چلائی ڈاکٹر عطیہ مجیب عارفی نے انتہائی منفرد اور دل نشین انداز میں قومی گیت پیش کرتے ہوئے سامعین کا دل موہ گیا محترمہ صائمہ متین نے بھی بچوں کے لیے گیت پیش کیا محترمہ رفیعہ نوشین نے کہا کہ مولانا آزاد نے انقلاب زندہ باد کے نعرے کے ذریعے تحریک آزادی میں زبردست جوش و خروش پیدا کیا تھا انہوں نے کہا کہ اندرا گاندھی سروجنی نائڈو ،بیگم رقیہ ثقافت حسین ، ارونا آصف علی اور دیگر خواتین نے ازادی ہند اور قومی یکجہتی

سے متعلق جو نعرے دیے ہیں وہ ہمارے لیے باعث فخر ہیں ممتاز و معروف مزاحیہ شاعر جناب لطیف الدین لطیف نے مزاحیہ قطعات کے ذریعے محفل کو زعفران زار بنا دیا سامعین نے ان کے مزاحیہ کلام کو کافی پسند کیا اور خوب داددی جناب محمد حسام الدین ریاض نے مولانا آزاد کی زندگی کے مختلف واقعات کو بیان کرتے ہوئے ان کی عوامی ہمدردی کے کئی واقعات سے ایک متاثر کن اقتباس سنایا۰ جناب جاوید محی الدین نے چکسبت کا کلام سنایا جناب واجد محی الدین نے قومی گیت سنایا اس موقع پر پروفیسر اشرف رفیع صاحبہ، ڈاکٹر جاوید کمال اور دوسروں نے مہمانان پروفیسر اخلاق آہن اور ڈاکٹر فوزیہ فاروقی اور دوسروں کی شال پوشی کی اور یادگاری مومنٹوز پیش کیے مولانا مظفر علی صوفی ابوالعلائی نے محفل کے انعقاد پر اپنی نیک تمناؤں کا اظہار کیا اس موقع پر جناب ابو مسعود عبدالغنی موظف تحصیلدار محبوب نگر،ممتاز سینیئر صحافی

 

 

جناب کے این واصف ,پروفیسر تاتار خان , ڈاکٹر اسلام ا لدین مجاہد،ڈاکٹر محمد شفیع الدین ظفر،حکیم محمد عبدالسلیم فاروقی،جناب سید ظہور الدین وائس چیئرمین سکندرآباد کوآپریٹو بینک ،محمد رضا پرویز جگنو،محترمہ نکہت آرا شاہین ڈاکٹر ثمینہ(ویمنس کالج کوٹھی )محترمہ صبیحہ مجیب عارفی ،سماجی جہدکار محترمہ عذرا سلطانہ،محترمہ مومنہ امتہ اللہ،محترمہ جسوین جےرتھ،اور دیگر موجود تھے جناب لطیف الدین لطیف نے شکریہ ادا کیا.

متعلقہ خبریں

Back to top button