جنرل نیوز

قرآن کریم کے تمام استعارے آفاقی ہیں ۔”لا مکان” بنجارہ ہلز میں پروفیسر مظفر علی شہ میری اور پروفیسر اشرف رفیع کا خطاب 

حیدرآباد 18 -اگست (ا دو لیک ) ” قرآن کریم میں جتنے استعارے استعمال ہوے ہیں ، وہ سب کے سب آفاقی ہیں۔ آفاقی سے یہ مراد ہے کہ انھیں دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی ملک، کسی بھی تہذیب، کسی بھی عہد میں آسانی کے ساتھ سمجھا جاسکتا ہے۔ قابل غور بات یہ ہےکہ انھیں نہ صرف ادبی ذوق رکھنے والے تعلیم یافتہ قارئین سمجھ سکتے ہیں بلکہ غیر تعلیم یافتہ بھی ان سے ہدایت حاصل کر سکتے ہیں۔” پروفیسر مظفر علی شہ میری سابق وائس چانسلرڈاکٹر عبدالحق اردو یونیورسٹی کرنول‌آندھرا پردیش نے اپنے پر مغز خطاب میں ان خیالات کا اظہار کیا۔

 

 

پروفیسر موصوف کی کتاب ” قرآنی استعاروں کی فنی عظمت ” بہت جلد الانصار پبلی کیشنز، حیدرآباد سے شائع ہونے والی ہے۔موصوف نےاپنی تقریر کے آغاز میں یہ واضح کردیا کہ یہ ایک خالص ادبی مطالعہ ہے؛ باالفاظ دیگر اس کا کسی مسلک، کسی دینی نقطہ نظر، کسی جماعت، یاکسی فرقے وغیرہ سے کو ئی تعلق نہیں ہے۔ اس مطالعے میں یہ سمجھانے کی کوشش کی گئ ہے کہ کس طرح قرآن میں مخصوص الفاظ کاتخلیقی استعمال ہوا ہے اور کس طرح مفسرین نے ان کے معنے اجاگر کیے ہیں۔ نیز پروفیسر موصوف نے یہ بھی واضح کیا کہ اس تحقیق کے حاصل مطالعہ کے طور پر جو درجن بھر نکات انھیں حاصل ہوے ہیں ان میں سے وہ آج صرف اس ایک نکتہ کی وضاحت فرمائیں گے کہ قرآنی استعارے آفاقی ہیں۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوے انھوں نے کہا کہ جب کوئی ادب تخلیق ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کو مقامی اثرات سے بچا نہیں سکتا۔ مثلا اگر کوئی شاعر یا ادیب ہندوستان میں شعر وادب تخلیق کرتا ہے تو اس کے ادب میں لامحالہ یہاں کے پہاڑوں کے نام، ندیوں اور دریاوں کے نام، تہواروں کے نام شامل ہونے

 

 

کے علاوہ یہاں کے رسم ورواج، لوک گیت، لوک کہانیاں ، اور دیومالائی ادب وغیرہ کا اثر اس پر دکھائی دیتا ہے۔ اس سرزمین سے جڑے ہوے مخصوص قصے کہانیاں، کردار، اور اشیا وغیرہ کو بطور تشبیہ، استعارے، تمثیل اورعلامت وغیرہ کے ادب میں استعمال کیا جا تا ہے جنھیں صرف وہی لوگ سمجھ پاتے ہیں جو ہندوستان میں پیدا ہوے ہوں یا یہاں زندگی کا بڑا حصہ گزارے ہوں۔ یہ شرط ہندوستان کے مختلف صوبوں پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ جب کہ قرآنی استعاروں کی یہ انفرادیت ہے کہ انھیں سمجھنے کے لیے کسی خاص ملک کسی خاص تہذیب یا کسی خاص ماحول میں پیدا ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ آفاقی ہیں اور انھیں ہر ملک، ہر تہذیب، ہر ماحول، اور ہر عہد میں سمجھا جاسکتا ہےمثلا اندھیرا ، روشنی ، مرض، رسی ، آگ کا گڑھا، سونڈ پر داغ لگانا، کھائی پر گھر بنانا، چوٹ، میزان، گھاٹی، مردہ، کھیل کود، قرض اور کمائی وغیرہ۔ یہ ایسے آفاقی استعارے ہیں جنھیں سمجھنے کے لیے کسی خاص ملک یا تہذیب کی ضرورت نہیں۔ خطبہ کے بعد پروفیسر ممدوح نے سامعین کے سوالات کے تسلی بخش جوابات مرحمت فرماے۔

 

 

اس موقع پر سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی پروفیسر محترمہ اشرف رفیع صاحبہ نے اپنے صدارتی خطاب میں پروفیسر مظفر علی شہ میری کی مذہبی، ادبی و علمی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ پروفیسر مظفر علی شہ میری کو قرآنی استعاروکی نئی جدیدجہتیں تلاش کرنے پر انہیں دلی مبارکباد دی اور کہا کہ پروفیسر مظفر شے میری کا یہ کام اپنی نوعیت کا منفرد اور لائق تحسین کام ہے اس طرح کے جذبے جب نمایاں ہوتے ہیں تو اہل ایمان کے قلب و نظر میں گہرائی و گیرائی پیدا ہوتی ہے انہوں نے پروفیسر موصوف سے کہا کہ وہ اپنی علمی ادبی و تہذیبی خدمات کو جاری رکھیں ان کی اس قابل قدر خدمات سے ملت اسلامیہ کو بہت بڑا فائدہ ہورہاہے پروفیسر مظفر علی شہ میری کی پیکری نظموں کے مجموعے "پیکرہ” کی رسم اجرا محترمہ انیس عائشہ کے دست مبارک سے عمل میں آئی۔اس اور یادگار جلسے کی صدارت پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی‌حیدرآباد نے بڑی خوش اسلوبی سے انجام دی۔ "بزم سخن” اور "سی۔ڈی۔پی۔پی کے منتظمین ممتاز ماہر معاشیات ڈاکٹر عامراللہ خان اور جناب اشہر فرحان نے اس جلسے کا انعقاد کیاتھا۔

 

 

سخت بارش ہونے کے باوجود کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ ڈاکٹر صادقہ امیمہ بابر،محترمہ شمشاد بیگم شہ میری ،جناب اسد ثنائی، مولانا ڈاکٹر محامد ہلال اعظمی، ڈاکٹر غوثیہ بانو، ڈاکٹر زرینہ، ڈاکٹر سمیہ تمکین، جناب نعیم، جناب اسحق (سوپروائزر جی۔یس۔ٹی) محترمہ عذرا ،جناب رضا پرویز جگنوکے علاوہ بہت سارے با ذوق سامعین شریک جلسہ رہے۔

 

 

اس خطاب کے لیے انٹر میڈیٹ کی ایک طالبہ سیدہ عذرا تحسین بنت سید ساجد، مینجر اسٹیٹ بینک نے بڑے خوب صورت گرافکس تیار کیے تھے۔ پروفیسر اشرف رفیع اور محترمہ انیس عائشہ صاحبہ کے ہاتھوں اس لڑکی کو تہنیت پیش کی گئ۔ ان کے والدین بھی جلسے میں موجود تھے۔ ڈاکٹر حمیرہ سعید نے نہایت خوش اسلوبی سے جلسے کی کارروائی چلائی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button