قاضی پیٹ درگاہ شریف – دکن کی روحانی اور تہذیبی شناخت،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری

قاضی پیٹ درگاہ شریف – دکن کی روحانی اور تہذیبی شناخت،مولانامفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری
حیدرآباد 19آگسٹ (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ دکن کی سرزمین کو ہمیشہ اس شرف سے نوازا گیا کہ یہاں اولیاء کرام کے انوار و تجلیات کا نزول ہوتا رہا۔ انہی مقدس بارگاہوں میں ایک عظیم روحانی مرکز، حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادریؒ
کا مزارِ اقدس، قاضی پیٹ (ورنگل) میں واقع ہے۔متحدہ آندھرا پردیش کے دور میں بھی یہ درگاہ شریف نہ صرف مسلمانوں بلکہ ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں کے لیے عقیدت و احترام کا مرکز رہی۔ ریاست کے مختلف حصوں سے عوام الناس، علما، مشائخ اور اکابر شخصیات یہاں حاضر ہو کر اپنی عقیدت کا نذرانہ پیش کرتے تھے۔ اس دور میں قاضی پیٹ کی درگاہ کو ریاستی سطح پر خاص پہچان حاصل تھی۔تلنگانہ کے قیام کے بعد بھی درگاہ شریف کی روحانی و سماجی اہمیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی، بلکہ دن بہ دن اس کا فیضان بڑھتا گیا۔ آج بھی یہ بارگاہ اہلِ تلنگانہ کے لیے اخوت، محبت اور بھائی چارگی کا عظیم مرکز ہے۔ یہاں کے فیضان سے ہر زائر، خواہ وہ کسی مذہب یا مسلک سے تعلق رکھتا ہو، یکساں طور پر مستفید ہوتا ہے۔یہ بارگاہ دکن کی اُس عظیم گنگا–جمنا تہذیب کا آئینہ دار ہے جس کی بنیاد محبت، اخوت اور انسانی برابری پر قائم ہے۔ یہاں مسلمان ہوں یا ہندو، سکھ ہوں یا عیسائی — سب بلا تفریق حاضری دیتے ہیں۔ کوئی منتیں مانگنے آتا ہے، کوئی دل کا سکون ڈھونڈتا ہے، کوئی اپنی مراد کی تکمیل چاہتا ہے۔
قاضی پیٹ کی درگاہ شریف پر عوامی سطح کے ساتھ ساتھ ریاستی و قومی سطح کی شخصیات بھی حاضری دیتی ہیں۔ سیاسی رہنما، سماجی کارکن، اور علمی شخصیات بھی یہاں آکر عقیدت کا اظہار کرتی ہیں۔ یہ بارگاہ صرف مذہبی مرکز نہیں بلکہ محبت و یکجہتی کا سنگم ہے۔
حضرت بیابانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات آج بھی یہی پیغام دیتی ہیں کہ انسانیت سب سے بڑھ کر ہے۔ ان کی درگاہ سے ہمیشہ پیار، محبت، عفو و درگزر اور امن و سکون کی خوشبو پھیلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قاضی پیٹ کی یہ خانقاہ آج بھی قومی یکجہتی اور سماجی ہم آہنگی کی درخشاں مثال ہے۔
تلنگانہ کا تاریخی شہر ورنگل اپنی قدیم سلطنتوں، علمی مراکز اور روحانی بزرگوں کی نسبت سے پورے دکن میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔ یہاں جہاں ایک طرف کاکتیہ سلطنت کی یادگاریں موجود ہیں، وہیں دوسری جانب حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمتہ اللہ علیہ کا دربار قاضی پیٹ میں صدیوں سے مرجع خلائق بنا ہوا ہے۔
حضرت بیابانیؒ ایک ولی کامل، حافظِ قرآن اور جلیل القدر عالم تھے۔
آپ کی طبیعت میں عاجزی و انکساری نمایاں تھی۔
غریبوں کے ساتھ شفقت اور ہمدردی آپ کا خاصہ تھا۔
آپ کی حیات طیبہ دینِ حق کی اشاعت، لوگوں کی اصلاح اور محبت و اخوت کے پیغام پر مشتمل رہی۔
آپ کثرتِ عبادت و ریاضت کے ذریعے قلوب کو اللہ کی طرف متوجہ کرتے تھے۔
بارگاہ کی خصوصیات
آپ کا مزار شریف سبز گنبد سے مزین ہے جس کی لمبائی و چوڑائی 56 فٹ ہے۔
درگاہ شریف کے اندرونی حصے کو سنگِ مرمر سے آراستہ کیا گیا ہے جو زائرین کے دلوں کو سکون بخشتا ہے۔
یہاں ہر سال 27 صفر المظفر کو عرس شریف نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔
حضرت بیابانیؒ کی درگاہ پر آج بھی ہندو، مسلمان، سکھ اور عیسائی بلا تفریق آتے ہیں۔
سب عقیدت مند اپنی مرادیں لے کر حاضر ہوتے ہیں۔
یہی درگاہ قومی یکجہتی اور بھائی چارگی کا عظیم پیغام دیتی ہے۔
ورنگل جیسے تعلیمی و سائنسی مراکز کے بیچ یہ روحانی بارگاہ امن و سکون کا سرچشمہ ہے۔
حضرت بیابانیؒ کے فیضان سے چار سو سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، مگر آج بھی آپ کے دربار سے لوگ روحانی سکون اور مرادیں حاصل کرتے ہیں۔ آپ کا مشن صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ انسانیت کی فلاح کے لیے تھا۔
"حضرت سید شاہ افضل بیابانیؒ کی درگاہ قاضی پیٹ میں ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی سب بلا تفریق فیضیاب ہوتے ہیں۔”
. "یہ آستانہ دکن کی گنگا–جمنا تہذیب اور قومی یکجہتی کی زندہ مثال ہے۔”
. "بیابانیؒ کی خانقاہ میں آج بھی امن، محبت اور بھائی چارگی کا چراغ جل رہا ہے۔”
. "27 صفر المظفر کو ہونے والا عرس شریف صدیوں سے فیضانِ روحانی کا جشن ہے۔”
. "حضرت بیابانیؒ نے اپنی زندگی دینِ حق کی اشاعت اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کی۔”
"یہ بارگاہ ہر اس دل کے لیے کھلی ہے جو سکون اور اللہ کی یاد چاہتا ہے۔”
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے مذید معلومات فراہم کرتے ہوئے بتلایا کہ
حضرت قاضی سید شاہ افضل بیابانی الرفاعی القادری رحمت اللہ علیہ، ورنگل کے ایک معزز جاگیردار قاضی اعلی تعلیم یافتہ و صوفی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے جو بیابانی کے نام سے مشہور ہے۔ سلسلہ بیابانیہ کی ابتداء حضرت سید شاہ ضیاء الدین بیا بانی رحمت اللہ علیہ سے ہوئی جو امیر المومنین حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ مولائے کائنات کی 28 ویں پشت میں اور حضرت سیدنا احمد کبیر رفاعی معشوق اللہ رحمت اللہ علیہ کی 12 ویں پشت میں پیدا ہوئے۔ آپ حسینی سادات ہیں۔
آپ ملتان سے ضلع جالنہ کے قصبہ امبڑ شریف تشریف لاے۔ حضرت سیدنا شاہ علی سانگڑے سلطان مشکل آسان رحمت اللہ علیہ نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ آپکی ہی 8 ویں پشت میں حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ 1210ھجری (مطابق 1795عیسوی) میں بمقام قاضی پیٹ جاگیر ضلع ورنگل میں تولد ہوے۔ بچپن ہی سے آپ میں کچھ عجیب و غریب آثار نمایاں تھے کہ دیکھنے والے کہہ اٹھتے کہ یہ لڑکا پیدایشی ولی اللہ ہے۔ آپ کی والدہ و ماموں حضرت سید مرتضی حسینی رحمت اللہ علیہ (ساکن قطبی گوڑہ حیدر آباد) نے ارشاد فرمایا کہ اس لڑکے میں پیدایش سے ہی کچھ غیر معمولی آثار پاے جاتے ہیں۔
آپ نے اپنے والد حضرت سید شاہ غلام محی الدین بیابانی رحمت اللہ علیہ اور حضرت فقر اللہ شاہ رحمت اللہ علیہ سے قلعہ ورنگل میں دینی تعلیم کی ابتداء فرمائ۔ چنانچہ آپ گیارہ سال کی عمر میں ہی قرآن مجید حفظ فرمایا اور حیدرآباد کے علماء اور جید اساتذہ سے تفسیر قرآن ، تجوید، علم حدیث ، تاریچ اسلام اورفقہ کی اعلی تعلیم سے فارغ ہوے۔
حضرت سید شاہ افضل بیابانی رحمت اللہ علیہ کا انتقال پر ملال بتاریخ 27 صفر المظفر 1273 ھجری مطابق 28 اکٹوبر 1856 عیسوی بمقام قاضی پیٹ ہوا۔ آپ کی مزار اقدس پر ایک اعلی شان گنبد تعمیر کی گئی جو سبز سنگ مرمر سے مزئین ہے۔ آج بھی اس بارگاہ میں روزآنہ لنگر کا اہتمام ہوتا ہے جس میں مسافر، غریب، بیوائیں، یتیم، معذور افراد کثیر تعداد میں کھانا کھاتے ہیں۔
اس بارگاہ میں معتقدین کی دینی تعلیم و تربیت کے علاوہ روحانی تعلیم کا بھی اہتمام ہوتا ہے۔ حفظ قرآن شریف کا مدرسہ ہے۔ اکثر و بیشتر مفت طبی معائنہ و مفت میں دوائیں دی جاتی ہیں۔ آپکی درگاہ شریف کے سجادہ نشین و متولی حضرت قاضی ابو الخیر سید شاہ غلام افضل بیابانی المعروف بہ حضرت خسرو پاشاہ صاحب فاضل جامعہ نظامیہ کی قیادت میں ہرسال عرس شریف کے مراسم ادا کئے جاتے ہیں۔