حضور نظام کی عظمتوں کو سلام۔ سیلاب کی شدت کے باوجود پوچارام پراجیکٹ چٹان کی طرح موجود

ڈاکٹر شجاعت علی صوفی آئی آئی ایس‘پی ایچ ڈی
ـCell : 9705170786
l آج کے آبپاشی پراجیکٹس ایک دھوکا۔
l کرپشن ایک کینسر، کالیشورم ایک زندہ مثال ۔
l ایمانداری کا فقدان تباہی کا سبب ۔
نظام ہفتم میر عثمان علی خان اگر آج باحیات ہوتے تو میںبڑ ےادب سے ان کے لئے یہ شعر عرض کرتا کہ
میں اوروں کی طرح ڈھونڈھا نہیں کرتا کناروں کو
وہیں ساحل بناتاہوں، جہاں ساحل نہیں ہوتا
ویسے تو حضور نظام نے اپنی مملکت میں بے شمار ترقیاتی کام انجام دیے تھے لیکن ان سب میں پینے کے پانی اور آب پاشی کے لئے جن پراجکٹس کو انہوں نے تعمیر کیا تھا ہم انہیں سلام کرتے ہیں۔ نظام ساگر، عثمان ساگر، حمایت ساگر اور علی ساگر کے علاوہ پوچارم پراجکٹ ایسے تعمیراتی شاہکار ہیں جن کی دل و جان سے قدر ہونی چاہئے۔نظام دور کا پوچارم پراجیکٹ آلیر دریا پر سیلابی طغیانی کے باوجود مضبوطی سے کھڑا ہےیہ منصوبہ 27.11 لاکھ روپے کی لاگت سے بنایا گیا اور 1922میں مکمل ہوا تاکہ کاماریڈی ضلع کے ناگی ریڈی پیٹ اور یلا ریڈی منڈلوں اور میدک ضلع کے میدک منڈل کی آبپاشی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔یہ کسی معجزے سے کم نہ تھا کہ 103سال پرانا پوچارم پراجیکٹ، جو آلیر دریا پر ناگی ریڈی پیٹ منڈل (کاماریڈی ضلع) میں واقع ہے، 1.82 لاکھ کیوسک کے طوفانی پانی کو برداشت کرنے میں کامیاب رہا،
جب کہ اس کی زیادہ سے زیادہ صلاحیت 70,000 کیوسک ہے۔اتوار کو کیچمنٹ ایریا میں شدید بارشوں کے بعد پوچارم پراجیکٹ میں ریکارڈ توڑ سیلابی پانی داخل ہوا۔ 1,382 فٹ کی زیادہ سے زیادہ سطح اور 42 اسپلوے دروازے کھولنے کے باوجود، منصوبہ اپنی ڈیزائن کی گئی صلاحیت سے کہیں زیادہ پانی سنبھالنے میں کامیاب رہا۔سابق آبپاشی کے وزیر ٹی۔ ہریش راؤ اور دیگر افسران فوری طور پر موقع پر پہنچے۔ وزیر وی۔ اُتم کمار ریڈی نے بھی اپنی خوشی چھپائے بغیر کہا:’’خوشی کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا 103سال پرانا پوچارم پراجیکٹ 1,82,000 کیوسک کے طوفانی پانی کو برداشت کر گیا ہے، جو اس کی زیادہ سے زیادہ گنجائش 70,000 کیوسک سے چار گنا زیادہ ہے۔ یہ ہمارے لیے خوشی کا لمحہ ہے کہ یہ منصوبہ تمام مشکلات کے باوجود قائم رہا۔‘‘پوچارم پراجیکٹ، نظامِ حیدرآباد کے دور کا پہلا منصوبہ تھا جس کی بنیاد 1917میں رکھی گئی اور 1922میں مکمل ہوا۔ ناگی ریڈی پیٹ منڈل کے پوچارم گاؤں کو اس لیے منتخب کیا گیا کہ قریب ہی ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس موجود تھا۔یہ منصوبہ یلاریڈی اور ناگی ریڈی پیٹ منڈل (کاماریڈی ضلع)
اور میدک منڈل (میدک ضلع) میں 24,243ایکڑ زمین کو سیراب کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ مٹی بھر جانے کی وجہ سے اس کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اب گھٹ کر 1.32ٹی ایم سی فٹ رہ گئی ہے۔پچھلے 103 سالوں سے یہ منصوبہ کسانوں کی آبپاشی کی ضروریات پوری کر رہا ہے۔ ضرورت کے مطابق نہروں میں پانی چھوڑا جاتا ہے۔ منصوبے میں 58 کلومیٹر لمبی نہریں اور 73ذیلی نہریں ہیں جو مختلف کھیتوں کو پانی فراہم کرتی ہیں۔یہ منصوبہ ایک مشہور سیاحتی مقام بھی ہے۔ جنگلات کے درمیان واقع پوچارم ڈیم، برڈ سینکچوری اور وائلڈ لائف سینکچوری ایک خوبصورت مقام ہے جو حیدرآباد سے 100 کلومیٹر اور نظام آباد ہیڈکوارٹر سے 10 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نظام ساگر ، عثمان ساگر ، حمایت ساگر ، پوچارم پراجکٹ اور علی ساگر جیسے آبی ذرائع ریت کے جمع ہوجانے سے اپنی جملہ صلاحیت کو کھو چکے ہیں۔یہ تمام پراجکٹس اپنی تعمیر کے 100 سال عبور کرچکے ہیں لیکن ان کی چٹان کی طرح مضبوطی آج کی حکومتوں کو یہ پیغام دیتی ہے کہ اگر سرکاری کاموں کو خدا کے کام کی طرح انجام دیا جائے تو ہر پراجکٹ صدیوں تک زندہ رہتا ہے۔ آج کالیشورم پراجکٹ کی ناکامی ہم سب کے سامنے موجود ہے
جس میں کروڑوں روپیوں کا کرپشن ہوا ہے اس کی تعمیر میں بد عنوانیوں کا راست الزام سابق چیف منسٹر کے سی آر پر لگایا گیا ہے۔ ان بد عنوانیوں پر جامع تحقیقاتی رپورٹ چیف منسٹر ریونت ریڈی کو سونپ دی گئی ہے ۔ افسوس کی بات ہے کہ اس رپورٹ کو بھی عدالت میں چیالنج کردیا گیاہے جس کے سبب پورے حقائق عوام کے سامنے نہیں آرہے ہیں۔ اس موضو ع پر کانگریس اور بی آر ایس کے مابین زبردست جنگ چھڑی ہوئی ہے۔ سیاسی رسا کشی کا چلنا ایک عام بات ہے لیکن کرپشن کے معاملے میں تما م سیاسی جماعتوں کو ایک جٹ ہو کر کام کرنا چاہئے ۔ کیونکہ کرپشن ایک ایسا کینسر ہے جو ریاستوں کو ہی نہیںبلکہ قوموں کو بھی چاٹ جاتا ہے۔ اب ہم سب کو وطن سے وفادار ی کا ثبوت دینا
پڑے گا اور کرپشن سے ایسے بچے رہنا ہوگا جیسے ایک سگ گزیدہ پانی سے ڈرتا ہے۔کرشن بہاری نورؔ نے کیا خوب کہا ہےکہ
اب تو بس جان ہی دینے کی ہے باری اے نورؔ
میں کہا ں تک کروں ثابت کہ وفا ہے مجھ میں