مضامین

’’یادوں کا سرمایہ اور قلمی سفر۔ رضوان الدین سلمہ کی تصنیف پر ایک نظر”

🖊️تحریر:سید فضیل احمد ناصری

آل سید کبیر زاہدی سابق امام خانۂ کعبہ

استاذ حدیث جامعہ امام محمد انور شاہ و نائب مدیر ماہ نامہ محدث عصر، دیوبند

 

انسان مدنی الطبع واقع ہوا ہے۔ اس کا مادہ ہی انس ہے، جس کا معنیٰ ہے: مانوس ہونا۔ عربی شاعر نے کہا:

و ما سمی الانسان الا لانسہ

و ما القلب الا انہ یتقلب

محبت اور انسیت اس کی رگ و پے میں ہے۔ وہ ہر اس شخص سے قریب ہو جاتا ہے، جس کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے۔ اس سے باتیں کرنا، اس کے دکھ درد میں شریک ہونا اس کا مزاج بن جاتا ہے۔ طلبہ کی طبیعت عام طبائع سے زیادہ حساس ہوتی ہے۔ وہ دن رات قال اللہ قال الرسول کے مرغ زاروں میں سیر کرتے ہیں۔ قدرت کی فیاضیاں اور فطرت کی چارہ سازیاں ان کے جلو میں ہوتی ہیں،

 

 

اس لیے جذباتیت ان میں فزوں تر ہوتی ہے۔ پھر جس سے افادہ و استفادہ کا تعلق ہو، علم، معلومات اور مطالعہ و مذاکرہ کی وابستگی ہو تو اس سے محبت و جذباتیت المضاعف ہو جاتی ہے۔ خواہ وہ درس گاہ ہو، اساتذہ ہوں، رفقائے درس ہوں، ہم حجرہ، ہم نوالہ و ہم پیالہ ہوں۔ طالبان علوم کے دل میں ان کی یادیں سینے کا داغ بن جاتی ہیں۔ وہ ان کے حافظے میں ہمیشہ کے لیے جاگزیں ہو جاتی ہیں۔ وہ انہیں اپنی زندگی کا بہترین سرمایہ اور خزانۂ عامرہ سمجھتے ہیں۔ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی انہیں تازہ رکھتے ہیں۔ اپنے ہم چشموں، ہم مجلسوں اور ہم خیالوں میں انہیں سنانے کو محبوب سمجھتے ہیں۔ بقول شاعر:

 

جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں

کوئی محفل ہو، تیرا رنگ محفل دیکھ لیتے ہیں

 

حساس طبیعت قرطاس و قلم سے وابستہ بھی ہو تو آدمی اسے اپنے سینے کا دفینہ بنانا پسند نہیں کرتا بلکہ اسے سینۂ اوراق میں گنجینے کی طرح اسے محفوظ کر دیتا ہے۔

 

مدارس، اساتذہ اور ساتھی کی یادوں کو بہت سے اہل قلم نے کتاب کا جامہ پہنایا۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی عزیزم رضوان الدین سلمہ کی یہ تصنیف بھی ہے۔ اس میں انہوں نے ان مدارس کے احوال و کوائف قلم بند کیے ہیں، جہاں انہوں نے اپنا علمی سفر جاری رکھا، جہاں کی عطر بیز اور بھینی بھینی فضاؤں میں انہیں جینے کا ہنر عطا ہوا۔ جہاں انہوں نے اپنے بچپن کے سنہرے ایام گزارے۔ ان اساتذہ کو بھی خراج تحسین پیش کیا، جن کے سامنے انہوں نے زانوئے تلمذ تہ کیا، جن کی آغوش تربیت میں رہ کر اپنی علمی تشنگی بجھائی۔ اسلامی فکر و نظر کو جلا بخشنے کی کوشش کی۔ اسی طرح ان علما و مشائخ کو بھی زیر قرطاس لائے، جن سے ان کی ملاقاتیں رہیں۔ ان سے مل کر موصوف کے کیا تاثرات رہے اور انہوں نے اپنے ممدوحین کو کیسا پایا؟ اپنی نوک قلم سے انہوں نے سب آشکارا کیا ہے۔ ساتھ ہی ان کے مختصر سوانحی نقوش بھی پیش کر دیے ہیں۔ تمام تحریریں از دل خیزد بر دل ریزد کے قبیل کی ہیں۔ زبان سلیس، شیریں اور معیاری ہے۔

 

 

برجستگی و بے تکلفی ہے۔ سادہ و پرکار ہے۔ ادبی شعور کی آئینہ دار ہے۔ کتاب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ عزیزم سلمہ کو اردو ادب سے خاصا شغف ہے۔ وہ اسے پروان چڑھانے اور صیقل کرنے کی کوشش میں ہیں۔ ابھی یہ طالب علم ہیں اور اس عہد میں ہی خامہ و قرطاس سے یہ لگاؤ!! یہ یقیناً ان کے شان دار مستقبل کا اشارہ دے رہا ہے۔ اللہ کرے کہ لوح و قلم کا یہ جدید مسافر تیز گامی اور سبک خرامی کے ساتھ مسلسل آگے بڑھے۔

 

 

آغاز تو بڑا شاندار ہے۔ اللہ کرے کہ یہ کتاب بے شمار خبروں والی مبتدا ثابت ہو اور مسند درس کے ساتھ قلم کی راہ سے علم و ادب کی خدمت بھی ان کا مقدر بنے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button