نئے عالمی نظام کی دستک

شجیع اللہ فراست

دنیا بدل رہی ہے۔ اور بہت تیزی سے بدل رہی ہے۔ عالمی سیاست کے حالیہ واقعات کود یکھیں تو یقیناً یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ دنیا میں امریکہ اس کے اتحادی یوروپی ملکوں اور نیٹو کا غلبہ ختم ہورہا ہے۔ ان کی طاقت کو برکس اور ایس سی او جیسے اتحاد چیالنج کررہے ہیں ۔ سرد جنگ ختم ہونے کے بعد سے امریکہ اور اس کے اتحادی دنیا میں اپنی من مانی کررہے تھے ۔ ان کی آواز کو ہی انٹرنیشنل کمیونٹی کی آواز سمجھا جاتا تھا ۔ دنیا کے معاملات میں ایشیا ۔ افریقہ اور لیٹن امریکہ کی آواز کوئی معنی نہیں رکھتی تھیں ۔ لیکن اب سب کچھ بدلتا نظر آرہا ہے ۔ نہ صرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا زور ٹوٹ رہا ہے بلکہ نیٹو اور یوروپی یونین میں بھی دراڑیں پڑگئی ہیں ۔ یہ ملک بھی اب ایک زبان میں نہیں بول رہے ہیں ۔ یوکرین جنگ سے یہ اختلافات کھل کر سامنے آگئے ہیں ۔ کئی بار یوروپی ملکوں اور امریکہ میں نیٹو کے خرچ برداشت کرنے کے معاملہ می تو تو میں میں بھی ہوئی ہے۔
ایک عرصہ ہوا برطانیہ یوروپی یونین سے نکل چکا ہے۔ اب یہ ملک اتحادوں کو نہیں بلکہ قومی مفادات کو ترجیح دے رہے ہیں۔ یونائیٹیڈ نیشنس جیسے عالمی ادارے اپنا اعتبار کھوچکے ہیں ۔ سیکیورٹی کونسل کوئی فیصلے کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ آئی سی جے جیسی عالمی عدالتوں کے فیصلے نان بائنڈنگ ہیں ۔ یعنی ان پر عمل لازمی نہیں ہیں ۔ اب برکس اور شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن جیسے گروپس ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے اداروں کو چیالنج کررہے ہیں ۔ چائنا کے صدر زی جن پنگ اس معاملہ میں کافی دلچسپی لے رہے ہیں ۔ انہوں نے نیو ڈیولپمنٹ بینک قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ انہوں نے ایک نئے عالمی نظام کے لئے میدان تیار کرنا شروع کردیا ہے۔ چائنا ۔ رشیا اور برازیل جیسے ملک ڈالر کی طاقت کو توڑنے کے لئے کمربستہ ہوچکے ہیں ۔
ایسے میں رہی سہی کسر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ پوری کررہے ہیں ۔ اپنی دوسری میعاد شروع ہوتے ہی انہوں نے دنیا میں غیریقینی کا ماحول پیدا کردیا ہے۔ خاص طور پر ٹرمپ کی ٹیرف وار نے دنیا میں ہلچل مچادی ہے ۔ عالمی تجارت ناقابل قیاس ہوچکی ہے۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے انڈیا کے خلاف پچاس فیصد ٹیرف لگاتے ہوئے شاید سب سے بڑی غلطی کردی ہے ۔ انہوں نے اس ٹیرف کے ذریعہ انڈیا کو پلیٹ میں سجاکر چائنا اور رشیا کو پیش کردیا ہے۔ حالانکہ امریکہ پیسفک کے علاقہ میں چائنا کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے اپنے اتحادیوں جیسے جاپان ۔ تائیوان اور ساوتھ کوریا کو بچانے کے لئے اور چائنا سے نمٹنے کے لئے انڈیا کی شکل میں ایک مضبوط ایشیائی اتحادی کی ضرورت تھی ۔
جب سے ٹرمپ نے انڈیا کو ٹیرف کا نشانہ بنایا ہے انڈیا اور امریکہ کے درمیان تعلقات دن بہ دن بگڑتے جارہے ہیں ۔ امریکہ کے لاکھ دباو کے باوجود انڈیا رشیا سے تیل خریدرہا ہے۔ انڈیا کا چالیس فیصد تیل اب رشیا سے آرہا ہے۔ رشیا نے انڈیا کو تیل خریدنے پر اور زیادہ رعایت دینے کا اعلان کیا ہے۔ ان حالات میں انڈیا امریکہ تعلقات بہتر ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں ۔ انڈیا سرد جنگ کے دوران امریکہ کے کیمپ میں نہیں تھا ۔ اس کا جھکاو رشیا کی طرف تھا ۔ لیکن سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد انڈیا اور امریکہ کا عشق شروع ہوا تھا ۔ لیکن ٹرمپ کی پالیسیوں نے امریکی پالیسی سازوں کی برسوں کی محنت پر پانی پھیر دیا ۔اس صورتحال میں امریکہ میں رہنے والے لاکھوں انڈینس کے مفادات بھی متاثر ہوسکتے ہیں ۔
حال ہی میں چائنا کے شہر تیان جن میں ہونے والی ایس سی او سمٹ نے موجود عالمی سیاست یا جیو پولیٹکس کا خلاصہ پیش کردیا۔ انڈین میڈیا اس بات پر خوب بغلیں بجارہا ہے کہ ایس سی او ڈکلریشن میں پہلگام حملے کی مذمت کی گئی ۔ لیکن میڈیا کے ہمارے دوست اس بات کو بھلارہے ہیں یا نظرانداز کررہے ہیں کہ اسی ڈکلریشن میں بلوچستان میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی بھی مذمت کی گئی ۔ یہی نہیں بلکہ اسی کاغذ میں غزہ میں اسرائیل کے حملوں کی بھی مذمت کی گئی ۔ حالانکہ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ دو ہزار چودہ میں جب سے نریندر مودی ملک کی قسمت کے مالک بنے ہیں انڈیا اور اسرائیل کے درمیان عشق کی پینگیں روز بہ روز بڑھتی جارہی ہیں ۔
جیو پولیٹکس کی بات ہو اور مڈل ایسٹ کا ذکر نہ آئے ایسا ہو نہیں ہوسکتا ۔ غزہ میں اسرائیل کی تئیس مہینوں سے جاری بربریت بھی دنیا میں بہت کچھ بدل رہی ہے۔ پہلے تو سات اکٹوبر کے حملوں نے ابراہام اکارڈ کے تحت عربوں خاص طور پر سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کے منصوبے پر عمل کو روک دیا ہے اب ایک کے بعد ایک کئی یوروپی ملکوں اور امریکہ کے اتحادیوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ لندن سے لے کر سڈنی تک ۔ برلن سے لے کر واشنگٹن تک لاکھوں لوگ فلسطین سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے فری پلسٹائن کے نعرے لگارہے ہیں ۔ امریکہ کا بگڑا ہوا بچہ اسرائیل دنیا میں اکیلا پڑتا جارہا ہے ۔
موجودہ عالمی نظام یا ورلڈ آرڈر انیس سو پینتالیس سے دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے بعد بنا تھا لیکن دوسری عالمی جنگ جیتنے والی طاقتوں کی طرف سے بنایا گیا یہ نظام یقیناً خامیوں سے بھرا تھا ۔ صرف پانچ طاقتوں کو ویٹو پاور دیا گیا تھا اوران میں سے اگر ایک ملک بھی چاہے تو پوری دنیا کی مرضی کو الٹ سکتا ہے ۔ اب یہ نظام آوٹ ڈیٹیڈ ہوچکا ہے ۔
غزہ جنگ تقریباً دو سال سے جاری ہے۔ چونسٹھ ہزار فلسطینی مارے جاچکے ہیں ۔ اسّی فیصد سے زیادہ غزہ کھنڈر بن چکا ہے۔ غزہ دو ہزار سات سے ناکہ بندی کا شکار ہے ۔ اب تو بھوک سے موتیں ہورہی ہیں ۔ روزانہ پچاس سے سو فلسطینیوں کی ہلاکتیں ایک معمول بن چکی ہیں ۔ لیکن یہ ایک مذاق ہے کہ یونائیٹیڈ نیشنس ۔ یوروپی یونین۔ نیٹو ۔ او آئی سی اور عرب لیگ جیسے ادارے نہ جانے کس وجہ سے انسانی تاریخ کے اس بدترین ظلم کو روکنے میں ناکام ہوچکے ہیں ۔
دنیا کی تمام حساس اور آزاد سوچ کے لوگ موجودہ عالمی نظام سے مایوس ہوچکے ہیں ۔ انہیں کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔ یہ نظام سڑگل چکا ہے۔ ناکارہ ہوچکا ہے۔ اب شاید ایک نئے نظام سے ہی کچھ امید باندھی جاسکتی ہے۔ بھلے ہی اس کے لئے موجودہ نظام اور موجودہ دنیا ٹوٹ پھوٹ کر ایک نیا نظام بنائے۔
خوشبوؤں کاایک نگر آباد ہونا چاہیے
اس نظام زر کو اب برباد ہونا چاہییے



