جنرل نیوز

نصابی کتب میں تاریخ کی مسخ شدہ پیشکش اور اس کے اثرات پر سیمینار

نصابی کتب میں تاریخ کی مسخ شدہ پیشکش اور اس کے اثرات پر سیمینار

 

حیدرآباد، 5 اکتوبر 2025: آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس (AIPC) کے اکیڈمیا ونگ کی جانب سے مدینہ ایجوکیشن سینٹر، نامپلی میں ’’نصابی کتب میں تاریخ کی مسخ شدہ پیشکش اور اس کے اثرات‘‘ کے عنوان سے ایک اہم سیمینار منعقد کیا گیا۔ اس سیمینار میں ممتاز ماہرینِ تعلیم، محققین اور سماجی کارکنان نے شرکت کرتے ہوئے NCERT کی نصابی کتب میں دانستہ طور پر کی جانے والی تبدیلیوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا۔ مقررین کا کہنا تھا کہ یہ تبدیلیاں طلبہ میں ’’ہم اور وہ‘‘ جیسا تفرقہ پیدا کرنے کی ناپسندیدہ کوشش ہیں، جو معاشرتی ہم آہنگی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہیں۔

 

سیمینار کی میزبانی اور نظامت ماریا تبسم، ڈپٹی اسٹیٹ ہیڈ (اکیڈمیا)، اے آئی پی سی تلنگانہ، نے انجام دی۔ ممتاز مقررین میں شامل تھے:

 

پروفیسر رام پنیانی، نامور مصنف، سماجی کارکن اور سابق پروفیسر آئی آئی ٹی بمبئی، جنہوں نے نصابی کتب میں تکثیری اور ہمہ جہتی تاریخی بیانیے کے منظم خاتمے پر روشنی ڈالی۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کی تبدیلیاں ہندوستان کی سیکولر اور جامع تاریخی روایت کو نقصان پہنچا رہی ہیں، اور نوجوان نسل کی تنقیدی سوچ کو کمزور کر رہی ہیں۔

 

جناب اکنوری مرلی، چیئرمین، ایجوکیشن کمیشن آف تلنگانہ و سابق آئی اے ایس افسر، نے تاریخی حقائق کو سیاسی مقاصد کے لیے مسخ کرنے پر نکتہ چینی کی۔ انہوں نے زور دیا کہ نصاب ایسا ہونا چاہیے جو اتحاد، حقیقت پسندی اور سائنسی شعور کو فروغ دے، نہ کہ نظریاتی تقسیم کو۔

 

پروفیسر پدمجا شا، سابق پروفیسر آف جرنلزم، عثمانیہ یونیورسٹی، نے میڈیا کے کردار پر روشنی ڈالی کہ وہ کس طرح بعض اوقات مسخ شدہ تاریخی بیانیے کو مزید تقویت دیتا ہے۔ انہوں نے طلبہ میں تحقیقی تجزیہ اور ذرائع کی تنقیدی جانچ کی عادت پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

 

ڈاکٹر کنچن، نیشنل ہیڈ، اکیڈمیا ونگ (AIPC)، نے نصابی تبدیلیوں کے تعلیمی آزادی اور جمہوری اقدار پر اثرات بیان کیے۔ انہوں نے کہا کہ اساتذہ اور پالیسی سازوں کو متحد ہو کر نصاب کو نظریاتی جانبداری سے محفوظ رکھنا چاہیے۔

 

مقررین نے NCERT کی نصابی کتب میں کیے گئے مخصوص تغیرات کی نشاندہی کی، جن میں بعض اہم تاریخی واقعات کو حذف کرنا، منتخب شخصیات کو غیر متوازن انداز میں پیش کرنا، اور مخصوص طبقات کی خدمات کو نظرانداز کرنا شامل ہے۔ ان کے مطابق یہ تبدیلیاں معاشرتی تفرقہ پیدا کرنے کی سوچی سمجھی کوشش ہیں، جو طلبہ میں غیر متوازن اور یک طرفہ تاریخی شعور پیدا کر سکتی ہیں۔

 

سیمینار میں سوال و جواب کا سیشن بھی رکھا گیا، جس میں اساتذہ، طلبہ اور سماجی کارکنان نے اپنی تشویشات اور سوالات پیش کیے۔ شرکاء نے اس امر پر زور دیا کہ ایسی نصابی تبدیلیوں سے قومی شناخت اور سماجی ہم آہنگی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

 

تقریب کے اختتام پر اے آئی پی سی اکیڈمیا ونگ کی جانب سے اس عزم کا اظہار کیا گیا کہ وہ تعلیم کے میدان میں شفافیت، شمولیت اور سائنسی بنیادوں پر مبنی نصاب کے فروغ کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔

 

یہ سیمینار آل انڈیا پروفیشنلز کانگریس کے اس مشن کی عکاسی کرتا ہے، جس کا مقصد پیشہ ورانِ تعلیم و محققین کو قومی تعمیر کے عمل میں متحرک کردار ادا کرنے کے لیے ایک مضبوط پلیٹ فارم فراہم کرنا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button