مضامین

کرناٹک میں قیادت کی خاموش جنگ 

از: عبدالحلیم منصور

؎ یہ جو کہتے ہیں ہوا بدلے گی، اُن سے کہہ دو

تخت بدلنے سے تقدیر نہیں بدلا کرتی

 

کرناٹک کی سیاست اس وقت ایک عجیب بے قراری میں مبتلا ہے۔ اقتدار کی گلیوں میں ایک نیا لفظ گردش کر رہا ہے — ’’نومبر کا انقلاب‘‘۔ یہ اصطلاح دراصل اقتدار کی منتقلی کی ایک افواہ سے جنم لیتی ہے، جس نے رفتہ رفتہ میڈیا، اپوزیشن اور عوامی گفتگو میں اپنی جگہ بنا لی ہے۔ ریاست کی موجودہ حکومت، جس کی قیادت سِدّارامیا کر رہے ہیں، پچھلے دو برسوں میں عوامی فلاح، سماجی توازن اور سیاسی استحکام کا ایک نیا بیانیہ قائم کرنے میں مصروف رہی ہے۔ لیکن اب جبکہ ان کی حکومت اپنے دورِ اقتدار کے وسطی مرحلے پر ہے، کچھ سیاسی حلقے دعویٰ کر رہے ہیں کہ نومبر کے مہینے میں ایک خاموش تبدیلی رونما ہو سکتی ہے، جسے بعض لوگ “انقلاب” کا نام دے رہے ہیں۔

 

 

دلچسپ امر یہ ہے کہ اس “انقلاب” کی بنیاد نہ عوامی بغاوت ہے، نہ پالیسیوں میں کوئی سخت اختلاف، بلکہ یہ ایک داخلی معاملہ ہے جو اقتدار کی تقسیم اور پارٹی کے اندر طاقت کے توازن سے متعلق ہے۔ کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی ایک غیر تحریری معاہدے کی خبریں سامنے آئی تھیں کہ اقتدار کے دو برس سِدارامَيا کے پاس رہیں گے، اس کے بعد قیادت نائب وزیرِ اعلیٰ ڈی کے شِیوکمار کے سپرد کی جائے گی۔ اب جب یہ مدت قریب پہنچ گئی ہے، تو کانگریس کے اندر خاموش ہلچل محسوس کی جا رہی ہے.سِدارامَيا نے اس تمام تر بحث پر خاموشی اختیار نہیں کی۔ ان کا بیان تھا کہ “نومبر میں کسی انقلاب کی گنجائش نہیں، میں پارٹی کی قیادت کے فیصلے کا پابند ہوں، اور جب تک ہائی کمانڈ چاہے گی، میں وزیرِ اعلیٰ کے طور پر خدمات انجام دیتا رہوں گا۔” یہ بیان بظاہر ان کے اعتماد کا مظہر لگتا ہے، لیکن اس میں ایک سیاسی احتیاط چھپی ہوئی ہے۔ وہ خود کو اقتدار سے وابستہ کسی ضد یا انا کے طور پر پیش نہیں کر رہے، بلکہ پارٹی قیادت کی رائے کو فیصلہ کن حیثیت دیتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل ان کی سیاسی بلوغت اور پارٹی نظم و ضبط کے احترام کو ظاہر کرتا ہے۔

 

 

 

دوسری طرف، ڈی کے شیوکمار، جنہیں اس پوری قیاس آرائی کا مرکز مانا جا رہا ہے، نہ تو کسی بیان سے اس “انقلاب” کی تائید کرتے دکھائی دیتے ہیں، نہ تردید۔ ان کی خاموشی بہت معنی خیز ہے۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ شیو کمار اپنی پوزیشن مضبوط کرنے میں مصروف ہیں، مگر پارٹی میں براہِ راست تصادم سے گریز کر رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کرناٹک کی سیاست میں قیادت کی تبدیلی صرف دہلی کے اشارے پر ممکن ہے۔ چنانچہ وہ وقتی صبر اور حکمت کو ترجیح دے رہے ہیں۔بی جے پی نے اس صورتحال کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنے میں دیر نہیں لگائی۔ اپوزیشن کے رہنما آر اشوک نے اعلان کیا کہ “کرناٹک میں نومبر کا انقلاب یقینی ہے، یہ حکومت اندرونی انتشار سے خود ٹوٹنے والی ہے۔” اس بیان نے سیاسی ماحول کو مزید گرما دیا۔ بی جے پی کے لیے یہ محض حکومت پر حملہ نہیں بلکہ عوام میں غیر یقینی اور بدگمانی پیدا کرنے کی ایک حکمتِ عملی ہے۔ وہ جانتی ہے کہ اگر کانگریس کی اندرونی صفوں میں اختلافات نمایاں ہوں تو عوامی تاثر کمزور ہوگا، اور یہی وہ سیاسی خلا ہے جسے وہ بھرنا چاہتی ہے۔

 

 

تاہم زمینی سطح پر صورتحال اس بیانیے سے مختلف ہے۔ کرناٹک میں سِدارامَيا حکومت کو عوامی سطح پر کسی بڑی مخالفت کا سامنا نہیں۔ اُن کی متعارف کردہ ’’گارنٹی اسکیمیں‘‘ مثلاً گرہا لکشمی، انا بھاگیا، شکتی اسکیم، اور گرہا جوتی عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ یہ اسکیمیں صرف ووٹ کی سیاست نہیں بلکہ متوسط اور غریب طبقات کے لیے حقیقی سہارا بن گئی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست کے دیہی علاقوں میں کانگریس کی مقبولیت برقرار ہے۔ بی جے پی کی طرف سے عائد کردہ کرپشن کے الزامات یا بدانتظامی کے دعوے عوامی سطح پر زیادہ اثر نہیں ڈال پائے ہیں۔ ایسے میں اگر قیادت بدلی گئی تو یہ سوال ضرور اٹھے گا کہ آخر ایسی تبدیلی کی ضرورت کیا تھی؟سیاسی طور پر دیکھا جائے تو اس وقت قیادت کی تبدیلی پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ کیونکہ کانگریس کو مرکز میں ہونے والے انتخابات کے پیشِ نظر ایک متحدہ اور پُر اعتماد چہرے کی ضرورت ہے۔ اگر نومبر میں واقعی تبدیلی ہوتی ہے تو اسے محض داخلی سمجھوتہ نہیں بلکہ کمزوری کی علامت سمجھا جائے گا۔ یہ تصور قائم ہوگا کہ کانگریس اقتدار کے بوجھ سے زیادہ اندرونی کشمکش میں مبتلا ہے۔ اس کے برعکس اگر سِدارامَيا کو مکمل مدت دی جاتی ہے، تو وہ اپنی انتظامی کارکردگی کے بل پر 2028 کے انتخابات کے لیے مضبوط بیانیہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

 

 

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ بعض حلقے قیادت کی تبدیلی کے موقع پر “دلت وزیرِ اعلیٰ” کے امکان کو بڑھاوا دے رہے ہیں، تاکہ پارٹی سماجی توازن کے نام پر ایک نیا کارڈ کھیل سکے۔ کچھ تجزیہ نگاروں کے مطابق ملیکارجن کھرگے کی موجودگی نے اس بحث کو مزید تقویت دی ہے، تاہم کھرگے کی موجودہ حیثیت — بطورِ قومی صدر — انہیں ریاستی سیاست سے اوپر کے مقام پر لے گئی ہے۔ ان کی واپسی نہ صرف غیر موزوں بلکہ پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔دوسری طرف مسلمانوں اور اقلیتی طبقات کی نظر اس ساری صورتحال پر بڑی باریکی سے ہے۔ سِدارامَيا حکومت نے اقلیتوں کے تعلیمی وظائف، وقف جائیدادوں کے انتظام، اور سماجی مساوات کے میدان میں کئی مثبت اقدامات کیے ہیں۔ اگر قیادت میں تبدیلی آتی ہے تو ان طبقات کو یہ اندیشہ لاحق ہو سکتا ہے کہ آیا نئی قیادت ان پالیسیوں کو جاری رکھے گی یا ان میں تخفیف ہوگی۔ کانگریس کے لیے اس وقت سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ قیادت کی تبدیلی سے زیادہ پالیسیوں کے تسلسل پر یقین دہانی کرائے۔

 

 

درحقیقت اس وقت جو کچھ “انقلاب” کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے، وہ محض اقتدار کی اندرونی کشمکش ہے۔ انقلاب کا مفہوم یہ نہیں کہ ایک چہرہ دوسرے سے بدل جائے۔ انقلاب تب ہوتا ہے جب پالیسی، نظریہ اور سیاسی اخلاقیات میں تبدیلی آئے، جب عوام کی شرکت حقیقی ہو، جب اقتدار کا مرکز عوامی مفاد ہو، نہ کہ چند بااثر چہروں کے درمیان سمجھوتہ۔کرناٹک کی موجودہ صورتحال میں ایسا کوئی عوامی یا نظریاتی طوفان نہیں جو انقلاب کہلانے کے لائق ہو۔ اس وقت جو کچھ ہے، وہ ایک منظم اور محتاط سیاسی کھیل ہے — جس میں ہر فریق اپنی باری کے انتظار میں ہے۔ نومبر کی آمد سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ آیا کانگریس اس بحث سے نکل کر ریاستی استحکام، اقتصادی اصلاحات اور عوامی فلاح پر توجہ برقرار رکھتی ہے یا نہیں۔

 

 

سِدارامَيا کے لیے سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کریں، انتظامی کامیابیوں کو مضبوط کریں، اور انتخابات سے قبل پارٹی کو ایک واضح سمت میں لے جائیں۔ اگر قیادت کا معاملہ واقعی ناگزیر ہوا تو اسے جمہوری مشاورت کے ذریعے انجام دینا ہی دانشمندی ہوگی۔ بصورتِ دیگر، یہ سارا عمل عوام کے اعتماد پر کاری ضرب ثابت ہو سکتا ہے۔کرناٹک کی سیاست کا مزاج ہمیشہ سے پیچیدہ رہا ہے۔ یہاں اتحاد اور انشقاق، اقتدار اور قربانی، سب ایک ہی کہانی کے مختلف باب ہیں۔ آج کا سوال یہ نہیں کہ نومبر میں انقلاب آئے گا یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ آیا ریاست میں اقتدار عوامی اعتماد کے ساتھ آگے بڑھے گا یا پھر سیاست ایک بار پھر ذاتی مفادات کے گرد گھومتی رہے گی۔

 

؎ سیاست کے تماشے میں کردار بدلتے رہتے ہیں

پردہ وہی رہتا ہے، منظر بدل جاتے ہیں

haleemmansoor@gmail.com

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button