جنرل نیوز

احسان — دین کی روح اور بندگی کا اعلیٰ ترین مقام – مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب 

احسان — دین کی روح اور بندگی کا اعلیٰ ترین مقام،خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا خطاب

 

حیدرآباد 5نومبر (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ لفظِ احسان عربی زبان کے حسن و جمال سے لبریز ایک ایسا مفہوم رکھتا ہے جو بندگی کی معراج اور روحانیت کی انتہا کی ترجمانی کرتا ہے۔ اس کا مادہ ’’حسن‘‘ ہے، جس کے معنی ’’عمدہ، خوبصورت اور پسندیدہ‘‘ ہونے کے ہیں۔ امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں کہ حسن ایسی خوبی کا نام ہے جو عقل و وجدان، دل و نگاہ اور ذوقِ سلیم، تینوں کے نزدیک پسندیدہ اور دل آویز ہو۔ چنانچہ جب یہی مادہ ’’بابِ افعال‘‘ میں آتا ہے تو ’’احسان‘‘ بنتا ہے، یعنی ایسا حسنِ کردار جو ظاہر و باطن دونوں میں کامل ہو، اور جس میں خلوص، صفائی اور حسنِ نیت کا غلبہ ہو۔یوں احسان دراصل عملِ صالح کا وہ اعلیٰ ترین درجہ ہے جس میں نیت، ارادہ، اظہار اور انجام—ہر چیز میں حسن و کمال نمایاں ہو۔ قرآنِ مجید نے اسے ’’تزکیہ‘‘ کے مترادف قرار دیا ہے اور یہی وہ مقام ہے جو انسان کو ایمان و اسلام کے بعد روحانی بلندیوں تک پہنچاتا ہے۔

حدیثِ جبریل — دین کی جامع تشریح

احسان کے مفہوم کو نبیِ کریم ﷺ نے نہایت جامع انداز میں واضح فرمایا۔ امام بخاری و مسلم کی متفق علیہ حدیث میں وارد ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک روز بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں انسانی صورت میں حاضر ہوئے اور دین کے بارے میں سوالات کیے۔

پہلے ایمان کے بارے میں پوچھا گیا تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ایمان یہ ہے کہ:

’’تو اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، آخرت کے دن اور خیر و شر کی تقدیر پر ایمان لائے۔‘‘

پھر اسلام کے متعلق استفسار ہوا تو حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

’’اسلام یہ ہے کہ تو اللہ کی وحدانیت اور محمد ﷺ کی رسالت کی گواہی دے، نماز قائم کرے، زکوٰۃ ادا کرے، رمضان کے روزے رکھے اور استطاعت ہو تو بیت اللہ کا حج کرے۔‘‘

تیسرا سوال احسان کے بارے میں تھا۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:

«اَلْإِحْسَانُ اَنْ تَعْبُدَ اللّٰہَ کَأَنَّکَ تَرَاہُ، فَاِنْ لَّمْ تَکُنْ تَرَاہُ فَاِنَّہٗ یَرَاکَ»

’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اُسے دیکھ رہا ہے، اور اگر یہ کیفیت نصیب نہ ہو تو کم از کم یہ یقین رکھ کہ وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔‘‘

(بخاری، مسلم)

یہ حدیث مبارکہ دراصل دین کے تین درجوں کی جامع تعریف پیش کرتی ہے:

1. ایمان — عقیدہ و یقین کا مقام

2. اسلام — اطاعت و عمل کا درجہ

3. احسان — روحانی و باطنی کمال کا مرتبہ

احسان — ظاہری عبادت سے باطنی مشاہدہ تک

احسان بندگی کے اس درجے کا نام ہے جہاں بندہ محض فرضی عبادت گزار نہیں رہتا بلکہ عبادت کے حسن میں روح کی حلاوت محسوس کرتا ہے۔

امام نوویؒ فرماتے ہیں:

’’جب بندے کے دل میں یہ کیفیت جاگزین ہوجائے کہ میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، تو وہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دیتا ہے اس میں نہ آداب کی کوتاہی رہتی ہے نہ خضوع و خشوع میں کمی۔‘‘

یہی کیفیت دراصل عبادت کا تزکیہ ہے، یعنی نفس کی پاکیزگی، نیت کی صفائی، اور قلب کی حیات۔ اس مقام پر انسان کا ظاہر شریعت کی روشنی میں سنورتا ہے اور باطن معرفت و اخلاص سے جگمگانے لگتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں عبادت محض فریضہ نہیں بلکہ محبت بن جاتی ہے، اور بندہ عبادت کو دیکھنے، سننے اور محسوس کرنے کے ذوق کے ساتھ انجام دیتا ہے۔

احسان — دین کی روح

ایمان انسان کے باطن کو مضبوط کرتا ہے، اسلام اس کے ظاہر کو سنوارتا ہے، لیکن احسان ان دونوں کو جوڑ کر بندگی کو روح عطا کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اگر ایمان جسم کا دل ہے تو احسان اس کی روح ہے۔ ایمان و اسلام کے بغیر انسان مسلمان تو ہوسکتا ہے مگر ’’محسن‘‘ نہیں بن سکتا، اور احسان کے بغیر عبادت محض ایک رسم بن کر رہ جاتی ہے۔

یہی وہ مقام ہے جسے قرآن نے “اَحْسَنَ عَمَلًا” کہا، یعنی عمل کا وہ درجہ جو حسن و اخلاص کی انتہا پر ہو۔

احسان اور علمِ تصوف

تصوف و سلوک دراصل احسان ہی کا عملی اور علمی مظہر ہے۔ تصوف کا مقصد عبادت میں اخلاص پیدا کرنا، دل کو ذکرِ الٰہی سے زندہ رکھنا، اور بندے کو قربِ الٰہی کا احساس دلانا ہے۔

یوں تصوف کا حقیقی جوہر یہی ہے کہ بندہ اپنے رب کے ساتھ ہر لمحہ مشاہدہ و مراقبہ کے جذبے میں رہے۔

احسان دراصل دین کا نچوڑ اور ایمان و اسلام کا خلاصہ ہے۔

جب ایمان یقین بن جائے، اسلام عمل بن جائے اور ان دونوں میں حسن و اخلاص کی خوشبو رچ بس جائے، تو وہی ’’احسان‘‘ کہلاتا ہے۔

یہی وہ منزل ہے جہاں بندہ عبد سے محسن اور عابد سے عارف بن جاتا ہے۔

پس، دین کا کمال احسان میں ہے — کہ بندہ اپنے رب کو نہ صرف مانے اور اس کی عبادت کرے، بلکہ ہر لمحہ اس کی نگاہِ کرم میں خود کو محسوس کرے۔

یہی احساس بندگی کا حسن اور ایمان کی معراج ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button