عادل آباد میں چیف منسٹر ریونت ریڈی کا دورہ — گروپ بندی کے برسوں بعد کانگریس کا غیر معمولی اتحاد، سیاسی حلقوں میں نئی بحث

عادل آباد سے خضر احمد یافعی کی خصوصی رپورٹ
عادل آباد، 5 دسمبر (اردو لیکس): چیف منسٹر ریونت ریڈی کے دورۂ عادل آباد نے ضلعی سیاست میں نئی ہلچل پیدا کردی ہے۔ نو منتخب ڈی سی سی صدر ڈاکٹر نریش جادھو کے ہمراہ کانگریس کے تمام سرگرم گروپ اور بااثر قائدین نے ایک ساتھ وزیر اعلیٰ کا استقبال کیا، جو کئی برسوں بعد کانگریس کے اندر پہلی مرتبہ اتحاد کی جھلک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ کندی سرینواس ریڈی، بورنچو سری کانت ریڈی، سابق ڈی سی سی صدر ساجد خان، جی سجاتا، سنجیو ریڈی اور چیئرمین ارجمند علی نے شال پوشی اور گلدستے پیش کرتے ہوئے ریونت ریڈی کا پرتپاک استقبال کیا، جبکہ وزیر اعلیٰ نے بھی نہایت خوشگوار انداز میں جواب دے کر ماحول کو مثبت رکھا۔
یہ پیش رفت اس لحاظ سے اہمیت رکھتی ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے عادل آباد کانگریس 5 سے 6 الگ الگ گروپس میں واضح تقسیم کا شکار تھی اور ہر گروپ اپنے قوتِ اثر اور کارکنوں کی تعداد کے بل پر پارٹی پر اپنا اثر برقرار رکھنے کی کوشش کرتا رہا ہے، مگر آج تمام گروپس پہلی بار کندی سرینواس ریڈی کے کیمپ آفس میں ایک ساتھ نظر آئے، جس نے سیاسی حلقوں میں یہ سوال پیدا کردیا ہے کہ آیا کانگریس واقعی متحد ہونے جارہی ہے یا یہ محض دورے کے موقع پر وقتی مفاہمت ہے
۔ اس پس منظر میں اقلیتی قائدین بھی توجہ کا مرکز ہیں، جو کئی برسوں سے پارٹی میں نمایاں موجودگی رکھتے ہیں لیکن اندرونی مسابقت اور اختلافات کے سبب مکمل یکجہتی عمل میں نہیں آ پا رہی تھی۔ یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ کیا اب یہ اقلیتی قیادت گروہی سیاست سے بالاتر ہوکر اجتماعی مفاد کے لیے یکجا رہ پاتی ہے یا پھر پہلے کی طرح طاقت کا الگ الگ کھیل ایک بار پھر منظر عام پر آ جائے گا۔
اس ساری سیاسی سرگرمی کے درمیان عوام کی گفتگو کا مرکزی نقطہ کوئی گروپ بندی یا اتحاد نہیں بلکہ انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے۔ کانگریس نے انتخابات کے دوران چھ بڑی گارنٹیوں کا اعلان کیا تھا، جن میں خواتین کو 2500 روپے ماہانہ وظیفہ، میناریٹی ڈیکلیریشن، سبسیڈی قرضے، اور بے روزگار نوجوانوں کے لیے سہولیات شامل تھیں، تاہم دو سال گزرنے کے باوجود بھی یہ اسکیمیں تعطل کا شکار ہیں جس سے عوامی ناراضگی بھی بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔
ریونت ریڈی کے دورے نے کانگریس میں نئی سیاسی توانائی ضرور پیدا کی ہے، مگر سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے—کیا واقعی اتحاد برقرار رہے گا اور قیادت انتخابی وعدوں کی تکمیل پر سنجیدگی دکھائے گی؟ یا پھر داخلی سیاست اور گروپ بندی ایک بار پھر پارٹی کے راستے میں رکاوٹ بنے گی؟ آنے والا وقت طے کرے گا کہ عادل آباد کی سیاست کس سمت آگے بڑھتی ہے۔



