آکولہ پولیس کا 21 روزہ کامیاب مشن: آکولہ سے لاپتہ 14 سالہ ریشیکیش پنڈھرپور سے بازیاب


آکولہ پولیس کا 21 روزہ کامیاب مشن: آکولہ سے لاپتہ 14 سالہ ریشیکیش پنڈھرپور سے بازیاب
والدین کی بے بسی سے پولیس کی بھرپور کوششوں تک: آکولہ کے لاپتہ بچے کی ڈرامائی بازیابی
150 سے زائد سی سی ٹی وی فوٹیجز، درجنوں مقامات کی چھان بین،آکولہ پولیس کا قابلِ تعریف کارنامہ
آکولہ سے پنڈھرپور تک 21 دن کا سفر: معصوم ریشیکیش کی تلاش نے انتظامیہ کو ہلا دیا
اسپیشل اسٹوری
ڈاکٹر محمد راغب دیشمکھ آکولہ
موبائل نمبر۔ 7972780976
آکولہ کے خدان علاقے سے لاپتہ ہونے والے چودہ سالہ رشی کیش کنوجیا کی تلاش میں ضلع پولیس نے جس طرح انتھک محنت، مسلسل تکنیکی جانچ اور سائنسی بنیادوں پر قائم حکمتِ عملی کا سہارا لے کر اکیسویں دن اسے بحفاظت برآمد کیا، وہ نہ صرف ایک پریشان خاندان کی اذیت کا خاتمہ تھا بلکہ پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیت، ٹیم ورک اور عوامی اعتماد کی بحالی کا بھی روشن ثبوت بن کر سامنے آیا۔ اس پوری تلاش کو ایک غیر معمولی کارروائی اس لیے بھی قرار دیا جا رہا ہے کہ ابتدائی طور پر پولیس کے پاس کسی قسم کا واضح سراغ موجود نہیں تھا، اور بچہ موبائل فون بھی استعمال نہیں کرتا تھا جس سے اس کی لوکیشن یا کسی رابطے کا اندازہ لگایا جا سکے۔
یہ واقعہ گیارہ نومبر کی شام اس وقت پیش آیا جب رشیکیش معمول کے مطابق گھر سے نکلا مگر کئی گھنٹے گزرنے کے باوجود واپس نہ آیا۔ گھر والوں نے پہلے پہل اسے کسی جاننے والے یا قریبی دوستوں کے پاس سمجھ کر صبر کیا، مگر جب تلاش کے باوجود کوئی اطلاع نہ ملی تو گھبراہٹ بڑھتی گئی۔ اس بے چینی نے بارہ نومبر کو انہیں کھدان پولیس اسٹیشن پہنچنے پر مجبور کر دیا جہاں بچے کی گمشدگی کی باضابطہ شکایت درج کرائی گئی۔ یہ شکایت محض ایک رسمی کارروائی نہیں تھی بلکہ اس کے ساتھ والدین کی بے بسی، خوف اور وہ گھٹن بھی شامل تھی جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔شکایت درج ہوتے ہی یہ معاملہ ضلع پولیس
سپرنٹنڈنٹ ارچت چانڈک کی خصوصی توجہ میں آیا۔ والدین سے بار بار ہونے والی بات چیت اور ان کی بے بسی نے ایس پی کو اس کیس کو ترجیحی بنیادوں پر لینے پر مجبور کر دیا۔ انہوں نے فوری طور پر کرائم برانچ، لوکل کرائم برانچ اور کھدان پولیس کو ہدایت جاری کی کہ معاملے کی تفتیش میں کوئی بھی پہلو نظرانداز نہ کیا جائے۔ لیکن تفتیش کے آغاز میں ہی ایک مشکل سامنے آئی۔ بچہ نہ تو موبائل استعمال کرتا تھا، نہ ہی کسی جھگڑے، دھمکی یا گھر سے ناراضی جیسے حالات کی کوئی اطلاع سامنے آئی۔ اس سے اندازہ ہو گیا کہ یہ معاملہ
معمولی لاپتگی نہیں بلکہ ایک پیچیدہ تلاش میں بدل چکا ہے۔تحقیقات میں پہلا بڑا موڑ اس وقت آیا جب پولیس نے کھدان ، رام داس پلاٹ اور انہی علاقوں کے آس پاس کے 150 سے زائد سی سی ٹی وی کیمروں کی جانچ کی۔ ان میں سے ایک فوٹیج نے ثابت کیا کہ رشیکیش گیارہ نومبر کی رات آٹھ بجے کے قریب آکولہ ریلوے اسٹیشن کے پلیٹ فارم نمبر تین پر موجود تھا اور وہاں سے ناگپور-کولہاپور ایکسپریس ٹرین میں سوار ہو کر کہیں روانہ ہو رہا تھا۔ اس ایک تصویر نے معاملے کا رخ بدل دیا، کیونکہ پہلی بار یہ واضح ہوا کہ لڑکا خود کسی دوسری جگہ جانے کا ارادہ رکھتا تھا۔اس سراغ کے بعد ایک
خصوصی ٹیم تشکیل دی گئی جس میں ایک افسر اور دس تربیت یافتہ اہلکار شامل تھے۔ ٹیم نے ٹرین کے روٹ پر آنے والے ہر اہم اسٹیشن کے سی سی ٹی وی ریکارڈ کی جانچ شروع کی۔ ان اہلکاروں نے ناگپور سے لے کر کولہاپور تک سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کیا اور ہر اسٹیشن کے ڈیجیٹل ریکارڈ کی جانچ میں گھنٹوں صرف کیے۔ اس باریک بینی سے چھان بین کا نتیجہ یہ نکلا کہ رشیکیش کو پنڈھرپور اسٹیشن کے کیمرے میں ٹرین سے اترتے ہوئے دیکھا گیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جس نے پوری ٹیم کے حوصلے کو نئی توانائی دی۔ پنڈھرپور پہنچنے کے بعد ٹیم نے شہر کے ہر ممکن مقام کا جائزہ لیا۔ وٹٹھل رُکمِنی مندر کا
وسیع احاطہ، یاتریوں سے بھرا بس اسٹینڈ، آشرم، لنگر، چاندربھاگا ندی کے کنارے کے علاقے اور وہ تمام مقامات جہاں باہر سے آنے والے افراد ٹھہرتے یا آتے جاتے ہیں، ان سب کو تلاش کے دائرے میں شامل کیا گیا۔ پولیس نے مقامی دکان داروں، رکشہ ڈرائیوروں، خانہ بدوشوں، راہگیروں اور زائرین تک کو رشیکیش کی تصویر دکھا کر پوچھ گچھ کی۔ کئی جگہوں سے معمولی سی مشابہت پر بھی پولیس فوراً موقعے پر پہنچی، مگر ہر کوشش ناکام ہو رہی تھی۔ بالآخر دو دسمبر کی دوپہر پنڈھرپور کے سرگم چوک کے قریب واقع ایک حجام کی دکان کے پاس پولیس نے ایک دبلا پتلا، پریشان حال مگر باشعور چہرے والے لڑکے کو دیکھا جس کی شکل فوٹیج سے حیرت انگیز طور پر میل کھاتی تھی۔ ٹیم قریب پہنچی تو وہی خوفزدہ، تھکا ہوا مگر صحیح سلامت رشیکیش
سامنے تھا۔ پولیس نے انتہائی نرمی سے اس سے بات کی، پانی پلایا اور اسے محفوظ طریقے سے اپنے ساتھ لے کر آکولہ روانہ ہو گئی۔ آکولہ میں تین دسمبر کو جو منظر دیکھا گیا، وہ جذبات سے بھرپور تھا۔ پولیس سپرنٹنڈنٹ ارچت چانڈک نے میڈیا کی موجودگی میں رشیکیش کو والدین کے حوالہ کیا۔ جیسے ہی ماں نے اپنے بیٹے کو دیکھا تو وہ بے اختیار اس سے لپٹ کر روتے ہوئے اسے چومنے لگی، جب کہ لڑکا بھی روتا ہوا ماں سے چمٹ گیا۔ پولیس اہلکاروں، میڈیا نمائندوں اور وہاں موجود ہر شخص کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ یہ منظر کئی دنوں کی تھکاوٹ، بے بسی اور خوف کے خاتمے کا اعلان تھا۔ اس
کامیاب کارروائی کے پیچھے موجود محنت اپنی مثال آپ ہے۔ پولیس نے تقریباً دو سو افراد سے معلومات اکٹھی کیں، 1700 کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کیا، لگاتار 21 دن تک مختلف اضلاع میں گشت کیا اور 200 کے قریب سی سی ٹی وی فوٹیجز کی بار بار جانچ کی۔ اس مثالی کارکردگی کے اعتراف میں ایس پی ارچت چانڈک نے پوری ٹیم کے لیے انعام کا اعلان بھی کیا۔یہ پوری مہم اس بات کی روشن مثال ہے کہ محدود معلومات، بے شمار مشکلات اور غیر یقینی صورتحال کے باوجود اگر تفتیش تکنیکی بنیادوں پر، منظم طریقے سے اور مستقل مزاجی کے ساتھ کی جائے تو ناممکن بھی ممکن ہو جاتا ہے۔ آکولہ پولیس کی یہ کوشش نہ صرف ایک خاندان کے لیے امید کی کرن بنی بلکہ پورے معاشرے میں
پولیس کے تئیں اعتماد کو مضبوط کیا۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ جدید ٹیکنالوجی، عوامی تعاون اور محنت کا امتزاج کسی بھی مشکل کیس کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔



