مضامین

حالاتِ حاضرہ …… خبر اور خیال

از: میر فاروق علی

ایک طرف جہاں بنگلہ دیش میں ایک ہندو نوجوان کی ماب لنچنگ پر دلی سے سیلیگوڑی تک احتجاج کیا جارہا ہے اور وہیں اترپردیش کی یوگی حکومت اخلاق کو ماب لنچنگ کرکے مارڈالنے والے مجرموں کا کیس خارج کرنے کی درخواست لے کر عدالت گئی ہے اور یوپی حکومت اس کا جواز یہ پیش کررہی ہے کہ سماجی ہم آہنگی برقراررہے۔عدالت نے پہلے پہل تو اس درخواست کو رد کردیا ہے۔

 

 

دوسری طرف اترپردیش اُناو کا زانی کلدیپ سنگھ سینگر کو عمرقید کی سزا سنائے جانے کے باوجود چند مہینے قید میں گزارنے کے بعد عدالت رہائی دے رہی ہے۔ یہ وہی کلدیپ سنگھ سینگر ہے جس دو ہزار سترہ میں اپنے گھر ملازمت مانگنے آئی سترہ سالہ لڑکی کا ریپ کیا۔ لڑکی جب انصاف کیلئے آواز اٹھاتی ہے تو اس کو ان سنی کردیا جاتا ہے۔ یہ دو بار خود کو چیف منسٹر کے گھر کے باہر جلانے کی بھی کوشش کرتی ہے تاکہ اس کی فریاد سنی جائے لیکن بدلے میں اس کے باپ کو دھرلیا جاتا ہے اسے سینگر کے بھائیوں کی جانب سے اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاکر مرجاتا ہے۔

 

اس کے کچھ عرصہ بعد اسی ریپ کیس سے جڑے اس لڑکی کے دو رشتہ داروں کو ایک ٹرک سڑک پرچلتے روند ڈالتا ہے اور گواہوں کو ختم کردیا جاتا ہے۔ اس وقت تک یہ کیس سارے ملک کی اپنی طرف متوجہ کرچکا تھا۔ سپریم کورٹ نے بھی مداخلت کی۔ وزیراعظم نے واقعہ کی مذمت کی اس طرح یہ واقعہ سرخیوں میں چھاگیا تھا۔ عدالت نے کلدیپ سینگر کی سزا کو معطل کرتے ہوئے اس طر یہ شرط رکھی ہے کہ سینگر نے جس لڑکی کا ریپ کیا تھا اس کے گھر کے پانچ کیلو میٹر کے احاطہ میں نہ نظر آئے گا اور نہ اس لڑکی کی ماں کو کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کرے گا۔واہ!!

 

 

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ یہاں زانیوں۔ فسادیوں۔ہجومی تشدد کرنے والوں کو کھلی چھوٹ دے دی جارہی ہے۔ کشمیر کی آصفیہ ہو یا اُناو کی بیٹی یا گجرات کی بلقیس بانو ان کی عصمت لوٹنے والے‘ ان کو مارنے والے جب رہا ہوکر آتے ہیں تو ان کا ڈھول تاشوں۔ مٹھائیوں۔ پھول مالاؤں سے استقبال کیا جاتا ہے۔ان سب باوجود ہم کویہ کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں ہمارے عدالتی نظام پر بھروسہ ہے۔!

 

بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی

کسے وکیل کرے کس سے منصفی چاہیں

 

یہ تو رہی بات ہندوستانی نظام عدلیہ کی‘ یہاں کی حکمرانی اور حکمرانوں کی۔ آگے بڑھتے ہیں چلتے ہیں لندن کی طرف جہاں ماحولیاتی کارکن گریٹا تھن برگ کو فلسطین کے حق میں مظاہرہ کرنے آواز اٹھانے پر گرفتار کرلیا گیا ہے اور ان پر دہشت گردی کی دفعات لگائی گئی ہیں۔ یہ وہی گریٹا تھن برگ ہیں جنہوں نے دو بار سمندری راستے سے غزہ کے بھوکوں کے لئے سامان لے جانے کی کوشش کی۔ اپنی جان کو جوکھم میں ڈالا۔ انہیں مار دیئے جانے کا اندیشہ تھا لیکن پھر بھی اس نوجوان خاتون نے حوصلہ دکھایا۔ یہ وہ جذبہ اور عملی مظاہرہ تھا جس نے ساری دنیا کے نظام اور مسلم دنیا کو برہنہ کردیا تھا۔

 

اب واپس آتے ہیں ہماری ریاست تلنگانہ کی طرف جہاں محبوب نگر کے ایک ڈپٹی ٹرانسپورٹ کمشنر کے رشتہ داروں دوستوں کے گھروں اور بے نامی جائیدادوں پر پر اے سی بی چھاپے مارتی ہے تو یہ جان کر سب دنگ رہ جاتے ہیں کہ وہ دو سو کروڑ روپیے کے اثاثوں کا مالک ہے۔ اس قدر لوٹ مار غیرمحسوب دولت کو اکٹھا کرنے کا یہ واقعہ چونکادینے والا ہے۔ تفصیلات کے مطابق اس شخص کے گھر سے تیس کیلو 30Kg سونا نکلتا ہے۔ وہ تیس ایکر زمین کا بھی مالک ہے۔

 

ایک ایسا ملک جہاں اکثریت کو کھانے کے لئے گھر میں تیس کیلو چاول میسر نہیں ہے جہاں کی اکثریت کو گھر کی چھت میسر نہیں ہے اسی ملک کے ایک سرکاری ملازم کے پاس سے اس قدر زر۔ زیور۔ زمین کا ملنا اس ملک اور اس کے نظام میں رشوت خوری کے اس قدر گہرائی تک پیوست ہوجانے اور ایک کینسر کی شکل اختیار کرلینے کا بھی ثبوت ہے۔

 

 

 

متعلقہ خبریں

Back to top button