سلطان الہند حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتی ؒ

از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی
کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm))

سلطان الہند خواجۂ خواجگان بدر العارفین معین الملۃ والدین حضرت سیدنا خواجہ معین الدین حسنی سنجری چشتی ؒ المعروف خواجہ غریب النواز (536-633ھ م 1141-1238ء (کی ولادت باسعادت ایران کے مشرق میں واقع صوبے سجستان میں ہوئی ۔آپ ؒ کے والد گرامی حضرت سیدنا خواجہ غیاث الدین حسن کی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب شہید کربلاء حضرت سیدنا امام حسینؓ سے جاملتا ہے جب کہ آپ کی والدہ محترمہ سیدتنا بی بی ام الورعؒ المعروف بی بی ماہ نور ؒکی طرف سے آپ کا سلسلہ نسب سبط رسولﷺ حضرت سیدنا امام حسین ؓ سے جاملتا ہے۔
(مراۃ الاسرار، تذکرۃ السادات، مسالک السالکین)۔ چونکہ آپؒ کے والد گرامی اپنے وقت کے بڑے عالم دین تھے اسی لیے آپ ؒ کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی ۔ آپ نے بعمر نو سال قرآن شریف حفظ فرمایا۔ آپ نے سنجر کے ایک مکتب میں تفسیر، حدیث اور فقہ کی تعلیم حاصل کی۔ ظاہری علوم کی تکمیل کے بعد آپ مرشد کامل کی تلاش میں نکلے اور 552ھ م 1157ء میں ہارون پہنچے اور اپنے وقت کے پیر کامل اور مرتاض بزرگ حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کی مجلس معارف و حقائق سے کئی سالوں تک مستفید ہوتے رہے ۔ آپؒ ہی کے دست حق پرست پر بیعت فرمائی ۔ بعدہ پیر و مرشد نے آپؒ کو خرقۂ خلافت و اجازت سے سرفراز فرمایا (ترجمۂ فرشتہ) ۔ آپ کی بود و باش کا اہم ذریعہ والد ماجد کے ترکہ سے ملی پن چکی اور باغ سے ہونے والی آمدنی تھی۔ (سیر العارفین) ۔ اوہام پرستی، خرافاتی اعمال میں غرق اور چھوت چھات و اونچ نیچ کے غیر انسانی تقسیم کے سماج میں مساواتِ انسانی کا انقلاب بپا کرنے والی
اس عظیم ہستی کی گزر بسر انتہائی سادہ تھی لیکن سخت ریاضت و مجاہدات، تقوی و طہارت، زہد و استغناء کی کیفیت آپ کی نگاہ پر جلال میں وہ تاثیر پیدا کردی تھی کہ اگر کسی فاسق و فاجر کو بھی دیکھ لیتے تو وہ فوراً اپنے گناہوں سے تائب ہوجاتا۔ آپؒ 586ھ م 1190ء میں بزمانہ پرتھوی راج اجمیر شریف میں رونق افروز ہوئے۔ (اخبار الاخیار، فوائد السالکین)۔ 6/ رجب 633ھ م 1238ء اپنے حجرۂ میں داخل ہوئے اور کافی عرصہ گزرنے کے باوجود آپ اپنے حجرہ سے باہر نہ آئے تو خدام حجرہ میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ آپؒ رحمت حق میں پیوست ہوچکے تھے ۔ آلاتِ مواصلات کی قلت اور پیغام رسانی کے غیر ترقی یافتہ اور روایتی طریقہ کے استعمال کے دور یعنی آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں سرزمین ہندوستان پر اسلام کی آبیاری، فروغ نشو و نما اور تبلیغ و اشاعت میں تاجرین، فاتحین اور مبلغین (صوفیائے کرام) نے اہم رول ادا کیا ہے
لیکن یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی جانب سے جتنی کاوشیں اسلام کے فروغ کے لیے کی جاتی ہیں اس سے کہیں زیادہ یہودی ، نصاری اور ان کی ہمنوا لابی مخالف اسلام سرگرمیوں ملوث رہی ہیں۔ چنانچہ واسکودی گاما (1469-1524ء) کی یورپ سے براہ راست ہندوستان کو منسلک کرنے والی بحری راہ کی دریافت نے مسلمانوں کی تجارت پر کافی منفی اثرات مرتب کیے تو وہیں برطانیہ کے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے نام سے قیام نے فاتحین کے سلسلہ کو منقطع کردیا اور اب مبلغین کے قدم روکنے کے لیے ہر باریش فرد کو دہشت گرد قرار دیکر ان کے حوصلوں کو پست کرنے کی مذموم کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن بفحوائے آیت کریمہ ’’الا ان حزب اللہ ھم المفلحون‘‘ مبلغین یعنی صوفیائے کرام کا مشن اور تنظیم سلاسل کا تسلسل پوری آب و تاب کے ساتھ ہر دور میں جاری و ساری رہا اور انشاء اللہ العزیز مبلغینِ اسلام تاقیامت شمس و قمر اپنی پوری قوت و توانائی کے ساتھ بلا خوف و خطر اس کار خیر میں مصروف و منہمک رہیں گے۔
ان ہی بزرگان ِدین کی خلوص و للہیت پر مبنی انتھک جدو جہد، مساعیٔ جمیلہ کا نتیجہ ہے کہ کرۂ ارض پر مسلمانوں کی دوسری بڑی آبادی ہندوستان میں مقیم و سکونت پذیر ہے۔ہندوستان میں قادریہ، چشتیہ،نقشبندیہ، سہروردیہ، شاذلیہ سلاسل کو کافی شہرت اور مقبولیت ملی۔ *پیر طریقت حضرت ابو العارف شاہ سید شفیع اللہ حسینی القادری الملتانی مد ظلہ العالی سجادہ نشین درگاہ پیر قطب المشائخ حضرت شاہ سید پیر حسینی القادری الملتانیؒ محققؔ امام پورہ شریف ارشاد فرماتے ہیں* ’’فقہ کے مشہور مذاہب اربعہ میں جغرافیائی حالات، علاقوں میں رائج چلن اور مختلف ممالک کے مقامی باشندوں کے عادات و اطوار اور رسم و رواج کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے ۔
اختلاف سلاسل طریقت میں بھی یہی عناصر کارفرما ہیں جس طرح ہر فقہی مذہب برحق ہے اسی طرح ہر سلسلہ طریقت قابل اکرام و تعظیم ہے‘‘۔ گراں مایہ روحانی سرچشمہ، مقتدائے روزگار، معین الحق حضرت سیدنا خواجہ معین الدین حسنی سنجری چشتیؒ نے بمقام اجمیر 591ھ م 1194ء میں آریائی سر زمین ہندوستان پر سلسلہ چشتیہ کا مرکز قائم فرمایا اور اس سلسلہ کے فروغ میں اہم رول ادا کیا۔ جس طرح نقشبندی سلسلہ (جو پہلے سلسلۂ خواجگان کے نام سے معروف تھا) خواجہ بہائو الدین نقشبند کی طرف منسوب ہے جب کہ اس سلسلہ کے اصل بانی حضرت سیدنا خواجہ احمد (المتوفی561ھ م 1166ء) ہیں اسی طرح اکثر لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ چشتیہ سلسلہ کے موسس حضرت سیدنا خواجہ معین الدین چشتیؒ ہیں جبکہ اس سلسلہ کی بناء حضرت سیدنا ممشاد الدینویؒ (المتوفی 299ھ م 911ء) کے شاگرد رشید حضرت سیدنا ابو اسحاق شامیؒ (المتوفی 329ھ م 940ء) نے رکھی تھی۔
آپؒ کا مزار جبل قاسیون دمشق میں واقع ہے اور وہیں حضرت سیدنا شیخ محی الدین ابن عربیؒ (560-638ھ م 1165-1240ء) بھی مدفون ہیں۔ حضور سیدنا غریب النوازؒ اور بانی سلسلہ کے درمیان حضرت ابو احمد چشتیؒ، حضرت محمد چشتیؒ، حضرت یوسف چشتیؒ، حضرت مودود چشتیؒ، حضرت حاجی شریف الزندنیؒ اور حضرت خواجہ عثمان الھارونیؒ جیسے بزرگوں کا واسطہ ہے۔ البتہ ہندوستان میں سلسلہ چشتیہ کے فروغ کے لیے کی جانے والی آپ کی مساعیٔ جمیلہ اظہر من الشمس و ابین من الامس ہے۔ بفحوائے حدیث پاک ’’غزوۃ الہند ‘‘ کشورِ ہندوستان آپ ہی کے حصہ میں آئی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو دیارِ ہند میں ’’سلطان الہند‘‘ ،’’نائب رسول فی الہند‘‘ ، ’’ہند الولی‘‘ اور ’’ہند النبی‘‘ جیسے معزز خطابات سے یاد کیا جاتا ہے۔جس طرح مغربی نصف کرہ میں آپؒ کے ماموں (بحوالہ سیر الاقطاب) پیرانِ پیر حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی ؒ (470-561ھ م 1077-1166ء) کو ’’شہنشاہ بغداد‘‘ کہا جاتا ہے اسی طرح مشرقی نصف کرہ میں آپؒ کو ’’سلطان الہند‘‘ کہا جاتا ہے۔ آج کے اس پُر آشوب و پر فتن اور بے راہ روی کے دور میں نئی نسل کو نہ صرف ان بزرگانِ دین کی سیرت سے واقف کروایا جانا ضروری ہے
بلکہ ان مبارک ہستیوں کی تعلیمات اور ارشادات پر ہم سب کو صدق دل سے عمل پیرا ہونا چاہیے تاکہ معاشرے سے برائیوں کو جڑ سے ختم کیا جاسکے۔ حضرت سیدنا خواجہ غریب النواز ارشاد فرماتے ہیں۔ ایک گناہ کا ارتکاب ایک شخص کے حق میں اس قدر تباہ کن نہیں ہوتا جس قدر ایک مسلمان کو حقارت کی نظر سے دیکھنا ہے۔ آج ہم مادہ پرستی میں اس قدر غرق ہوچکے ہیں کہ ہم نے انسان (جس کو اللہ تعالی اشرف المخلوقات بنایا ہے )کے مقابل مال و ثروت، جاہ و ہشمت، عہدہ و منصب اثر و رسوخ کو اہمیت دینے لگے ہیں اسباب دنیا کی فراوانی ہوتے ہی ہم میں سے اکثر کا تیور ہی بدل جاتا ہے اور ہم ایمان و عمل سے غفلت برتنے لگتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ہم انسان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں یہ کتنی تعجب خیز بات ہے کہ مخدوم (انسان) کے مقابل خادم (دنیا و ما فیہا) کو ترجیح دی جائے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے ’’اور بیشک ہم نے بڑی عزت بخشی اولادِ آدم کو‘‘ (سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 70) یہ کتنی جرأت و جسارت کی بات ہے کہ جس انسان کو اللہ تعالی نے عزت و اکرام سے نوازا ہم اسی کو حقارت کی نظر سے دیکھیں۔
ہم معاشرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو حقارت سے دیکھنے کی لعنت تیزی سے پھیل رہی ہے (العیاذ باللہ)۔ غرباء و مفلوک الحال اشخاص کی امداد کرنا چشتیہ سلسلہ طرۂ امتیاز رہا ہے۔ چنانچہ آپؒ بھی بیکسوں، بیوائوں، بینوائوں، محتاجوں، فقراء و مساکین کی ہمیشہ فریاد رسی فرمایا کرتے اسی لیے آپ کو غریب النواز کہا جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت قطب صاحبؒ فرماتے ہیں کہ ’’میں ایک عرصہ تک آپ کی خدمت اقدس میں رہا لیکن میں نے آپ کی بارگاہ سے کسی سائل کو خالی ہاتھ جاتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (احسن السیر) اللہ تعالی ہمیں
ان بزرگانِ دین کے صدقہ و طفیل مفاد پرستی کے دامِ فریب سے نکل کر انسانیت نواز کام کرنے کی توفیقِ رفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ سید الانبیاء والمرسلین، طہ و یسین۔



