مضامین

قیام اللیل

فتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی سورہ مزمل میں اپنے محبوب کو مخاطب کرکے آٹھ آیتوں تک قیام اللیل کی اہمیت ضرورت اور طریقہ کار کا ذکر کیا ہے ، ارشاد فرمایا : اے کپڑے لپٹنے والے رات کے وقت نماز میں کھڑے ہوجائیے آدھی رات یا اس سے بھی کچھ کم یا اس پر بڑھادیجئے اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف پڑھا کیجئے، ہم عنقریب آپ پر بھاری بات نازل کرنے والے ہیں، بے شک رات کا اٹھنا دل جمعی کے لیے انتہائی مناسب اور بات کو درست کرنے والا ہے، یقینا آپ کو دن میں بہت مشغولیت رہتی ہے، اس لیے اپنے رب کے نام کا ذکر کیجئے، اور تمام مخلوقات سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ رہیے“ (سورةالمزمل آیت 1تا 8)

ان آیات کے نازل ہونے کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے اپنے معمولات کا حصہ بنا لیا اور بالالتزام قیام اللیل کا اہتمام ہونے لگا، دشواری وقت کی تعیین میں ہوتی تھی کہ کتنا وقت گذرا ، پھر دن کی مصروفیات کے بعد طویل قیام آسان کام بھی نہیں تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اگلی آیتوں میں تخفیف کا حکم نازل کیا اور سابقہ حکم پر عمل کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: آپ کا رب بخوبی جانتا ہے کہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام کی ایک جماعت دو تہائی رات، نصف رات اور ایک تہائی رات کے بقدر تہجد پڑھتی ہے اور رات دن کا پورا اندازہ تو اللہ کو ہی ے، وہ خوب جانتا ہے کہ تم اسے ہر گز نبھا نہ سکوگے، اس لیے اس نے تم پر مہربانی کی، لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہواتنا ہی پڑھو، اللہ رب العزت جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار ہوں گے ، بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کی روزی تلاش کریں گے اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے ، سو تم بآسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھ۔

سورہ مزمل کے بعد کی آیتوں میں تہجد پڑھنے سے روکا نہیں گیا؛ بلکہ پہلے حکم میں تخفیف کی گئی ، تہجد کی یہ نماز امت پر فرض نہیں ہے ، لیکن دل تو یہی کہتا ہے کہ راتوں میں یکسوئی کے ساتھ تنہائی میں، اللہ کے سامنے جھک جایا جائے او ردعائیں کی جائیں۔

رمضان المبارک میں تہجد کے ساتھ قیام اللیل کی ایک شکل تراویح کی نماز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رمضان کی راتوں میں تواتر اور کثرت کے ساتھ نماز، تسبیح اور قراءت قرآن میں مشغول ہونے کا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: من قام رمضان ایمانا واحتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ۔ جس نے ایمان ومحاسبہ کے ساتھ رمضان میں قیام اللیل کیا، اس کے تمام سابقہ گناہ معاف کر دیے جائیں گے (ترمذی: الجامع الصحیح، ابواب الصوم، باب الترغیب فی قیام رمضان وما جاءفیہ من الفضل حدیث رقم 808)

رمضان المبارک میں پورے ماہ تراویح کے اہتمام سے قیام اللیل کی فضیلت وبرکت حاصل ہوتی ہے ،ا س لیے اس کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے، اس نماز کی با جماعت ادائیگی کی بڑی اہمیت ہے، سہولت ہو تو پورا قرآن تراویح میں سنا جائے، یا سنایا جائے، البتہ قراءت قرآن میں ترتیل کی رعایت ضروری ہے ، ایسی تیز رفتاری جس سے حروف کٹ جائیں اور حروف مخارج سے ادا نہ ہوں، غنہ، اخفا، مد غائب ہوجائے، یہ شریعت میں ممنوع ہے، اس لیے اس سے احتراز کرنا لازم ہے ، پورا قرآن سننے کی سہولت نہ ہو تو سورہ تراویح پڑھ لی جائے، دعاؤں کا اہتمام کیا جائے، روایتوں میں آتا ہے کہ رمضان المبارک کی راتوں میں اللہ رب العزت سماءدنیا پر نزول فرما کر تین مرتبہ اپنے بندوں کو آواز لگاتے ہیں کہ کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اس کی حاجت پوری کروں، کیا کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ میں اس کی توبہ قبول کروں، کیا کوئی مغفرت طلب کرنے والا ہے کہ میں اسے بخش دوں،( بیہقی شعب الایمان ، رقم حدیث 3695)

بقول اقبال: اللہ فرماتا ہے: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں۔جب مالک کائنات خود دینے کے لیے آواز لگارہا ہو اور آپ گڑگڑا رہے ہوں تو حاجت روائی ، توبہ کی قبولیت اور مغفرت میں کیا شبہ رہ جاتا ہے، رمضان المبارک کی راتوں کی قدر کیجئے، بد قسمتی ہے ہماری رمضان کی راتیں بھی سوکر گذر جاتی ہیں۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button