مضامین

قضیہ فلسطین میں مؤثر اور تاریخی موقف کی ضرورت

ذکی نور عظیم ندوی -لکھنؤ

اسرائیل کے ذریعہ آئے دن بیت المقدس میں ظلم وزیادتی، مسجد اقصی کی بے حرمتی،مسلح فوجیوں کے ذریعہ نہتے معصوموں کے قتل عام، بے بنیاد گرفتاری، عام بستیوں پر بمباری،یک طرفہ توسیعی منصوبے، ناجائز تعمیرات جیسی مذموم حرکتیں ، آئے دن اقوام متحدہ کی قرار دادوں کی خلاف ورزی اور دیگر تمام جرائم کی خبریں تو آتی ہی رہتی تھیں لیکن ۳جنوری ۲۰۲۳ء کو اسرائیلی وزیر سلامتی اتمار بن گویر کا مسجد اقصیٰ کے احاطہ میں جوتا پہن کر داخل ہونے، مسجد اقصیٰ کو جلد ہی توڑ کر کنیسا میں تبدیل کردینے، ہیکل سلیمانی کی تعمیر مکمل کرنے اور تابوت سکینہ کو یہاں لاکر رکھ دینے پر مبنی شرارت آمیز بیان کسی طرح نظر انداز کرنے کے قابل نہیں۔

یاد رہے کہ انھوں نےسالِ گزشتہ دسمبر میں کولمبیا یونیورسٹی کے دورہ کے موقع پر اعلان کیاتھا کہ ان کے پاس فلسطین کاحل یہ ہے کہ تمام فلسطینیوں کو قبر میں پہنچا دیا جائے جہاں وہ آرام کی نیند سو سکیں اور یہودی سکون سے اسرائیل میں زندگی گزار سکیں۔

لیکن اقوام متحدہ، حقوق انسانی تنظیموں ،عرب لیگ ،اسلامی تعاون تنظیم اور بعض با اثر ممالک کی زبانی مذمت یا چند رسمی تجویزیں پاس کرکے خاموش ہوجانا اس کا کسی طرح حل نہیں اور نہ اس سے غاصب اسرائیل پر کوئی فرق پڑنے والاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کہیں رکنے کے بجائے اپنے مذموم مقاصد کی طرف بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔ غاصب اسرائیل کایہ طرزعمل اور دبدبہ اگر ایک طرف عالمی طاقتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کی مجرما نہ روش کا نتیجہ ہے تو دوسری طرف مسلمانوں کی نا اتفاقی، کمزوری اور ’’ایک امت کے آفاقی تصور‘‘ کو فراموش کردینا بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔

اس سلسلہ میں کیا موقف اختیار کیا جائے کہ اسرائیل اوراس کی پشت پناہی کرنے والےدوبارہ اپنی شرارتوں سے باز رہیں، اس پر سنجیدگی سے غوروفکر اورجلد از جلد کوئی فیصلہ کن لائحہ عمل طے کرنا ضروری ہے ۔ جس سےاسرائیل ،امریکہ اور پوری دنیا کے سامنے مسجد اقصی اور فلسطین کے تعلق سےپوری امت مسلمہ کا صحیح موقف اسی طرح سامنے آسکے جس طرح 1948ء میں سابق سعودی حکمراں شاہ عبد العزیز آل سعود کے اس وقت کے امریکی صدرہیری ٹرومین کو لکھے گئے خط سے واضح ہو گیا تھا۔

واضح رہے کہ 10 فروری 1948ء کو امریکی صدرہیری ٹرومین نےسعودی عرب کے شاہ عبد العزیز کو لکھے خط میں ارض فلسطین پر عربوں اور یہودیوں کے مابین جاری کشمکش کو خانہ جنگی قرار دیتے ہوئے ان سے اپنے اثر و رسوخ اور عالم عرب و اسلام میں وقارکے پیش نظر یہودیوں کے خلاف عربوں کی تحریک روکنے کا مطالبہ کیا تھا، اور ایسا نہ کرنے پر امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور مشترکہ اقتصادی مفاد پر منفی اثر پڑنے، فلسطین اور اسکے حامی عرب ممالک پر عالمی اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوشیدہ دھمکی بھی دی تھی۔اس کے جواب میں شاہ عبد العزیز آل سعود نے 10 ربیع الثانی 1367 ھ کو وہ تاریخی خط لکھا جس میں عالم عرب اور پوری امت کی سچی ترجمانی تھی اور جس کی اس وقت پہلے سے زیادہ ضرورت ہے ۔

انھوں نے امریکی صدرہیری ٹرومین کو لکھے گئےخط میں لکھا کہ’’ یہ صراحت کئے بنا چارہ نہیں اور صراحت میری عادت بھی ہے کہ جیسے جیسے میرے سامنے آپ کا خط پڑھا گیا میری حیرت و تعجب میں اضافہ ہوتا گیا، کہ یہود کے باطل اور غلط رویہ کی تائید میں آپ اس قدر آگے جاسکتے ہیں‘‘

امریکی صدر کی تحریک رکوانے میں اپنا مؤثر کردار ادا کرنے کا جوا ب اس طرح دیا ’’اگر امریکہ کی کسی ریاست پر کوئی قوم بزور قوت قبضہ کرلے،اس کے اصل باشندوں کو نکال کر اپنے لوگوں کو دنیا کے کونے کونے سے لا کر وہاں آباد کرناشروع کر دے، ا س مصیبت سے نپٹنے کے لئے امریکی عوام کھڑی ہوکر اپنی زمین پر کسی اجنبی ریاست کے قیام میں رکاوٹ بننے لگے،اور اس وقت ہم آپ سے یہ مطالبہ کریں کہ آپ بحیثیت صدر امریکہ اپنے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے امریکیوں کو تشدد اور مزاحمت کی راہ اپنانے سے باز رکھیں ، بلکہ اس اجنبی اور مظلوم قوم کو جس کا اور کوئی ٹھکانہ نہیں امریکہ میں ایک چھوٹی سی ریاست قائم کر لینے دیں اورکہیں کہ آپ کی کوششوں اور اثر و رسوخ سےیہ عظیم کارنامہ انجام پا جائے تو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا کہ صدر امریکہ ہیری ٹرومین نے اپنی حکمت و فراست سے براعظم امریکہ میں امن و امان قائم کر دیا۔ تو بتایئے ایسی صورت میں میرے مطالبہ کا آنجناب پر کیا اثر پڑے گا ؟‘‘

انھوں نے فلسطین اسرائیل اختلاف جس کو امریکی صدر نے خانہ جنگی قرار دیا تھا کے جواب میں لکھا تھا کہ ’’ یہ خانہ جنگی نہیں بلکہ وہاں کے اصل باشندوں اور باہر سے آئے ہوئے غاصب یہودیوں کے مابین جنگ ہے‘‘ اور لکھا کہ ’’ فلسطین کو تقسیم کرنے والی اقوام متحدہ کی قرارداد جسے پاس کرنے میں آپ کی حکومت کا بڑا دخل ہے، انتہائی ظالمانہ ہے جسے تمام عرب بشمول دنیا کے تمام حق پسند ممالک پوری طرح رد کرتے ہیں‘‘اور واضح کردیا کہ ’’ ہم عرب اپنے حقوق کا دفاع اپنے لئے باعث شرف وفخر سمجھتے ہیں ، اس سے دستبردار ہونا تو دور کی بات ہے ہم اپنے سارے وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اپنے علاقے میں یہودیوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیں گے۔ ‘‘

ان مشتر کہ اقتصادی مفادات جن پر زد پڑنے کی امریکی صدر نے دھمکی دی تھی کےبارے میں لکھا کہ ’’ میں آپ پر واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ ہمارے ان سارے مفادات کو قربان کر دینا آسان ہے مگر مجرم اسرائیل کے ساتھ فلسطین کی ایک بالشت زمین کا بھی سودا کرنا گوارا نہیں ۔ خدا گواہ ہے کہ مجھے اپنے ملک میں موجود تیل کے کنووں کو اس حال میں پہنچا دینے میں ذرا بھی تامل نہ ہوگا گویا وہ کبھی تھے ہی نہیں۔ ہمارا تو یہ اعتقاد ہے کہ تیل کی یہ دولت اللہ کی نعمت ہے جسے اس نے اپنے بندوں کے لئے اس آخری دور میں ظاہر فرمایا ہے، اللہ کی قسم میں اس نعمت کو عربوں کے لئے ہرگز ہر گز لعنت نہیں بنے دوں گا‘‘

اس خط میں شاہ عبدالعزیز نے اپنی اس خواہش کا بھی ذکر کیا کہ ’’میں اس کے لئے تیار ہوں کہ بہ نفس نفیس اپنی اولاد کے ساتھ فلسطین میں جہاد کے لئے نکل پڑوں، تا کہ وہاں قیام اسرائیل کی راہ میں رکاوٹ بن جاؤں یا پھر اس راہ میں شہید ہو جاؤں ۔‘‘ اور لکھا کہ ’’ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ارض مقدس میں ہم یہودیوں کی ظالمانہ کاروائیوں کا اپنی جان ومال کے ذریعے جواب دیں، امریکی عیسائی قوم کا دین یہودیوں کے سلسلے میں اس قدر نرم پڑ گیا کہ انہیں ارض مقدس کو نا پاک کرنے کی اجازت دیدے، مگر ہمارے قلوب اب بھی اس ایمان سے معمور ہیں جو اس طرح کی حرکتوں پر روک لگا سکتے ہیں‘‘۔

انھوں نے امریکہ عرب تعلقات پر دو ٹوک انداز میں یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ہمارے صہیونی دشمنوں کی کھلی موافقت اور تائید اور عربوں کے لئے آپ کی جارحانہ پالیسیوں نے ہم کو اس بات پر مجبور کر دیا ہے کہ ہم آپ کے ساتھ اپنے قدیمی تعلقات اور امریکی کمپنیوں سے کئے گئے سارے معاہدوں کو کالعدم قرار دید یں مگر اس سلسلے میں ہم جلد بازی سے کام نہ لیتے ہوئے یہ توقع رکھتے ہیں کہ امریکہ قضیہ فلسطین کے سلسلے میں اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے گا اور واضح حق کے مقابلے واضح باطل کی تائید سے باز آجائے گا۔ ہم عر ب حق کی تائید حق کے ساتھ ہی کرنا جانتے ہیں۔ یہودیوں کی طرح اپنے لئے عالمی تائید وحمایت کا حصول رشوت، اقتصادی دباؤ، اور ووٹوں کی بنیاد پر ہمارا شیوہ نہیں‘‘

اسی طرح سعودی عرب میں موجود امریکیوں کے تعلق سے یہ بھی لکھ دیا کہ ’’ ہم آپ کو یہ اطمئنان و یقین بھی دلانا چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں موجود امریکی باشندے ہمارے مہمان ہیں جب تک وہ ہماری زمین پر ہیں ان کو ادنی نقصان نہیں پہنچ سکتا، اگر تبدیلی حالات کے نتیجے میں کوئی انتہائی قدم اٹھانا پڑا تو وہ یہ ہوگا کہ ان کی مدت اقامت کو مختصر کرتے ہوئے انہیں بحفاظت ان کے جملہ حقوق و مستحقات کے ساتھ باعزت طریقے سے یہاں سے روانہ کر دیا جائے گا‘‘

خط کے اخیر میں انھوں نے امریکی صدر کو یہ یاد دہانی بھی کرادی کہ ’’ وہ پونجی جس پر ہمارے مابین اقتصادی تعلقات کی بنیاد ہے عالمی بازار میں اس کےطلب گار تو بہت ہیں التبہ اس کی پیشکش کرنے والے بہت کم ہیں۔

امید کہ کوئی اللہ والا اس مزاج کے ساتھ آکر ایک بار پھر حق گوئی و بیباکی سے اسرئیل اور اس کے ہم نوائوں کو حقیقی صورت حال سے آگاہ کرے گا اور امت مسلمہ کو اس کا مقام دلائے گا۔

 

متعلقہ خبریں

Back to top button