جنرل نیوز

این ڈی اے سرکار: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

سید سرفراز احمد،بھینسہ تلنگانہ

 

نریندر مودی نے جس تانا شاہ کا تاج پہن کر دس سالہ طویل حکمرانی کی تھی وہ آج کانٹوں بھرا تاج بن چکا ہے اب یہ تاج بھی پہننا نریندرمودی کی سیاسی مجبوری ہے ورنہ بات انا تک بڑھ سکتی ہے جس شخص نے منفی کاموں کے ذریعہ اپنے آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا کیا سماج میں پھوٹ ڈال کر اپنی سیاست کو چمکایا جسکے سبب وہ عروج تک پہنچا تھایقیناً ایسے عروج کا زوال طئے شدہ ہوتا ہے آج ملک دیکھ رہا ہے کہ گھمنڈ کیسے چور ہوتا ہے جس مودی کو کسی کا ہاتھ پکڑ کر چلنا تک گوارہ نہیں تھا آج وہ دو کندھوں کی بنیاد پر سینہ تان کر کھڑے ہیں نریندرمودی کے تانا شاہی دور میں انھوں نے ایک کام بڑی ہی وفاداری سے کیا یعنی آپس میں پھوٹ ڈالو اور حکمرانی کرو خواہ وہ پھوٹ سماج میں ہو یا سیاسی پارٹیوں میں جسطرح سےمہارشٹرا میں نچلی درجہ کی سیاست مودی اور شاہ کھیلے ہیں اس سے تو انکی مربی تنظیم آر ایس ایس بھی ناراض ہیں آر ایس ایس کی میگزین آرگنائزر کہہ رہی ہیں کہ مہاراشٹر میں بی جے پی کو اتنا سب کچھ کرنے کی کیا ضرورت تھی چاچا بھتیجے میں پھوٹ ادھو ٹھاکرے اور شنڈے میں پھوٹ اسی طرح بہار میں دوبار پھوٹ کی سیاست مطلب نریندرمودی نے یہ ثابت کر دکھایا کہ سیاست تب ہی پوری ہوتی ہے جب آپس میں پھوٹ ڈال کر حکمرانی کی جاتی ہو اجیت پوار ہو کہ شنڈے یا نتیش کسی نےبھی سچی وفاداری کا ثبوت پیش نہیں کیا جس سے ایک بات تو پانی کی طرح شفاف ہیکہ مخلوط سرکار میں کوئی بھی کسی کا سچا ہمدرد نہیں ہوتا یہ آگے چل کرنریندر مودی کو بھی سمجھ میں آسکتاہے۔

 

نریندر مودی تیسری بار اس ملک کےوزیراعظم بن چکے ہیں لیکن جتنی خوشی انھیں پہلے دومرتبہ وزیراعظم بننے کے بعد دیکھنے کو ملی تھی اتنی اس بار نہیں دیکھی گئی نریندر مودی اور امیت شاہ کے زرد چہروں کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ اندر ہی اندر کچھ غم کھائے جارہا ہے جسکا نہ تووہ تذکرہ کرسکتے نہ کسی کو سناکر بوجھ ہلکا کرسکتے نریندرمودی کی قسمت بھی دیکھیئے قدرت نے کھڑا کیا تو دو بیساکھیوں پر وہ بھی نتیش کمار اور چندرابونائیڈو جیسے چانکیہ منجھے ہوئے سیاستدانوں کے ساتھ اور ان ہی کو بادشاہ گربھی بنادیا اب یہ ان دونوں کی قسمت کہیں یا نریندرمودی کی بد قسمتی لیکن قدرت کے یہاں انصاف ہوتا ہے کہاوت ہے جیسی کرنی ویسی بھرنی شائد اسی کا خمیازہ آج نریندرمودی بھگت رہے ہیں لیکن دیکھیئے نا حکومت این ڈی کی ہے اور اکثریت وہی پرانے وزارتی چہروں کی ہے شائد نریندر مودی کے ابھی بھی دل ودماغ پر تاناشاہی کا بھوت سوار ہے یا پھر یہ بھول رہے ہیں کہ اس بار این ڈی اے کی سرکار ہے نہ کہ بی جے پی کی خیر یہ بھی بات اگر نریندرمودی کو سمجھ نہیں آرہی ہے تو نتیش اور نائیڈو اسے بھی بہت جلد سمجھا سکتے ہیں جو عادتیں اور طور طریقہ نریندر مودی نے اپنی پچھلی حکمرانی میں اپنایا تھا یعنی صرف کیمرہ، میں اور میرے فیصلے اسکے علاوہ کوئی نہیں اگر یہ رویہ ابھی بھی برقرار رہا تو بیساکھیاں اپنے آپ اپنا راستہ تلاش کرلیں گی جنھیں کسی سہارے کی ضرورت نہیں ہےبس نتیش اور نائیڈو نریندر مودی کو تھوڑا سا وقت دیں کیونکہ عادتیں اور طریقے بدلنے میں وقت درکار ہوتا ہے نریندرمودی کیلئے ہر قدم آگ کے دریا سے گذرنا کے مصداق سے کم نہیں ہوگا آندھرا پردیش میں چندرابابو نائیڈو کی بحیثیت وزیر اعلی حلف برداری تقریب میں وزیراعظم نریندرمودی امیت شاہ اورجے پی نڈا شریک رہے لیکن نتیش کمار کی غیر حاضری نے سوالات کھڑے کردیئے انکی اس غیر حاضری کا جواب نتیش کمار سے بہتر کوئی نہیں دے سکتا۔

 

نریندرمودی نتیش اور نائیڈو کو سمجھا بجھاکر پانچ سال حکمت سازی سے حکومت کربھی لیتے ہوں تو انھیں بہت ساری آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑے گا ویسےنریندر مودی کے آزمائشوں کے دور کا آغاز ہوچکا ہے پورے دس سال تک خاموش رہنے کے بعد آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی زبان کھولی اور نریندر مودی کا نام لیئے بغیر کئی ایک مسائل پر طنزیہ وار کیا اب یہ تو پتہ نہیں کہ بھاگوت کا طنز بطور نصیحت آموز تھا یا عوام کو یہ جتانے کیلئے تھا کہ ہم نریندر مودی کی بھی غلطیوں پر انھیں آئینہ دکھا سکتے ہیں چونکہ جس عوام نے اس بار نریندرمودی کی گیارنٹی کو قبول نہیں کیا بلکہ فیض آباد جیسی سیٹ بھی نہیں دی یوپی میں نصف حصہ سے بھی کم نشستوں تک محدود کردیا شائدعوام کے اسی غصہ کو ٹھنڈا کرنے بھاگوت نے یہ حربہ اپنایا ہو بہر حال جو بھی ہو بھاگوت نے پہلی بار بناء نام لیئے نریندرمودی کو بہت کچھ کہہ کر سمجھا دیا کہا کہ انتخابات میں دو فریقین کے مابین مقابلہ ہوتا ہے اور ترقی اور کام پر بات ہونی چاہیئے لیکن یہ انتخابات جنگ کی طرح نظر آرہے تھے جھوٹ کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا دس سال سے پر امن رہنے والا منی پور تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے لیکن کسی کی توجہ اس پر نہیں ہے یہاں ایک سوال انتہائی اہم ہے جب اتنی ساری ناکامیوں اور ہٹ دھرمیوں سنگھ کے سربراہ گنوارہے ہیں تب یہ سب الیکشن کمیشن کی نظر میں انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کیوں نہیں سمجھا گیا اور نہ کوئی کاروائی کی گئی لیکن کہیں نہ کہیں بھاگوت بی جے پی کی انتخابی حکمت عملی اور اسکے کارناموں سے خاص کر مودی گیارنٹی پر عوام سے ووٹ مانگنے کی ناکام منصوبہ بندی سے پوری طرح سے مطمئن نہیں ہے بھاگوت نے یہ بھی کہا کہ آئندہ اصل کام پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر کام کرتے بھی ہیں تو یہ میں نے کیا ہے یہ اہنکار سے بھی بچنے کی ضرورت ہے بھاگوت کے بعد سنگھ کے تجربہ کار قائد اندریش کمار نے بھی بی جے پی پر وار کرتے ہوئے کہا کہ رام کے بھکتوں میں اہنکار پیدا ہوگیا تھا اسی لیئے رام نے 241 تک محدود کردیاکاش اگر موہن بھاگوت اور سنگھ کے قائدین پچھلے دس سالوں میں بی جے پی سرکار کی جانب سے اقلیتوں پر ہورہے مظالم کے خلاف ایک آواز بھی نکالے ہوتے تو آج انھیں یہ بولنے کی نوبت نہیں آتی لیکن ہم مودی سرکار کوبھاگوت کی نصیحت صرف بھاجپا کے ناقص مظاہرے کے پس منظر میں دیکھیں گے جو ایک ہی نظریہ کے حامی ہیں اور اسی کے تحت سرکار چلاتے ہیں چاہے آپس میں کتنے ہی اختلافات پائے جاتے ہوں ورنہ اگر بھاجپا تین سوبھی پارکرلیتی تو شائد بھاگوت کی یہ نصیحتیں سامنےبھی نہیں آتی۔

 

مہاراشٹر کے وزیر اعلی ایکناتھ شنڈے نے اپنی زبان سے آخر کارصداقت کو پیش ہی کردیا اور کہا کہ دراصل چارسو پار کے نعرے نے عوام میں شک پیدا کردیا تھا کہ اگر بھاجپا چارسو پار کرلے گی تو دستور کو بدل دیا جائے گا جسکا اپوزیشن جماعتوں نے جم کر فائدہ اٹھایا تب ہی بی جے پی اور اسکی اتحادی جماعتوں کو نقصان اٹھانا پڑا شنڈے نے یہاں تک کہہ دیا کہ دس سالوں میں اتنے بڑے فیصلے لیۓ گئے جو آزاد بھارت کی تاریخ میں نہیں ملتے اب یہ منفی نظریہ تھا یا مثبت یہ آنے والے دن طئے کریں گے اگر نریندرمودی کو پانچ سال حکمرانی کرنا ہوتو وہ اتحادی جماعتوں کے تعاون کے بغیر اپنی حکومت نہیں چلاسکتے یہاں سے نریندرمودی کو ہر قدم پر امتحان سے گذرنا ہوگا کیونکہ بی جے پی نے اس انتخابی ریالیوں کے دوران اور اپنے منشور میں یہ واضح کیا تھا کہ وہ برسر اقتدار آتی ہیں تو ملک میں یکساں سول کوڈ کونافذ کیا جائے گامذہب کی بنیاد پر تحفظات ختم کردیئے جائیں گے ون نیشن ون الیکشن کے نفاذ کامنصوبہ بنایا گیا تھا جیسا کہ پہلے ہی سابق صدر جمہوریہ رام ناتھ کووند کو ایک یاداشت حوالے کردی گئی تھی اس وفد میں نتیش کمار بھی شامل تھے امیت شاہ نے خود کہا تھا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد اس پر عمل آواری میں پیشرفت کردی جائے گی سب سے اہم مسلئہ این آر سی کا تھا اس بار بی جے پی نے اسے اپنے منشور میں جگہ نہیں دی لیکن 2019 میں اسکو اپنے منشور میں شامل کیا تھا اب سوال یہ ہیکہ کیا ان متنازعہ قوانین کو ٹھنڈے بستے میں ڈال دیا جائے گا؟کیا نتیش اور نائیڈو اس پر رضامندی ظاہر کریں گے؟ اگر مسلم تحفظات کی بات کی جائے تو تلگو دیشم اور بی جے پی کی رائے میں کھلا تضاد ہے نائیڈو کے بیٹے نارا لوکیش نے قومی میڈیا سے ہوئی بات چیت میں واضح کردیا کہ مسلمانوں کو تحفظات مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ انکا سماجی حق ہے اسی طرح ملک میں یکساں سول کوڈ کو نافذ کرنے کا منصوبہ رکھنے والی بھاجپا کو نتیش اور نائیڈو کو اپنی حمایت میں لینا آسان نہیں ہوگا جبکہ بھاجپا نے اپنی ڈبل انجن والی سرکار اتراکھنڈ ریاست میں اس متنازعہ قانون کو نافذ کرچکی ہے ایک ملک ایک الیکشن پر نتیش کمار نے ایک وقت میں حامی بھری تھی لیکن اب انکا موقف کیا ہوگا یہ آنے والا وقت طئے کرے گا این آر سی پر اس بار بی جے پی کیا گل کھلائے گی اور اس پر نتیش اور نائیڈو کا کیا موقف ہوگا یہ بھی دیکھنا دلچسپ ہوگا بہر کیف ہم بقول شاعر علامہ اقبال کے شعری پس منظر میں این ڈی اے سرکار کے متعلق یہی کہہ سکتے ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں 

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

متعلقہ خبریں

Back to top button