مضامین

حاجی محمد اسماعیل ؒ

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

17؍ مئی 2023ء بروز بدھ فجر کی معمولات سے فراغت کے بعد معمولا بستر پر لیٹا ہی تھا کہ فون کی گھنٹی بج اٹھی حاجی محمود صاحب کا فون تھا، بتا رہے تھے کہ بھیا کا آج صبح چار بجے انتقال ہو گیا، دل ودماغ پر بجلی گری، تسلی، تعزیت اور دعاء مغفرت کے الفاظ آٓنسوؤں میں بہہ گئے، گلو گیر آواز میں الفاظ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا، چنانچہ میں نے موبائل کاٹ دیا، فکر جنازے میں شرکت کی فکر دامن گیر ہوئی، مولانا قمر عالم ندوی نے میرا اور اپنا ٹکٹ انڈی گو سے بک کرایا، اتفاق سے دو ہی سیٹ خالی تھی ، جنازہ میں شرکت مقدر تھی، اس لیے مل گئی، اور اس طرح ہم لوگ دس بجے کے آس پاس کولکاتہ پہونچ گیے، جب میت کی تجہیز وتکفین کا مرحلہ جاری تھا، حاجی صاحب مرحوم کے گھر پر گلشن بلڈنگ رین اسٹریٹ ہم لوگوں کی حاضری ہو گئی، ڈھائی بجے دن میں جنازہ کی نماز گوبرا قبرستان 1؍ نمبر میں ادا کی گئی ، میں نے حاجی محمود صاحب کو کہا کہ وہ جنازہ کی نماز پڑھائیں، حق تو ان کے بڑے صاحب زادہ نوشاد صاحب کا بنتا تھا، وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے، حالاں کہ وہ انتہائی متشرع آدمی ہیں، لیکن انہیں ڈھارس کھو دینے کا ڈر تھا، جنازہ میں کم وبیش تین ہزار کا مجمع تھا، جن لوگوں کو میں دیکھ سکا، ان میں مولانا آفتاب عالم ندوی بانی وناظم جامعہ ام سلمہ دھنباد، مولانا مفتی عبد الحئی صاحب ناظم مدرسہ اسلامیہ عربیہ برن پور، قاری شفیق احمد صاحب امام نا خدا مسجد کولکاتہ، مولانا عصمت اللہ رحمانی امام خیرو لین مسجد کولکاتہ کے نام خاص طور پر قابل ذکر ہیں، مشہور صحافی مولانا نور اللہ جاوید، میرے شاگرد حافظ شمشاد رحمانی بھی جنازہ کی صف میں نظر آئے، بعد میں ملاقات بھی ہوئی، حاجی صاحب نے پس ماندگان میں اہلیہ، دو بیٹے، ایک بیٹی دو بھائی اور ناتی، نتنی، پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا گھر چھوڑا ہے، 22؍ مئی کو علاقہ کے لوگوں کی طرف سے خراج عقیدت کا پروگرام ان کے گاؤں چھپرا خرد میں رکھا گیا تھا، احقر کی اس میں بھی شرکت ہوئی، غیر مسلموں نے ان کی شخصیات اور خدمات پر بھرپورروشنی ڈالی۔

 

 

 

حاجی محمد اسماعیل بن حاجی رمضان علی بن حسین بخش کی ولادت 30؍ اگست 1946ء کو چھپرہ خرد ،ڈاک خانہ خواجہ چاند چھپرہ موجودہ ضلع ویشالی میں ہوئی، حاجی صاحب کی نانی ہال قریب کے گاؤں ویر بھان جلال پور تھی اور شادی چاند پور فتح ضلع ویشالی کے محمد حدیث صاحب کی دختر نیک اختر سے تھی، والد حاجی رمضان علیؒ کی زردہ کمپنی تھی اور وہ کمپنی صاحب سے ہی مشہور تھے،کولکاتہ میں پھیلا ہوا کاروبار تھا، اس لئے ابتدائی تعلیم وہیں ہوئی، کچھ دن مدرسہ عالیہ کولکاتہ اور علی گڈھ میںبھی تعلیم کے سلسلے میں گذارا، بالآخر محمد جان ہائی اسکول کولکاتہ سے ہائی اسکول کا امتحان پاس کیا، کاروبار کا تقاضہ تھا کہ وہ والد کا ہاتھ بٹائیں، بڑے ہونے کی وجہ سے یہ ذمہ داری ان پر آگئی، اور انہوں نے تعلیم ترک کرکے کاروبار سنبھالنے کا فیصلہ کیا، اور اپنی ذہانت ، معاملہ فہمی ، خوش خلقی سے ممتاز ترین تاجروں میں آپ کا شمار ہونے لگا، انہوں نے اپنے چھوٹے بھائیوں کی اور پھر خاندان کے دوسرے لوگوں کی کامیاب تربیت کی، وہ اردو انتہائی خوش خط لکھتے تھے، حساب وکتاب میں ان کا ذہن خوب چلتا تھا، کاروباری اعتبار سے کہاں سرمایہ کاری کرنی چاہیے، کس زمین پر رقم لگانی چاہیے اور کس زمین پر توجہ نہیں دینی چاہیے، انہیں خوب آتا تھا، مختلف کاروبار کے ساتھ ایک خاندانی پیشہ زردہ سازی کا ہے، اور زردہ کی خوشبو صارفین کو متوجہ کرتی ہے، اس لیے کس طرح اچھی خوشبو پیدا کی جا سکتی ہے، کن کن اجزاء کے استعمال سے نئی خوشبو پیدا ہوگی اس میں وہ کسی فارماسسٹ سے کم نہیں تھے، مہمان نوازی میں ممتاز تھے اور قسم قسم کی چیزیں دستر خوان پر سجا دینے کا ہنر انہیں خوب آتا تھا، ہندوستان کا شاید ہی کوئی بڑا عالم بچ گیا ہو، جس کی انہوں نے دعوت نہیں کی ہو۔

 

 

 

اللہ تعالیٰ نے انہیں نفع رساں بنایا تھا، مدارس ، مساجد، یتیم خانے، غربائ، مساکین سب پر ان کی نظر کرم رہتی ، اداروں کو موٹی موٹی رقم دیتے، اجتماعی شادی میں لاکھوں خرچ کرتے اور ہندومسلم سب کو وہ یکساں سمجھتے، ان کی شادی کے بعد رخصتی کا خاص اہتمام کرتے، زیورات اور ضرورت کے سامان دیتے، ان تمام کاموں میں ان کے گھر کی خواتین اور ان کے بھائی حاجی محمود عالم، حاجی محمد اسرائیل اور ان کے صاحب زادگان ان کا ہاتھ بٹاتے، انہیں معلوم تھا کہ کس سے کس طرح کام لیا جا سکتا ہے، اس لیے بڑے بڑے پروگرام کا انعقاد کرتے اور پریشان ہونے کی انہیں ضرورت نہیں ہوتی۔

 

 

 

اصلاح معاشرہ اور مسلکی خلیج کو دور کرنے کے لیے بھی وہ بہت فکر مند رہتے ، انہوں نے اس کے لیے اپنے والد کی قائم کردہ تنظیم انجمن اصلاح المسلمین کو پھر سے متحرک اور فعال بنایا تھا، شراب، جوا، جہیز سے پاک سماج کی تعمیر کے لیے انہوں نے بڑے چھوٹے کئی پروگرام کرائے، ایک امن کمیٹی بھی انہوں نے بنا رکھی تھی، اس کے ارکان غیر مسلم زیادہ تھے، صدر وہ خود تھے نائب صدر غیر مسلم کو بنایا تھا، جب بھی کوئی معاملہ سامنے آتا وہ کولکاتہ رہ کر وہیں سے اس کمیٹی کو احکام جاری کرتے اور لوگ ماحول کو پر امن بنانے میں لگ جاتے، اس کو مزید موثر بنانے کے لیے انہوں نے ایک بڑا اجتماع مارچ 2018ء میں پورینہ میں کیا تھا، جس میں ہندوستان کے بڑے علماء ، مولانا ارشد مدنی، مولانا اسرار الحق قاسمی کے ساتھ حقیر محمد ثناء الہدیٰ قاسمی بھی شریک ہوا تھا۔

امارت شرعیہ اور اس کے ذیلی اداروں سے انہیں بڑی محبت تھی، اور مختلف موقعوں سے وہ اس کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے فکر مند رہتے، کولکاتہ کوئی وفد جاتا تو اس کی دعوت کا خاص اہتمام کرتے۔

 

 

 

ان کی ذاتی زندگی مذہبی اعتبار سے قابل رشک تھی، جماعت خانہ ان کے گھر کی منزل پر تو زمانہ سے تھا، ابھی انہوں نے نیچے کے حصے میں گراؤنڈ فلور پرخوبصورت دیدہ زیب، نماز سے متعلق ضروریات سے مزین اور اے سی وغیرہ سے آراستہ شاندار جماعت خانہ بنوایا تھا، جس میں امام متعین کے ذریعہ پنج وقتہ نماز اور رمضان میں تراویح کی جماعت کا اہتمام بھی ہوتا رہا ہے، گاؤں میں بچوں کی تعلیم کے لیے مدرسہ حسینیہ قائم کیا جو اچھی خدمت انجام دے رہا ہے۔ انہوں نے اس مدرسہ کی شاندار اور دیدۂ زیب عمارت بنوائی، یوں تو اس خاندان کا تعلق پورے ہندوستان کے علماء سے رہا ہے، لیکن مربی کی حیثیت سے مولانا محمد تسلیم رحمانی نائب ناظم جامعہ رحمانی اور مولانا سید محمد شمس الحق صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر سے بڑا مضبوط اور مستحکم رہا ، اس کی وجہ سے دولت کی ریل پیل کے باوجود یہ خاندان کبر وغرور سے دور اور خاندان کے تمام افراد کے چہرے پر داڑھی اور مذہب کی پابندی کے اثرات نمایاں ہیں، ان دونوں بزرگوں کے بعد یہ خاندان مذہبی معاملات میں مجھ سے رجوع کرتا ہے، میں نے اس خاندان کے کئی لڑکے لڑکیوں کا نکاح مسجد میں پڑھایا ہے ان لوگوں نے پانی اور ایک گلاس شربت بھی لڑکی والوں کی طرف سے قبول نہیں کیا،البتہ ولیمہ میں بڑا اہتمام ہوتا ہے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں۔

 

 

 

حاجی صاحب کے بھائی حاجی محمود عالم صاحب کی بہت ساری کتابیں شائع ہو چکی ہیں، اس میں حاجی محمد اسماعیل مرحوم کی حوصلہ افزائی کا بڑا دخل رہاہے ، ایسی با فیض اور نفع رساں شخصیت کا ہم سے جدا ہوجانا انتہائی غم والم کا سبب ہے، اللہ رب العزت مرحوم کی مغفرت فرمائے اور پورے خاندان کو صبر کی دولت سے مالا مال کر دے ۔ آمین یا رب ال

عالمین

متعلقہ خبریں

Back to top button