مضامین

‌‌ دوستی اور ملاقات امیری اور غریبی

تحریر: جاوید اختر بھارتی
جب تک کہ آپ زر لٹائیں گے آپ کے زیر دست ہے دنیا، کھینچ کے ہاتھ تجربہ کرلو کتنی مطلب پرست ہے دنیا
یہ دنیا بڑی عجیب ہے ہنساتی بھی ہے رلاتی ہے کبھی خوشی کا سامنا تو کبھی غم کے پہاڑ ، کبھی مسرور تو کبھی مجبور کسی کے پاس دولت تو کسی کے پاس غربت، کوئی سرمایہ دار تو کوئی مزدور، کوئی مخمل کی سیز پر سوتا ہے تو کوئی اخبار بچھاکر سوتا ہے کوئی گاڑی سے چلتا ہے تو کوئی پیدل، کسی کا جگہ جگہ استقبال ہوتاہے تو کسی کا کوئی حال بھی نہیں پوچھتا، کسی کو چالاک کہا جاتا ہے تو کسی کو بے وقوف اور جب جھوٹی تسلی دینا ہوگا تو کہیں گے کہ پیسہ کیا چیز ہے یہ تو ہاتھوں کی میل ہے آج ہمارے ہاتھوں میں ہے تو کل کسی اور کے ہاتھوں میں  لیکن یہ باتیں دل سے نہیں بلکہ زبان کی نوک سے کہی جاتی ہیں اگر حقیقت میں دل سے کہی جاتیں تو کسی غریب کا مذاق نہیں اڑایا جاتا، بہکی بہکی باتیں نہیں کہی جاتیں، بڑی بڑی باتیں نہیں کہی جاتیں اور غریب ہونے کی صورت میں ٹھوس مشورے کو ردی کی ٹوکری میں نہیں پھینکا جاتا اور غرور کے ساتھ یہ نہیں کہا جاتا کہ ہمارے پاس دولت جاؤ تم ہمارا کیا بگاڑ لوگے، ہم ایک چٹکی میں تمہاری دھجیاں اڑا دیں گے،، کبھی کبھی تو اتنا غرور کے نشے میں چور ہوتا ہے کہ تقدیر و تدبیر کو بھی للکار نے لگتا ہے کہ آج کے دور میں پیسہ ہوا میں اڑرہا ہے پکڑنے کا ہنر چاہئیے ، درختوں کے پتوں کی طرح جھڑ رہا ہے ہاتھوں میں تھامنے کا ہنر چاہئیے کبھی ہوٹل پر کھانا کھایا تو کام کرنے والوں کی حالت و غربت کا مذاق اڑایا، کبھی کسی محفل میں پہنچا تو دولت کے نشے میں اترایا، کبھی دو پیسہ کسی کی ہتھیلی پر رکھ دیا تو اس کی خودداری کو چھین لیا یعنی اس بات کا احساس ہی نہیں رہتا کہ اللہ دینے پر قادر ہے تو چمڑی ادھیڑ نے پر بھی قادر ہے وہی رزق دیتا ہے اسی نے کسی کو امیر تو کسی کو غریب بنایا ہے یہ اس کی حکمت ہے، یہ اس کا راز ہے-زید و بکر دوست ہیں زید امیر ہے اور بکر غریب ہے زید خریداری کے لئے بکر کو ساتھ میں لے کر جاتا ہے اونچے اونچے مہنگے مہنگے سامان خریدتا ہے ،، بکر کہتا ہے کہ مجھے بھی خریداری کرنی ہے تو زید بولتا ہے کہ اچھا تو،، تو ابھی اسی بازار میں جائے گا جہاں سستے سامان ملتے ہیں اچھا چل ہر آدمی اپنی اوقات کے مطابق ہی کام کرتا ہے میری قسمت بہت اچھی ہے کہ میں دولت مند ہوں اور تجھے تو اپنی قسمت پر افسوس ہی ہوتا ہوگا مگر تو کربھی کیا سکتا ہے بہر حال دونوں سامان لے کر اپنے اپنے گھر آئے-
بکر کو زید کی بات چبھنے لگی وہ سوچتا رہتا کہ دوست ہوکر بھی زید میری غربت کا مذاق اڑایا کرتا ہے اس کے پاس پیسہ ہے اسی لئے وہ مجھے حقیر نگاہوں سے دیکھتا ہے ایک دن زید سے بکر کہتا ہے کہ تو کتنا بڑا آدمی ہے لیکن پھر بھی تو میرا دوست ہے تو قیمتی لباسوں میں ملبوس ہوتا ہے، مہنگے مہنگے سامان خریدتا ہے زید مارے خوشی کے پھولے نہیں سما رہا ہے کہ بکر میرے امیر پن کی تعریف کررہا ہے اب بکر آگے کہتا ہے کہ یار زید یہ سورج میں بھی دیکھتا ہوں اور تو بھی دیکھتا ہے ہوسکے تو ایک ایسا سورج تو اپنے لئے بنوا جو مجھے نظر آتا ہے اور میں جس سے فائدہ اٹھاتا ہوں اس سورج سے اور بہترین قیمتی سورج تیرے لئے ہونا چاہئے کیونکہ تو دولت مند ہے امیر ہے اور میں غریب ہوں، یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ جو میرے لئے رات ہے وہی تیرے لئے بھی ہے جبکہ تیری دوسری طرح کی رات ہونی چاہئے کیونکہ تو امیر ہے اور بڑا آدمی ہے، یہ چاند اور ستارے تو مجھے بھی نظر آتے ہیں اور میرے آنگن میں روشنی پھیلاتے جبکہ میں غریب ہوں تو یہی چاند ستارے تیرے آنگن کو بھی روشن کرتے ہیں تو اس میں ضرور تیری توہین ہوتی ہوگی کیونکہ تو امیر ہے تو بڑا آدمی ہے اب زید کہتا ہے کہ اس کا مطلب کہ تو اپنے آپ کو میرے برابر سمجھتا ہے ارے کم از کم اتنا تو سوچ کہ میرے پاس کار ہے، بنگلہ ہے، کارخانے ہیں، گاڑی ہے اور ڈھیر ساری دولت ہے اور تیرے پاس یہ سب کچھ نہیں ہے غرضیکہ زید و بکر میں دوری ہو گئی دوستی کے درمیان امیری غریبی کی دیوار حائل ہوگئی زید کہتا ہے کہ میرے پاس پیسہ ہے مجھے بہت دوست ملیں گے اور تجھے کوئی نہیں پوچھے گا-
زیادہ دن ہوگئے زید و بکر میں ملاقات ہوئے بکر اکثر و بیشتر زید کے بارے میں معلومات حاصل کرتا رہا مگر زید نے کبھی کسی سے بھی بکر کا حال نہیں پوچھا،، زید کا پڑوسی ایک دن بکر کے دروازے کے سامنے سے گزر رہا تھا کہ بکر نے زید کا حال دریافت کیا تو پڑوسی نے کہا کہ زید کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے وہ علاج کے لئے اسپتال میں بھرتی ہے اسے خون کی ضرورت ہے وہ حالت بیہوشی میں ہے،، بکر گھبرا گیا بھاگتے ہوئے اسپتال پہنچتا ہے اور ڈاکٹر سے کہتا ہے کہ میرا خون نکالیں اور زید کی نسوں میں چڑھادیں ڈاکٹر بکر کی بات مان لی زید کی نسوں میں بکر کا خون چڑھنے لگا، امیر کی رگوں میں غریب کا خون چڑھنے لگا نتیجہ یہ نکلا کہ زید کو ہوش آگیا آنکھ کھلی تو بکر کو دیکھتے ہی حیرت میں ڈوب گیا جب اسپتال سے چھٹی ہوئی تو زید بکر کے گھر پہنچتا ہے دروازہ کھلتے ہی زید گھر کے اندر داخل ہوتا ہے دونوں ایک دوسرے کو حیرت انگیز نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کہ زید کا ہاتھ پکڑ کر بکر کہتا ہے کہ اے میرے دوست تو اچھا ہوگیا اور صحتیاب ہوگیا مجھے بہت کافی خوشی ہے بس تھوڑا تشویش اس بات کی ہے کہ ایک میرے امیر دوست کی رگوں میں ایک غریب کا خون داخل ہوگیا کہیں اب وہ بھی غریب نہ ہوجائے تو بیش قیمتی لباسوں میں ملبوس کیسے ہوگا اور مہنگے مہنگے سامانوں کی خریداری کیسے کرے گا اسی لئے تجھ سے دور رہکر میں نے تیرے لئے تحفے کا انتظام کیا ہے اجازت ہو تو تیری خدمت میں حاضر کروں امید کرتاہوں کہ تو ضرور قبول کرے گا اتنا کہہ کر بکر اٹھتا ہے اور ایک پیٹی لے کر آتا ہے زید کے پاس رکھتا ہے پھر اس میں سے سامانوں کو نکالتا ہے اور یکے بعد دیگرے سامان دینا شروع کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ مخمل کا کپڑا ہے اسے کفن کے لئے استعمال کرنا، یہ چشمہ ہے اپنے گھر والوں سے کہنا کہ قبر میں اتا رنے کے بعد یہ چشمہ پہنا دیں گے، یہ بیگ ہے اس میں پیسہ بھر کر قبر میں رکھ دیں گے، یہ ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے اسے قبر میں لگا دیں گے، یہ کچھ ٹائلس ہے اسے قبر میں لگوا دیں گے، یہ جھومر اور لائٹ ہے اسے بھی قبر میں روشنی کے لئے لگوا دیں گے تاکہ تیری قبر غریبوں کی قبر سے الگ تھلگ ہو،، اس لئے کہ غریبوں کو سوتی کپڑے کا کفن دیا جاتا ہے، قبر میں اتار کر قبر کو مٹی سے بھردیا جاتا ہے اب کسی امیر اور دولت مند کی قبر بھی ویسی ہی رہے یہ اچھا نہیں معلوم ہوتا میں نے اسی لئے یہ انتظام کیا ہے کیونکہ تو بڑا آدمی ہے تیری ہر جگہ دعوت رہا کرتی تھی، اشتہارات پر مہمانان خصوصی میں تیرا نام چھپا کرتا تھا بڑے بڑے امراء اور رؤسا تجھ سے ملنے آیا کرتے تھے تو دنیا کی چکا چوند روشنی میں پلا بڑھا تیرے خواب اونچے، تیری سوچ اونچی، تیرا معیار اونچا میں تو ٹھہرا ایک غریب گھرانے کا انسان لیکن تجھ سے دوستی ہوئی کبھی تجھے میں کوئی تحفہ نہیں دے سکا اب تک کی دوستی و تعلقات اور ملاقات کا یہ پہلا موقع ہے کہ میں تجھے تحفے دے رہا ہوں اور یہ تو مجھے بھی یقین ہے کہ آج تک کسی دوست نے کسی دوست کو ایسا تحفہ نہیں دیا ہوگا جیسا تحفہ آج میں تجھے دے رہا ہوں بس یہی تمنا ہے کہ اے دوست تو میرے اس تحفے کو قبول کرلے،، اسے ہرگز ہرگز ٹھکرانا نہیں-
 اتنا سننا تھا کہ آنکھوں سے دولت کا پردہ ہٹا چیخ ماری کہ اے دوست بس،، بس بہت ہوچکا میں تھوڑا بہک گیا تھا اب میرے تیرے درمیان امیری اور غریبی کی کوئی دیوار نہیں ہوگی تو میرا دوست ہے اور تو میرا بھائی ہے اب تو میری رگوں میں تیرا خون بھی شامل ہوگیا آ میں تجھے گلے لگانا چاہتا ہوں اور آج سے ہم دونوں ایک گھر میں سگے بھائی کی طرح رہیں گے اور آج میری اس خواہش کو نہ ٹھکرانا ورنہ تو آج مجھے ٹھکرا دے گا تو میں سمجھوں گا کہ تو نہیں،، بلکہ میں دنیا میں سب سے بڑا غریب ہوں، تنہا ہوں چنانچہ زید و بکر دونوں کھڑے ہوئے ایک دوسرے سے گرم جوشی کے ساتھ گلے ملے اور پھر ساتھ ساتھ رہنے لگے-
          +++++++++++++++++++++++++
جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین) محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

متعلقہ خبریں

Back to top button