مضامین

نیا سال، نئے حوصلے،نئی امیدیں _ مثبت حکمت عملی ا ورٹھوس لائحہ عمل وقت کی اہم ضرورت

ڈاکٹرمحمدقطب الدین(ماہر نفسیات،امریکہ)

سال ِ نو کا آغاز ہے ہر طرف نئے سال کو لے کر نت نئے پروگرام ترتیب دیئے جارہے ہیں۔اسلامی سال کا آغاز تو ماہ محرم الحرام سے ہوتاہے۔دنیا کی دیگر قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے لیے سالِ نو 2023کئی معنی میں مختلف ہے۔اس وقت عالم اسلام اور پوری دنیا کے مسلمان بے شمار اندیشوں،خدشات،مسائل کے سایہ میں زندگی بسر کررہے ہیں۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ سب کچھ ختم ہوجائے گا، دنیا کی قومیں مسلمانوں کو تخت وتاراج کردیں گی۔عالم اسلام پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں۔کئی مسلم ممالک باہم دست گریبان ہیں۔ شام،فلسطین،مصر،لیبان،سوڈا ن،الجزائر کے لوگ امن،چین وسکون کے لیے ترس رہے ہیں۔ خاص کر بھارت کے مسلمان ادھر کچھ چندسالوں سے بڑے تشویش میں مبتلاہیں۔انہیں کئی طریقوں سے ہراساں وپریشاں کیاجارہاہے۔ کبھی ان کی ذات پر،مذہبی شناخت پر،عبادتوں اور عبادت گاہوں پر،شریعت میں مداخلت،موب لیچنگ اور مذہبی منافرت،سماجی بائیکات کے نام پر آئے دن انہتا پسندوں کی جانب سے بیانات،خبریں،کتابیں اور شوشل میڈیاپر کروڑوں کی تعداد میں موجود مسلم مخالفت مواد نے مسلمانوں کو بے چین کردیاہے۔گویا و دبے الفاظ میں یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ ”مسلمانوں پربراوقت آگیا ہے“ یا مسلمانوں کا براوقت شروع ہوگیا ہے۔

 

بظاہرابر ا ٓلود دیکھ کر کوئی بھی بینا شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ بادل برسنے والے ہیں اور زبردست مینہ برسنے والاہے۔خوف واندیشے یہ انسانی فطرت ہے….. لیکن کیا ایک مسلمان،ایک مؤمن اس طرح کے اندیشوں اور خطرات کو دیکھ کرگھبراسکتاہے اور مایوس و ناامید ہوکر بیٹھ سکتاہے۔ہرگز نہیں….. ہر گز نہیں…

 

ہرسال اپنے ساتھ انئی امیدیں،نئی آرزوئیں،نئی امنگیں ساتھ لاتاہے۔ان میں کئی اندیشے بھی ہوسکتے ہیں،کئی چیالنجیز بھی ہوسکتے ہیں اور کئی ترقی و کامیابی کی راہیں بھی ہوسکتی ہیں۔زمانہ اپنی تیز رفتاری سے چلتے رہتا ہے،کسی کی ہمت نہیں کہ و ہ زمانہ کی رفتار کو روک سکے۔زمانہ اس کی عزت کرنے والوں کی حوصلہ آفزائی کرتاہے اور ناقدری و ضائع کرنے والوں کو اپنے تیز رفتار پہیوں کے نیچے کچل بھی دیتا ہے وہ کسی کی مروت نہیں کرتا ہے۔ ؎

جس نے وقت کی قدر کی وہ راز حیات پاگیا

جس نے ناقدری کی وہ اپنی زندگی برباد کیا۔

قرآن کریم میں سو رۃالعصر میں ا للہ پاک نے زمانے کی قسم کھائی او رکہاہے کہ”والعصر: قسم ہے زمانے کی (جس میں نفع و نقصان واقع ہوتاہے)”کہ انسان عمر کو ضائع کرنے کی وجہ سے) بڑے گھاٹے میں ہے۔ بڑے گھاٹے میں ہے۔ مگر جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اچھے کام کیے(کہ یہ کمال ہے)اور ایک دوسرے کو حق کی تاکید کی اور ایک دوسرے کو نیکی کرنے کی تلقین ونصیحت و تنبہ کرتے ہیں۔

اللہ رب العزت نے فرما کہ ”وقت کو برا مت کہو“ کیونکہ میں ہی زمانہ ہوں ”انا الدھر“۔ اس لیے زمانہ کو برابھلا کہنے سے بہتر ہے کہ ہم نئے سال میں نئی حکمت عملی اور مستقبل کا لائحہ عمل تیارکریں،شکوہ شکایت کے بغیرہم اپنے آپ کو مثبت انداز حالات سے نبرد آزما ہونے کی کوشش کریں۔

سورہ عصرہمیں بتاتی ہے کہ حالات چاہئے کیسے بھی ہواس کا کیسے ڈٹ کرمقابلہ کرسکتے ہیں۔ حالات کا رونا روتے ہوئے ہم اپنی صالح کوششیں نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ہم ملک وملت کی تعمیر میں بڑھ چڑھ کرحصہ لے سکتے ہیں۔جن کی نظرمنزل مقصودپر ہوتی ہے وہ حالات کا رونا نہیں روتے وہ وقت سے آنکھ سے آنکھ ملا کر حالات کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اگر ہماری سوچ وسیع بلند ہوگی توکامیابیاں بھی اعلی وارفع ہوں گی۔

اگر ہم بدل جائیں یاروں تو حالات بدل سکتے ہیں۔

حالات کے بدلنے میں ہم مثبت سوچ،بامقصد زندگی اور متاثرکن،انقلابی کرداراداکرسکتے ہیں۔ یہ نہیں کہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر منتظرفردا ہوں اورمنفی سوچ کے ساتھ یہ سوچنے لگ جائیں کہ قیامت آنے والی ہے،زندگی میں اچھے برے حالات یہ سب تقدیر کی باتیں ہیں،ہم کیوں اس کو بدلنے کے لیے اپنی توانائی صرف کریں۔

دنیا کے چیالیجیزہمارے لیے بہترین مواقع و امکانات ہوسکتے ہیں۔دنیاسے لڑنے اور اس کا مقابلے کرنے کے لیے ہمیں مثبت سوچ و نظریہ کی ضرورت ہے ہم غیر ضروری مسائل میں اپنے آپ کو نہ الجھائیں بلکہ کام سے کام کریں۔فضول باتوں اورکاموں میں اپنی طاقت صرف نہ کریں۔مشکل سے مشکل حالات میں ہم کس طرح دوسروں کے لیے مفید اور فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں اس پر توجہ دیں،بلا تفریق مذہب و ملت انسانیت کی خدمت کریں بلکہ اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنالیں۔اپنی سوچ،فکر و نظرکووسعت دیں۔اپنے آپ میں لچک پیداکریں،لوگوں کو آسانی پیدا کریں۔

سورہ رعدکی آیت میں…….جو لوگوں کوفائدہ دے وہ زمین میں ٹھرجاتاہے۔ یعنی کوئی بھی چیز یا کام انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے کیاجائے تو اللہ تعالی اس کی بقا کی ضمانت لیتا ہے۔بخاری شریف کی ایک حدیث ہے کہ ”ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول،اللہ کے ہاں محبوب ترین کون ہے؟ اور کون سے اعمال اللہ کو زیادہ پسند ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کے نزدیک محبوب ترین وہ ہے،جو لوگوں کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہے۔ مشکل دور کرتا ہے،قرض ادا کردیتا ہے، بھوک مٹاتا ہے،اورکسی شخص کی ضرورت پوری کرنے کے لیے اس کے ساتھ چلنا ،مجھے مسجد نبوی میں ایک ماہ اعتکاف سے بھی زیادہ پسند ہے۔“

زمانہ دوست بھی ہے دشمن بھی ہے۔دوست اس کے لیے ہے جو دھارے کو موڑ سکتاہے،لوگوں کو متبادل دے سکتاہے۔جو زمانہ سے ڈرجاتاہے زمانہ اس کو روندتاہوا آگے نکل جاتاہے۔

ہم بھارت میں دیکھتے ہیں کہ لاکھوں کی تعدادمیں ہمارے نوجوان،بڑے بوڑھے بے دریغ وقت ضائع کرتے ہوئے نظر آئیں گے ان کے سامنے زندگی کا کوئی مقصدنہیں ہے۔غیر ضروری باتوں اور کاموں میں گھنٹوں بحث و مباحثہ،ایران کی تران،گلی سے لے کر دنیاکے ہرموضوع پراپنے حتمی رائے دیتے ہوئے نظر آئیں گے۔راتوں کو سڑکوں، چوراہوں، نکڑوں، چائے خانوں میں بیٹھے ہوئے ہمیں نظرآئیں گے اگر ان سے بات کریں تو ایسا لگتا ہے کہ ان کے سامنے زندگی گزارنے کاکوئی مقصد نہیں ہے۔ بس وہ تھوڑے بہت،چھوٹے چھوٹے کام کرکے خوش ہے۔انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں کہ زمانہ کتنی تیزی سے بدل رہا ہے۔ یہ آرٹیفیشل انٹلی جنٹ کا،روبوڈ کا ہے۔ مشینوں کا ہے۔اگر یہ نوجوان اپنے آپ کو زمانہ کے بدلتے ہوئے حالات کے موافق اپنے آپ کونہیں ڈھالتے ہیں یا نہیں بدلتے ہیں تووہ دنیا کی ترقی یافتہ قوموں سے بہت دوپیچھے رہ جائیں گے اور جب انہیں ہوش آئے گا اس وقت بہت دیرہوچکی ہوگی۔ شوشل میڈیا،لایعنی کھیل،تماشوں میں اپنے اوقات کوبرباد کررہے ہیں۔

نئے سال کے آغاز میں ہمیں اس بات کا عہد کرناہوگا کہ ہم منظم طورپر قوم وملت فلاح و بہبود کے لیے تعلیمی،سماجی، معاشی ترقی و استحکام کے لیے کام کریں گے۔نوجوانوں کوروزگار سے جوڑیں گے۔آج ہر ایک پاس موبائل ہیں،کمپیوٹرہیں،لیپ ٹاپ ہے۔اس پرروزگار کے کئی مواقع اور طریقے موجود ہیں،دنیامٹھی میں ہوگئی ہے۔ہمارے نوجوانوں کو تعلیم کے میدان میں،سماجی میدان میں بے لوث اورانتھک محنت کی ضرورت ہے۔ ہمارے وہ نوجوان اور تنظیمیں جو مسلمانوں کے فلاح و بہبود کے لیے کوشاں ہیں وہ گاؤں، محلے، شہر کے سطح پر باصلاحیت لوگوں کو جمع کرکے ملک و ملت کے مفاد میں جو بہترہوسکتاہے اس پر ٹھوس لائحہ عمل تیارکریں جو بھی کا م کریں بڑے پلاننگ و تسلسل کے ساتھ کریں۔آپ جس میدان میں بھی کام کررہے ہوں اس میدان میں آپ سے زیادہ قابل کوئی نہیں ہونا چاہئیے۔جہاں بھی کام کریں پوری ایمانداری و دیانت داری سے کریں۔ آپ کی موجودگی کا احساس دلائیں کہ میرے بغیر یہ کام ممکن ہی نہیں۔

موجود ہ حالات میں بھارتی مسلمانوں کوبڑے ہمت و حوصلے کے ساتھ زندگی گزارنا ہے،بغیر کسی خوف ودہشت کے۔میں ہندوستانی نوجوانوں، لڑکیوں،عورتوں سے التجا کرتا ہوں کہ وہ وقت کی قدر کریں،منظم رہیں،ڈسیلپین کے ساتھ رہیں،ہدف اور منزل پر اپنی پوری توجہ مرکوز کریں جو بھی کام کریں اس کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں،مایوس نہ ہوکم ہمتی و بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔وقت کی قدرکریں۔اللہ تعالی وقت کے بادشاہ ہے۔ وہ قادر مطلق ہے،دنیاکی ساری چیزیں اس کے قبضے قدر ت میں ہے۔ اس لیے

حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کریں،عزت و وقار کا ساتھ اس ملک کا ایک باوقار اور ذمہ دار شہری بن کرزندگی گزاریں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button