مضامین

فکر لال بتی کی نہیں بس لال کارڈ کی ہے!

تحریر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جاوید اختر بھارتی

[email protected]

اچانک ملنے ملانے کا سلسلہ شروع ہوگیا سلام کلام و ملاقات میں تیزی آگئی سیاسی و سماجی شخصیات میں سے کچھ لوگوں نے ایک دوسرے کا حال معلوم کرنے کے لئے عوامی رابطہ مہم شروع کردیا مریضوں کی عیادت اور تجہیز و تکفین میں شرکت کرنا بھی شروع کردیا کل ملاکر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اترپردیش میں بلدیاتی انتخابات کا اعلان کسی بھی وقت ہوسکتا ہے جنہیں نگر پالیکا و نگر پنچایت کا الیکشن لڑنا ہے وہ چہرے برابر نظر آنے لگے ہیں بلکہ الیکشن کے اعلان سے قبل ہی کامیابی کا بھی دعویٰ کرتے بہت سے ممکنہ امیدوار نظر آتے ہیں،، تقریباً پورے اترپردیش کا یہی حال ہے،، اب ایسی صورت میں زیادہ مشکلات ان لوگوں کو ہے جو عوامی تحریکوں میں حصہ لیتے ہیں مگر کسی عہدے کی امیدواری سے دور رہتے ہیں کیونکہ سارے امیدوار انہیں لوگوں کو گھیرتے ہیں اب ایسے میں ان کو فیصلہ لینے میں کافی دشواری ہوتی ہے آخر وہ کس کے ساتھ چلیں اور کس کے حق میں اپیل کریں کیونکہ یہ گھریلو الیکشن ہے سارے لوگ اپنے ہوتے ہیں سب کا سب سے تعلق ہوتا ہے سب کا سب کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوتاہے اس لئے سب کو ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کرنا چاہیے اور اپنے تعلقات کو خراب نہیں کرنا چاہیے اور یہ بات صرف عوام ہی کو نہیں بلکہ امیدواروں کو بھی دھیان میں رکھنا چاہیے اور ہوسکے تو ایک نئی نظیر قائم کرنے کی طرف پیش قدمی بھی کرنا چاہیے یعنی سارے امیدوار کبھی ایک ساتھ ہوکر اپنے ساتھ سیاسی و سماجی شخصیات کو لے کر علاقوں میں گھومیں پھریں پھر عوام خود ہی فیصلہ کرے گی کہ ہمیں کس کو اپنا مقامی نمائندہ منتخب کرنا ہے اس طرح کسی کے سامنے مشکلات بھی نہیں ہوگی ورنہ اس کے برعکس تو عوامی اثر و رسوخ رکھنے والے لوگوں کے لئے کسی امیدوار کے ساتھ چلنا بہت مشکل ہے اس لئے مذکورہ طریقہ اختیار کرنے سے کسی کی دلآزاری بھی نہیں ہوگی اور ایک نئی نظیر بھی قائم ہوگی-

 

ایک ایک تنظیموں سے کئی کئی لوگ لوکل باڈیز الیکشن میں حصہ لیں گے تو ان تنظیموں کے دیگر ذمہ داران آخر کیا کریں گے اور یہی وجہ ہے کہ بالخصوص بنکروں کی اور پسماندہ مسلمانوں کی تنظیموں میں بکھراؤ پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ بعد میں پورے سماج کو بھگتنا پڑتا ہے عوامی تحریکیں چلانے میں کافی دشواری ہوتی ہے کیونکہ الیکشن کا خمار دل و دماغ سے نکلتا نہیں ہے نتیجے میں سماجی تحریکیں دم توڑ دیتی ہیں بہت زیادہ ایسے لوگ ہیں جو پانچ سال تک بڑے بڑے مشورے دیتے ہیں مگر جب بلدیاتی انتخابات آتے ہیں تو وہی لوگ اپنے مشوروں اور پیغامات کو بھلادیتے ہیں دیکھا جائے تو جو لوگ لال کارڈ کی سیاست سے اوپر اٹھ کر لال بتی کی سیاست کرنے پر زور دیتے ہیں وہی لوگ اس موقع پر خود لال بتی کی سیاست کو ٹھینگا دیکھاتے ہوئے لال کارڈ کی سیاست میں مصروف ہوجاتے ہیں اس سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ کسی کے سینے میں قوم و ملت کا درد ہے اور نہ ہی کسی کے اندر خدمت خلق کا جذبہ ہے بس ذاتی شہرت اور مفاد پرستی یہی ان کے اصل اغراض و مقاصد ہیں اس کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں-

وارڈ کی ممبری کے لئے دوستی دشمنی میں تبدیل ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے، رشتہ داریاں ٹوٹتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے، ماحول ناساز ہونے کی صورت میں ذاتی رنجش سے کام لیتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے اور ایک دوسرے کو پھنساتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے جبکہ ایک وارڈ ممبر نالی کھڑنجے تک ہی پہنچ رکھتا ہے وہ بھی اگر چئیرمین سے تعلق اچھا نہیں ہے تو اس سے بھی محروم رہتا ہے آخر جب ہم لوکل الیکشن میں اتنا گوڑا بھاگ کرتے ہیں تو پھر اسمبلی و پارلیمنٹ کے الیکشن کے موقع پر ساری گنڑت کیوں فیل ہوجاتی ہے جبکہ یہ تو معلوم ہے کہ نگر پالیکا و نگر پنچایت کی تعمیر و ترقی کے بھی قانون اسمبلی و پارلیمنٹ میں ہی بنتا ہے تو زیادہ کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ جہاں قانون بنتا ہے وہاں پہنچنے کے جد وجہد کیا جائے، جہاں لال بتی ملتی ہے وہاں پہنچنے کے لئے زیادہ کوشش کی جائے مگر نہیں ساری حکمت عملی، سارا چکر، ساری جد و جہد نگرپالیکا و نگر پنچایت کی چئیرمینی اور ممبری کے لئے یعنی بس لال کارڈ کی فکر رہتی ہے اور لال بتی کی کوئی فکر نہیں جبکہ سارے لوگ ایک رکن اسمبلی و رکن پارلیمنٹ کا بھی رتبہ و جلوہ دیکھتے ہیں اور ایک چئیرمین اور وارڈ ممبر کی بھی حیثیت دیکھتے ہیں کم از کم اتنا تو ذہن میں رکھنا چاہئے کہ سردی کے موسم میں کمبل نگر پالیکا و نگر پنچایت سے تقسیم ہوتا ہے تو وہ آتا ہے مرکزی و صوبائی حکومت سے اور دونوں اداروں و ایوانوں میں عوامی مقبولیت اور عوام کے ووٹوں کی بدولت ہی پہنچنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے پھر بھی ہم غفلت برتتے ہیں بعد میں رونا روتے ہیں کہ ہمارا لیڈر کوئی نہیں ہے، ہمارے مسائل کو حل کرانے والا کوئی نہیں، ہماری فریاد سننے والا کوئی نہیں ہے، ہمارے حق میں آواز بلند کرنے والا کوئی نہیں ہے کبھی بھی سنجیدگی کے ساتھ غور نہیں کرتے کہ جب بااختیار بننے بنانے کا موقع آتا ہے تو وہ موقع خود ہی گنوا دیتے ہیں-

افسوس کی بات یہ بھی ہے کہ کسی سماجی تنظیم کے ذمہ داران بھی اس پہلو پر غور نہیں کرتے باتیں تو بہت بڑی بڑی کرتے ہیں مگر جب لوکل باڈیز کا الیکشن آتا ہے تو وہ بھی وہی کام کرتے ہیں جو عام امیدوار کرتے ہیں اس موقع پر نہ انہیں اپنی تنظیم کی فکر ہوتی ہے اور نہ تنظیم کے دیگر ذمہ داران کی کوئی فکر ہوتی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعد میں عوام الجھتی ہے، لڑائی جھگڑا تک کرتی ہے جس کی وجہ سے روزگار کے مسائل،سماجی مسائل حل نہیں ہوتے ہیں اس لئے راقم الحروف کا مشورہ تو یہی ہے کہ ہم جس طرح لوکل باڈیز کے الیکشن میں بیداری کا ثبوت دیتے ہیں اور خوب سرگرم رہتے ہیں اسی طرح اسمبلی و پارلیمنٹ کے الیکشن میں بھی حصہ لیں تاکہ ہمارا سیاسی دائرہ وسیع ہوسکے اور ہمارا سماج ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکے اور پورے سماج کا بھلا ہوسکے-

[email protected]

Javed Akhtar Bharti

+++++++++++++++++++++++++

جاوید اختر بھارتی (سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)

محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی

 

متعلقہ خبریں

Back to top button