اسپشل اسٹوری

بلقیس بانو کیس ٹی وی چینلس خاموش۔ انگریزی اخبارات نے مجرموں کی رہائی پراداریہ میں اٹھائے سوال

حیدرآباد: غیرضروری مسائل پرگھنٹوں مباحث کرنے والے ٹی وی چینلس کی بلقیس بانومعاملہ میں خاموشی باعث حیرت ہے جبکہ اردو اخبارات کے ساتھ ساتھ کئی مشہورانگریزی روزناموں نے صحافت کے معیارکوبرقراررکھتے ہوئے حقائق کو پیش کیا۔ رائی کا پہاڑ بنانے والے ٹی وی چینلس نے 11 مجرموں کی رہائی کے فیصلہ پر خاموشی اختیارکی۔ معمولی مسائل پراونچی آوازمیں بولتےہوئے حکومت وقت کی مدح سرائی

میں مصروف ماہر ٹی وی اینکرایسا لگتا ہے کہ وہ اس خبر کو جانتے ہی نہیں ہیں۔
اکا دکا چینلس کو چھوڑ کرباقی تمام نے بلقیس بانوکی خبر کے مقابل دیگرغیراہم خبروں کو اہمیت دی۔ واضح رہے کہ دسمبر 2012 میں نربھئے کیس کے معاملہ میں ان چینلس نے کس طرح سے خبروں کا کوریج دیا گیا تھا یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ وہیں دوسری جانب انگریزی روزناموں نے بلقیس بانو کے مجرموں کی رہائی پرنہ صرف خبروں کی اشاعت کی بلکہ اپنے اداریوں میں حکومت کے اس فیصلہ کے خلاف سوالات کھڑے کئے۔ ٹائمز آف انڈیا نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ رہائی کی پالیسی کو لاگو کرنے سے پہلے حکومت کو یہ معلوم کرنا چاہیے کہ کیا اس جرم کا اثر صرف ایک شخص پر ہوا ہے یا سماج کا ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر ہوا ہے۔ اداریہ میں کہا گیا ہے کہ لکشمن نسکر کیس اور مرکزی وزارت داخلہ کے رہنمایانہ خطوط کافی حد تک واضح تھے جس کی بنیاد پر ان 11 لوگوں کو رہا نہیں کیا جانا چاہئے تھا۔

انگریزی کے مشہوراخباردی ہندو نے اپنے اداریہ میں لکھا کہ یہ مکمل طور پر ناقابل فہم اور منطق کے خلاف ہے کہ 3 خواتین کی عصمت دری کرنے والے 3 اور 6 سال کے بچوں کو قتل کرنے والوں کو کسی بھی پالیسی کے تحت کیسے رہا کیا جا سکتا ہے؟ انڈین ایکسپریس نے بھی اپنے اداریہ میں تحریرکیا کہ 2002 کے گجرات فسادات کےقصورواروں کو جو چھوٹ دی گئی ہے اس سے الٹا اثر پڑنے والا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ یہ 2002 کے ہولناک جرائم میں سزا کو یقینی بنانے کے لیے سخت لڑی جانے والی قانونی جنگ کے لیے ایک سنگین دھکہ ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button