مضامین

23/ستمبر۔ سعودی عرب کا یوم تاسیس

 

از: محمد عارف عمری
رکن مجلس عاملہ جمعیۃعلماء مہاراشٹر
پچھلی صدی انقلابات کی صدی کہی جا سکتی ہے،جس کے اوائل میں خلافت عثمانیہ کی بساط لپیٹ دی گئی اور اواخر میں ملکی فریم کو بھی تباہ و برباد کرنے کی ہر ممکن کو شش کی گئی جس کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ایسے نازک دور میں 23/ستمبر 1932کو ایک چھوٹے سے قبیلے کے ایک جواں مرد سردار نے جس کے خاندان کو جلا وطنی پر مجبور ہونا پڑا تھا،ایک وسیع اور مستحکم سلطنت کی بنیاد رکھی،قانون فطرت یہ ہے کہ دنیا میں طاقت کے بل بوتے پر ہی حکومت حاصل کی جاتی ہے،ملک عبد العزیز ؒ اور ان کے جیالے فرزندوں نے اس مملکت کے حدود نجد سے لیکر حجاز تک پھیلادیئے۔
سعودی حکومت نے اپنے قیام کے اول روز سے اسلامی حدود و تعزیرات کے اجراء کو لازمی قرار دیا ہے، جس کی برکت سے اس ملک میں جرائم کی شرح نہایت کم ہے، یہ عجیب بات ہے کہ اس قانون کی افادیت کا کھلے آنکھوں مشاہدہ کرنے کے باوجود بھی دنیا کے لوگ اس قانون کو وحشیانہ کہتے ہیں اور سعودی عرب سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس میں تبدیلی پیدا کرے،لیکن یہ حکومت اس سلسلے میں کسی طرح کی لچک پیدا کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔
مملکت سعودی عرب کے قیام کے بعد خطہ عرب میں بالعموم اور بلاد حرمین میں بالخصوص بدعات کے مظاہر (قبروں پر گنبد بنایا یا اس کا طواف کرنا وغیرہ) پر نہ صرف یہ کہ قد غن لگائی گئی بلکہ جا بجا مراسم بدعات کو ختم کرنے کی پر زور مہم چلائی گئی،چونکہ عام مسلمان ان بدعات سے مانوس تھے، اس لئے ان کے دلوں میں بے چینی پیدا ہوئی اور سعودی عرب کے اس اقدام کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی گئی،ہمارے ملک ہندوستان سے بھی وفود روانہ ہوئے لیکن سعودی عرب کے اس موقف کی شرعی حقیقت اور معقولیت کی بنا پر خود اس سے متاثر ہوئے،جس کے نتیجے میں آج ہمارے ملک میں قبروں پر گنبد تعمیر کرنے کا رواج کافی حد تک ختم ہوگیا ہے۔
سعودی حکومت نے حجاز پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعد مناسک حج کی ادائیگی کے لئے وسیع انتظامات کئے اور حرمین کی توسیع کا ایسا کارنامہ انجام دیا جس کی نظیر ماضی میں نہیں ملتی ہے۔سعودی حکمراں اور عوام حجاج کی خدمت کو اپنے لئے باعث شرف و سعادت سمجھتے ہیں،مکہ،منیٰ مزدلفہ اور عرفات میں حجاج کی ضیافت میں پیش پیش رہتے ہیں،حکومت کے اہل کار نرم روئی کے ساتھ لاکھوں کی بھیڑ کو کنٹرول کرتے ہیں،حکومت ممکنہ تمام وسائل استعمال کرتی ہے جس کا اعتراف دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے حجاج کرتے ہیں۔
حکومت سعودی عرب نے مرکز اسلام (مکہ مکرمہ) میں رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھی،جو عالم اسلام کے مسائل پر نظر رکھنے اور اس کی تدابیر اختیار کرنے کا ایک غیر حکومتی بین الاقوامی فورم ہے جس کی سر پرستی حکومت سعودی عرب کرتی ہے،دنیا کے تمام ملکوں سے اس فورم کے نمائندے منتخب کئے جاتے ہیں،ہمارے ملک سے حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ اور حضرت مولانا سید ارشد مدنی صاحب صدر جمعیۃعلماء ہند دو حضرات اس فورم کے ممبر ہیں۔
سعودی عرب نے اپنے ملک کے حدود میں بہت ساری یونیورسٹیاں قائم کی ہیں جن میں بعض یونیورسٹیوں کو عالمی سطح پر درجہ بندی میں نمایاں حصہ ملا ہے، اور اسی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح کے مسلمانوں کی دینی و شرعی تعلیم کے لئے مدینہ منورہ میں جامعہ اسلامیہ (مدینہ یونیورسٹی)قائم کی ہے،جہاں بلا کسی معاوضے کے طلبہ کو تعلیم،رہائش اور خوراک فراہم کی جاتی ہے اور ماہانہ وظیفہ بھی دیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button