تلنگانہ کے اقلیتی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم اے ایم ای آئی (AMEI) کے وفد کا علی گڑھ اور دہلی کا بصیرت افروز تعلیمی دورہ

حیدرآباد، 21 اکتوبر (پریس ریلیز) تلنگانہ میں اقلیتی تعلیمی اداروں کی نمائندہ تنظیم ایسوسی ایشن آف مائنارٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس (AMEI) کے زیر اہتمام ایک 20 رکنی وفد نے علی گڑھ اور دہلی کے لیے ایک بصیرت افروز تعلیمی دورے کا آغاز کیا۔ اس دورے کا مقصد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (AMU) کے بانی، سر سید احمد خانؒ کے علمی و تعلیمی وژن کو قریب سے سمجھنا اور ہندوستان میں تعلیمی اداروں و تنظیموں کے کامیاب ماڈلز کا مطالعہ کرنا تھا۔
وفد کا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی پہنچنے پر پرتپاک خیرمقدم کیا گیا، جہاں انہیں معزز وائس چانسلر پروفیسر نعیمہ خاتون سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ ملاقات کے دوران مندوبین نے سر سید احمد خان کی تحریک، ان کی قربانیوں اور ہندوستان کے مسلمانوں کی تعلیم کے لیے ان کی غیر معمولی خدمات پر تبادلہ خیال کیا۔وفد نے یونیورسٹی کے تاریخی کیمپس کا دورہ کیا اور سر سید کے تعلیمی وژن، ان کے کردار اور وراثت سے متاثر ہو کر موجودہ نسل میں علمی بیداری کے عزم کو مزید مضبوط کیا۔
اس کے بعد وفد نے دہلی میں ہمدرد یونیورسٹی کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے تدریسی و تحقیقی نظام، طلبہ معاونت کے ڈھانچے اور جامع تعلیمی ماحول کا مشاہدہ کیا۔ ہمدرد یونیورسٹی کے جدید تعلیمی طریقوں اور تحقیق پر مبنی سیکھنے کے ماڈل نے مندوبین پر گہرا اثر چھوڑا۔وفد نے ہمالیہ ولنیس کمپنی کا بھی دورہ کیا، جہاں کمپنی کے پریزیڈنٹ ڈاکٹر ایس فاروق سے ملاقات کے دوران اخلاقی اقدار، معیار اور سائنسی تحقیق کے امتزاج پر مفصل گفتگو ہوئی۔ مندوبین نے کمپنی کے اس ماڈل کو دواسازی اور صحت کے شعبے میں قابلِ تقلید قرار دیا۔
یہ مکمل تعلیمی و تنظیمی دورہ اے ایم ای آئی کے صدر اور ایم ایس ایجوکیشن اکیڈیمی کے منیجنگ ڈائریکٹر جناب انور احمد کی بصیرت افروز قیادت میں انجام پایا۔ جنرل سکریٹری ڈاکٹر ساجد علی نے اس سفر کی منصوبہ بندی میں کلیدی کردار ادا کیا، جبکہ ٹریژرر ڈاکٹر محمد انور نے سفر، قیام و طعام اور دیگر لوجسٹک انتظامات کو خوش اسلوبی سے انجام دیا۔ نائب صدر ڈاکٹر وقار احمد خالد نے قیام، نماز اور روزانہ کے نظام الاوقات کو بخوبی منظم کیا۔ دورے کی مکمل دستاویزی کوریج مسٹر محمد صفدر علی نے پیشہ ورانہ انداز میں کی، جنہوں نے اس یادگار سفر کے اہم لمحات کو محفوظ کیا۔
دورے کے اختتام پر مندوبین نے اس عزم کا اظہار کیا کہ سر سید احمد خان کی طرح وہ بھی تعلیم کے فروغ، نئی درسگاہوں کے قیام، اور اقلیتی برادری کے تعلیمی بااختیار بنانے کے لیے اپنے مشن کو مزید وسعت دیں گے۔ ان کا یہ ماننا ہے کہا:”اگر سر سید احمد خان نے مشکلات کے دور میں اتنی عظیم میراث قائم کی، تو ہم آج کے بہتر حالات میں نئی تعلیمی تاریخ کیوں نہیں رقم کرسکتے؟”
یہ دورہ نہ صرف سر سید احمد خان کی خدمات کو خراجِ عقیدت تھا بلکہ اقلیتی تعلیم کے فروغ، باہمی تعاون اور اجتماعی ترقی کی ایک نئی تحریک کی بنیاد بھی ثابت ہوا۔



