الفلاح گروپ کے چیئرمین جواد احمد صدیقی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار

ای ڈی کی کارروائی: الفلاح گروپ کے چیئرمین جواد احمد صدیقی منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار
انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) نے منگل کے روز الفلاح گروپ کے چیئرمین جواد احمد صدیقی کو منی لانڈرنگ کے ایک اہم کیس میں گرفتار کرلیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ کارروائی اُن الزامات کے سلسلے میں کی گئی ہے جن میں گروپ کی جانب سے جعلی منظوری، مالی بے ضابطگیوں اور گمراہ کن دعوؤں کا ذکر کیا گیا ہے۔ صدیقی 2014 سے فریدآباد میں الفلاح یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں۔
ای ڈی کے مطابق، صدیقی کو منی لانڈرنگ ایکٹ (PMLA) کی دفعہ 19 کے تحت اس وقت حراست میں لیا گیا جب تحقیقاتی ٹیم نے منگل کی صبح مختلف مقامات پر کی گئی تلاشیوں کے دوران برآمد شدہ مواد کا جائزہ لیا۔
پولیس کے مطابق الفلاح گروپ کا 72 ایکڑ پر پھیلا ہوا الفلاح میڈیکل کالج اس وقت ملک کی سب سے بڑی دہشت گردی تحقیقات میں سے ایک کے مرکز میں ہے۔ پولیس کے مطابق، کالج کے ایک کمرے میں مبینہ طور پر ملک گیر بم دھماکوں کی سازش تیار کی گئی۔
این آئی اے نے کالج کے فیکلٹی ممبر عمر نبی کو لال قلعہ دھماکے کا خودکش بمبار قرار دیا ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ امونیم نائٹریٹ کی ترسیل اور راستوں کی منصوبہ بندی اسی کالج کے احاطے میں کی گئی، جبکہ لال قلعہ کے قریب پھٹنے والی ہنڈائی i20 کار تقریباً 20 دن تک کیمپس میں پارک رہی تھی۔
ای ڈی کی موجودہ جانچ دہلی پولیس کرائم برانچ کی دو ایف آئی آرز پر مبنی ہے، جن میں الزام ہے کہ الفلاح یونیورسٹی نے نیشنل اسیسمنٹ اینڈ ایکریڈیٹیشن کونسل (NAAC) کی منظوری کا جھوٹا دعویٰ کیا اور UGC ایکٹ کی دفعہ 12(B) کے تحت اپنی اہلیت غلط طور پر پیش کی۔
یو جی سی نے واضح کیا ہے کہ یونیورسٹی صرف دفعہ 2(f) کے تحت ریاستی پرائیویٹ یونیورسٹی کے طور پر تسلیم شدہ ہے اور کبھی بھی مرکزی گرانٹس کی اہل نہیں رہی۔
ای ڈی کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق، صدیقی 1995 سے الفلاح چیریٹیبل ٹرسٹ کے مینجنگ ٹرسٹی ہیں اور پورے نیٹ ورک پر مکمل کنٹرول رکھتے ہیں۔ تحقیقات کے مطابق گروپ کے مالی ریکارڈ اس کے تیز رفتار توسیعی دعوؤں کی تائید نہیں کرتے۔
میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ منگل کو این سی آر کے 19 مقامات جس میں یونیورسٹی اور متعلقہ افراد کی رہائش گاہیں شامل ہیں—پر کی گئی تلاشیوں میں ای ڈی کو بھاری پیمانے پر فنڈ کی منتقلی کے شواہد ملے۔
عہدیداروں کے مطابق کروڑوں روپے غیر قانونی طریقے سے خاندان کی ملکیت والی کمپنیوں میں منتقل کیے گئے، جبکہ تعمیرات اور کیٹرنگ کے کنٹراکٹ صدیقی کی اہلیہ اور بچوں سے منسلک کمپنیوں کو دیے گئے۔
ایجنسی نے 48 لاکھ روپے نقد، ڈیجیٹل ڈیوائسز، دستاویزات اور متعدد شیل کمپنیاں بھی برآمد کی ہیں جو مبینہ طور پر منی لانڈرنگ نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔
ای ڈی کے مطابق ’’فنڈس کا غلط استعمال اور نقد رقم کی برآمدگی سے صدیقی کے خلاف شواہد مضبوط ہوگئے ہیں جس کے بعد انہیں حراست میں لیا گیا۔‘‘انہیں ریمانڈ حاصل کرنے کے لیے عدالت میں پیش کردیا گیا ہے، اور عدالت نے ریمانڈ پر دے دیا ہے جبکہ مزید تحقیقات جاری ہیں۔



