دربار رسالت کی حاضری سعادت دارین،خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا بیان

حیدرآباد یکم مئی (پریس ریلیز ) خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے بتلایا کہ حضور پاک علیہِ الصلوٰۃ والسلام نے دعا فرمائی : اے اللہ!جتنی تونےمکہ میں برکت عطافرمائی ہے ، مدینہ میں اُس سے دو گُنا برکت عطافرما۔ ادب وہ شے ہے جو نصیب بدل دیتی ہے۔
نفیس طبیعت کے مالک لوگ‘ بلبل ہزار داستان کی طرح پھول کے شیدا اور عطر و خوشبو کے شائق و عاشق ہوتے ہیں۔ خوشبو اور خوشبو دار چیز پاکر ان کی خوشی کی انتہا نہیں رہتی اور وہ فرحت و انبساط محسوس کرنے لگ جاتے ہیں۔ حضورکریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ خوشبو اور نماز کی محبت ہماری طبیعت میں ڈال دی گئی ہے‘ اگر کوئی شخص ہمیں خو شبو کا تحفہ دے تو ہم اسے واپس نہیں کریں گے۔ جس طرح لطیف مزاج کے انسان خوشبو سے محبت اور بدبو سے نفرت کرتے ہیں ‘ بدبو اور بدبودار چیز سونگھ کر انہیں ابکائیاں آنے لگ جاتی ہیں اور وہ اس سے سخت اذیت اور کراہت محسوس کرتے ہیں اسی طرح فرشتے بھی خوشبو کو پسند اور بدبو کو انتہائی طور پر ناپسند کرتے ہیں اور انہیں اس سے سخت اذیت اور تکلیف پہنچتی ہے۔ چنانچہ جو لوگ بد بو کے باعث ان کو اذیت دینے کا باعث بنتے ہیں ‘ وہ ان کے لئے کلمہ خیر منہ سے نہیں نکالتے اور جو چیز بدبو دار ہو اسے بھی پسند نہیں کرتے۔ اس لئے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرشتوں کے ان جذبات و احساسات کا بہت خیال رکھا کرتے تھے‘ خصوصاً مسجد میں بدبو دار حالت میں آنے سے آپ نے سختی کے ساتھ روکا ہوا تھا۔
چونکہ مدینۂ منورہ کو پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےشر فِ قیام بخشا ، سرزمین ِ مدینہ کو اپنے قدموں کےبوسےلینےکی سعادت عطا فرمائی ان سعادتوں سے فیضیاب ہوکرشہرِمدینہ نے عظمت و رفعت پائی ، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی دعا سے اِس مبارک شہر کو اتنی برکت میسر آئی کہ مدینے میں رہنا عافیت کی علامت اور مدینے میں مرنا شَفَاعتِ مصطفےٰ کی ضمانت قرارپایا ، یوں یہ شہربہت فضیلت اور دُگنی خیرو برکت کا ایسا مرکز بنا کہ جسے دیکھنےکےلئےہرعاشقِ رسول تڑپتا ہے۔
بخاری شریف کی اس حدیث میں برکاتِ مدینہ سے متعلق دعائے مصطفٰےکا ذکر ہے ، اس دعا کا ظہور وہاں کی آب و ہوا اوراشیاء میں واضح طور پرنظر آتا ہے ، برکاتِ مدینہ میں سے سات ملاحظہ کیجئے : (1)جب کوئی مسلمان زیارت کی نیّت سےمدینۂ منورہ آتا ہےتو فِرِشتے رَحْمت کے تحفوں سے اُس کا استِقبال کرتے ہیں۔ ایک موقع پر نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے یوں دعا فرمائی : اے اللہ ! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے ، ہمارے مُد اور صاع میں برکت دے۔ (2)مسجدِ نبوی میں ایک نمازپڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ (3)ایمان کی پناہ گاہ مدینۂ منورہ ہے۔ (4)مدینے کی حفاظت پر فرشتے معمور ہیں چنانچہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : اُس ذات کی قسم جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اُس پر دو فِرشتے ہیں جو اِس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (امام نَوَوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : اس روایت میں مدینۂ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی ، کثرت سے فِرِشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کوسرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عِزَّت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔ (5)خاکِ مدینہ کو شفا قرار دیا ہے چنانچہ جب غزوۂ تَبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابۂ کرام علیہمُ الرِّضوان ملے انہوں نے گرد اُڑائی ، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی آپ نے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قُدرَت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہربیماری سےشفاہے۔ (6)مدینے کے پھل بھی بابرکت ہیں کیو ں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دعا فرمائی ہے۔ (7)مدینہ میں جیناحصولِ برکت اورمَرنا شفاعت پانےکاذریعہ ہےچنانچہ رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد ہے : جو مدینے میں مَرسکے وہ وَ ہیں مَرے کیونکہ میں مدینے میں مَرنے والوں کی شَفاعت کروں گا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ یوں دعا مانگا کرتے تھے : اےاللہ!مجھے اپنی راہ میں شہادت دے اور مجھے اپنے رسول کےشہرمیں موت عطا فرما۔ اللہ پاک ہمیں برکاتِ مدینہ سے مالامال فرمائے۔
ادب گاہ ہیست زیر آسمان از عرش نازک تر نفس گم کرده می آید جنید و بایزید ایں جا
اس بارگاہ میں جنید بغدادی اور بایزید بسطامی جیسے بڑے بڑے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں۔ اس بارگاہ کا ادب ہی ایسا ہے اور کیوں نہ ہو کہ یہ بارگاہ محبوبِ رب کریم ﷺکی ہے۔ یہاں تو زور سے سانس لینا بھی بے ادبی ہے۔ عشق کا دعویٰ کرنے والا بغیر ادب کے اپنے قول میں کیسے صادق ہو سکتا ہے! محبت کی کہانی میں جب محبوب کا لقاء آجاتا ہے تو پھر محب کچھ نہیں کہتا، کوئی عرض نہیں کرتا، بس دور کھڑا رو رہا ہوتا ہے۔ ارے جہاں یار کا جلوہ ہو وہاں عرضیں نہیں کی جاتیں۔ وہاں تو نگاہیں جھکی ہوئی سب جان لیتی ہیں۔ یہ تو وہ بارگاہ ہے کہ رب کریم خود اس کے آداب سکھاتا ہے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم