نوجوانوں کے لیے اقبال کی فکرِ تازہ — خوابوں کو حقیقت بنانے کا فلسفہ،علامہ اقبال کی فکری نشست سے مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال

نوجوانوں کے لیے اقبال کی فکرِ تازہ — خوابوں کو حقیقت بنانے کا فلسفہ،علامہ اقبال کی فکری نشست سے خطیب وامام مسجد تلنگانہ اسٹیٹ حج ہاؤز نامپلی حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری کا اظہار خیال
حیدرآباد، ۴ نومبر:(پریس ریلیز )خطیب و امام مسجدِ تلنگانہ اسٹیٹ، حج ہاؤز نامپلی، حیدرآباد مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے 9نومبر ولادت علامہ اقبال کی فکری نشست کے دوران گفتگو اظہار خیال کرتے ہوئے بتلایا کہ نوجوان نسل کی فکری و اخلاقی تربیت کے لیے علامہ اقبال کی فکر کو اپنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔انہوں نے کہا کہ فکرِ اقبال نوجوانوں کو مقصدِ حیات، خودی، کردار کی مضبوطی اور یقینِ محکم کا پیغام دیتی ہے۔ اقبال نے تعلیم کو صرف معاشی ذریعہ نہیں بلکہ انسانی وقار، خودداری اور خدمتِ خلق کا وسیلہ قرار دیا۔
مولانا مفتی ڈاکٹر حافظ محمد صابر پاشاہ قادری نے کہا کہ موجودہ دور کا سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ تعلیم اور تربیت کا رشتہ کمزور ہوچکا ہے۔ اس خلا کو پُر کرنے کے لیے اقبال کی تعلیمات کو نصاب، مدارس اور سماجی فضا کا حصہ بنانا ضروری ہے۔انہوں نے نوجوانوں کو اقبال کی چار تحریروں کا مطالعہ کرنے کی تلقین کی:
خطبہ الٰہ آباد، ملتِ بیضا پر ایک عمرانی نظر، اسلام اور وطنیت، اور خطاب بہ جاوید۔
ان تحریروں میں ملت، خودی، ایمان، اور مقصدیت کا مکمل فکری و عملی خاکہ موجود ہے۔
مولانا نے کہا کہ اقبال نوجوان کو رزقِ حلال، صدقِ مقال، حیا، تقویٰ اور ذکر و فکر کا پیکر بننے کی دعوت دیتے ہیں۔ یہی صفات ایک زندہ اور باعزت قوم کی بنیاد بنتی ہیں۔
نوجوان نسل کی تربیت: فکرِ اقبال کی روشنی میں
اکیسویں صدی میں ہم نے اپنی نوجوان نسل کی علمی و فکری اور نظریاتی تربیت کس طرح کرنی ہے؟ اس حوالے سے علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر اور سوچ بہت اہم ہے اور اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ اس قوم کی تعمیر کا راستہ صرف اقبال ہی کا راستہ ہے۔ ہمارے پاس تعمیرِ زندگی، حالات کو سمجھنے اور بطورِ تہذیب اپنے آپ کو آگے لے کر چلنے کی فکرِ اقبال کے علاوہ کوئی ایسی سبیل موجود نہیں ہے جہاں ہمیں ہمارے سوالات کا جواب ملتا ہو اور مسائل کا ایک قابلِ فہم حل میسر آسکے۔ یہ کہنا بے جا اور مبالغہ نہیں ہوگا کہ اگر ہم اقبال کو نظر انداز کرکے آگے بڑھتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تہذیبی، سیاسی اور ملّی طور پر آج سے ڈیڑھ دو سو سال پیچھے رہ کر سوچ رہے ہیں۔ اگر ہم اقبال کو ردّ کرکے مستقبل میں قدم رکھتے ہیں تو ہم بہت ہی فکری پسماندگی کے ساتھ قدم رکھ رہے ہوں گے۔اگر ہم واقعی یہ چاہتے ہیں کہ آنے والے دور یعنی مستقبل میں ہمارا کوئی بامعنی و بامقصد کردار ہو تو ہمیں نسلِ نو کی تربیت کے ذریعے نسلِ نو کے شعور میں ایک بنیادی تبدیلی پیدا کرنی ہے۔ وہ تبدیلی یہ ہے کہ ہم نے انہیں مقصدیت سے آشنا کرنا ہے اور انہیں ان کے منصب کا احساس دلانا ہے۔ جب تک ہم یہ نہیں کرلیتے اس وقت تک ہمارا مقصد پورا نہیں ہوگا اور ہم جو کچھ بھی کرتے چلے جائیں وہ سارے کا سارا Cosmetics اور Ritual کی حد تک رہ جائے گا، اس سے کوئی واضح تاثیر نہیں ہوگی۔
جب ہم یہ بات کرتے ہیں کہ ہم نے نسلِ نو کے اندر ایک مقصدیت پید اکرنی ہے اور انہیں ان کے منصب سے آشنا کرنا ہے تو یہ امر ذہن میں رہے کہ پاکستان کا قیام جس مقصد کے لیے ہوا ہے اور ہمارے بانیان کے پیش نظر جو بڑا مقصد تھا، نسل نو کے شعور میں اسی مقصد کا احساس پیدا کرنا ہے۔ اگر ہم اس مقصد کے حصول کا احساس اجاگر کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہم منزل کی طرف چل پڑے ہیں۔
علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی فکر، شاعری اور آپ کی نثر اتنی جامع ہے کہ اس کے اندر ہمیں نہ صرف نوجوان نسل کی مجموعی تربیت بلکہ نوجوان نسل کے لیے تعلیمی نظام کو سدھارنے اور تعلیمی نظام کو بہتر کرنے کے سارے پہلوئوں کا احاطہ ملتا ہے۔ علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ مروّجہ تعلیمی نظام کی خرابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
مرشد کی یہ تعلیم تھی اے مسلم شوریدہ سر
لازم ہے رہرو کے لیے دنیا میں سامانِ سفر
شیدائی غائب نہ رہ، دیوانۂ موجود ہو
غالب ہے اب اقوام پر معبودِ حاضر کا اثر
اس دور میں تعلیم ہے امراضِ ملت کی دوا
ہے خونِ فاسد کے لیے تعلیم مثلِ نیشتر
علامہ یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے اب بتایا جارہا ہے کہ تعلیم حاصل کرو تمام ملّی مسائل بھی حل ہوجائیں گے اور اجتماعی امراض بھی دور ہوجائیں گے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ جس تعلیم کی مجھے بات بتائی جارہی ہے، وہ تعلیم معبودِ حاضر کی پوجا کی بات کرتی ہے اور جو معبودِ غائب یعنی ذاتِ حق ہے اور جو نظام مبنی بر وحی ہے، مجھے اس سے دور کرتی اور محسوسات میں قید کرتی ہے۔
افسوس! آج انسان نے یہ ’’بڑا کام‘‘ کیا ہے کہ جو زندگی کی معمولی ضرورتیں تھیں، ان کو زندگی کا بڑا حصہ دے دیا ہے اورجو زندگی کی اصل اور بڑی ضرورت تھی، اس کو زندگی کے چند لمحے بھی نہیں دیئے۔ یہی وجہ ہے کہ پھر ایسے تعلیمی نظام ہی سامنے آتے ہیں جیسے ہمارے ہاں رائج ہیں۔ موجودہ تعلیمی نظام پر چلنے کے اثرات کیا ہوتے ہیں؟ بقولِ اقبال:
لیکن نگاہ نکتہ بیں دیکھے زبوں بختی مری
‘‘رفتم کہ خار از پاکشم، محمل نہاں شد از نظر
یک لحظہ غافل گشتم و صد سالہ را ہم دور شد‘‘
یعنی یہ تعلیمی نظام تو میں نے اپنالیا اور اپنی مشکلات کو حل کرنے کے لیے تھوڑی دیر رک گیا کہ اپنے پائوں سے کانٹا نکال لوں۔۔۔ کانٹا پتہ نہیں نکلا کہ نہیں نکلا، لیکن جب میں نے سر اٹھایا تو دیکھا کہ وہ قافلہ بہت دور جاچکا تھا جس کا میں حصہ تھا، اب شاید اس کی گرد بھی مجھے نظر نہیں آرہی۔ یعنی اس تعلیمی نظام نے ہماری زندگیوں کو ہماری بنیادی منزل اور بنیادی مقصد سے دور کردیا۔
خدا آں ملّتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدست خویش بنوشت
بہ آں ملّت سروکارے ندارد
کہ دہقانش برائے دیگراں کشت
’’اللہ تعالیٰ اُس قوم کو سرداری عطا فرماتا ہے جو اپنی تقدیر اپنے ہاتھ سے لکھتی ہے اور اُس قوم سے کوئی سروکار نہیں رکھتا جس کے کسان دوسروں کے لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں۔‘‘
اگر ہم اپنی نوجوان نسل کو اقبال کی فکر سے روشناس کر دیں تو وہ یقیناً قوم کے روشن مستقبل کی ضامن بنے گی۔
> “خدا آں ملّتے را سروری داد
کہ تقدیرش بدستِ خویش بنوشت”



