جنرل نیوز

جناب ظہیر الدین علی خان کو شجیع اللہ فراست کا خراج

آہ ظہیر بھائی

وہ مئی انیس 1997 کی ایک گرم دوپہر تھی گھر کے لینڈ لائن پر مصطفیٰ علی بیگ صاحب کا فون آیا

ظہیر صاحب یاد فرما رہے ہیں

میرے بزرگ دوست نے کہا جنکے ساتھ میں اور احمد شاہ عمر میں دہوں کے فرق کے بغیر تین چار سال میں کافی بے تکلّف ہو چکے تھے

ہم فوری اپنی کینٹک سوفٹ موپڈ پر دفتر سیاست پہنچے

ظہیر صاحب ہمیشہ کی طرح بڑی شفقت سے ملے

کہنے لگے سیاست میں کام کروگے

سوال حیران کن تھا

میں نے کچھ دیر سوچ کر کہا ظہیر بھائی ، میں سوئل ٹیسٹر کی حیثیت سے کام کرنے کے لئے دبئی جا رہا ہوں ، دو تین مہینے ہیں تب تک کرلونگا

وہ دو تین مہینہ ، اب چھبیس سال بن چکے ہیں اور تب سے میں مسلسل پہلے سیاست اور پھر اعتماد کا صفحہ اول لکھ رہا ہوں ۔

 

 

ظہیر صاحب سے اس ملاقات نے میری زندگی کا دھارا ہمیشہ کے لئے موڑ دیا

ظہیر صاحب سے میری وابستگی انیس سو ترانوے کے اواخر میں شروع ہوئی جب میں بی یس سی سال اول میں پڑھ رہا تھا

میں اور میرے پیارے دوست احمد شاہ نے قلی قطب شاہ سٹیڈیم میں عابد علی میموریل کرکٹ ٹورنمنٹ کرایا

اس سلسلے میں ہم نے پہلے پہل ظہیر صاحب سے ملاقات کی

بڑا شفیق انسان پایا

ہماری حوصلہ افزائی کی

ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا

سپورٹس رپورٹر رحیم صاحب کو کوریج کے بھیجا

مہمان خصوصی بن کر اے

ہمیں خوبصورت ٹیبل کلاک کا تحفہ دیا

اس کے بعد ظہیر صاحب کا آفس ہمارا گھر آنگن بن گیا

اردو دانی کلاسس سے یہ تعلق اور مضبوط ہوا

میں ، احمد شاہ ، افتخار ، اسمٰعیل ایک اچھی ٹیم بنی

سیاست اور عابد علی ایجوکیشنل ٹرسٹ کی کئی سرگرمیوں میں ہماری کچھ نہ کچھ خدمات ہوتیں

کالج میں ہمارے خلاف کاروائی ہوئی ، ظہیر ہمارے لئے ڈھال بن گئے

ہر موقع پر مدد کی

بھر انیس سو ستانوے آیا اردو صحافت میں اتھل پتھل کا سال

مجھے ملازمت کی پیشکش کی گی

ظہیر بھائی ، کہیں نہ کہیں ظہیر صاحب بن گئے

سیاست میں ، میں نے سب ایڈیٹر کی حیثیت سے آٹھ سال کام کئے

ظہیر صاحب سے محبت اور عقیدت سے قطع نظر مجھے یہ کہنے میں کچھ عار نہیں کہ سیاست کا ماحول حریت پسندوں کے لئے ناسازگار تھا

وہاں درجہ چہارم کا ایک ملازم سب پر مسلط تھا ، شاید اب بھی ہے

 

 

اور بھی کچھ معالات تھے ، گھٹن بڑھتی جا رہی تھی

اکتوبر دو ہزار پانچ میں عزیز احمد صاحب اعتماد کی پیشکش لے کر گھر اے

میں تو شاید انتظار کر رہا تھا

قدرے ظاہری پس و پیش کے بعد ہاں کر دی

یادی کے ذریعے استفے کے ساتھ ظہیر صاحب کے نام ایک علحدہ خط بھیجا

ظہیر صاحب اس قدر برہم تھے کہ خط کھولے بغیر لوٹا دیا

کئی برس گزر گئے ، کوئی ملاقات نہیں ہوئی

ہان احمد شاہ سے جب بھی ظہیر صاحب کی بات ہوتی ، میرا تذکرہ ہوتا

اس سے پوچھتے ، کیسے ہیں فراست سالار

سپتمبر دو ہزار اکیس میں احمد شاہ کی ویب سائٹ کی لانچ تھی

ظہیر صاحب سے پورے سولہ سال بعد آمنا سامنا ہوا

میں کچھ نروس تھا

اسٹیج پر ظہیر صاحب ، ظہیر بھائی نظر اے

ہماری پرانی رفاقت، اردو دانی مہم اور سب باتوں کو یاد کیا

برف پگھل چکی تھی

ظہیر صاحب سے جب ہم پہلی بار ملے ، بابری سانحہ تازہ تھا

ملک اور شہر میں سیاسی ہلچل مچی

ظہیر صاحب سے کئی موضوعات پر اکثر بات ہوتی

میں نے ان سے زیادہ قوم و ملت کا مخلص نہیں دیکھا

رہنے کو اس دہر میں آتا نہیں کوئی

تم ایسے گئے جیسے کہ جاتا نہیں کوئی

متعلقہ خبریں

Back to top button