جنرل نیوز

شعبہ ء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے اردو ترجمہ نگاری میں دو روزہ قومی سمینار _ مختلف مقررین کا خطاب

علمی سرمائے کی منتقلی کے لئے اقوام ترجمے کی اسیر۔اُردو ترجمہ نگاری میں عصر ی تکنالوجی کے استعمال کی وکالت

علمی سرمائے کی منتقلی کے لئے اقوام ترجمے کی اسیر ہیں اور  اُردو ترجمہ نگاری میں عصر ی تکنالوجی کے استعمال کو یقینی بنایا جائے تاکہ وقت کی کمی سے ہونے والے مسائل سے نمٹا جا سکے۔ ان خیالات کا اظہار مقررین نے دو روزہ قومی سمینار بعنوان”عصرِ حاٖضر میں اُردو ترجمہ نگاری:اہمیت، مسائل اورامکانات“کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوے کیا، جس کا انعقاد شعبہ ء اُردو، اسکول آف ہیومانٹیزیونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے بہ تعاون انسٹی ٹیوٹ آف اِمینینس کیا گیا تھا۔

 

اختتامی اجلاس کی صدارت پروفیسر نسیم الدین فریس سابق صدر شعبہء اُردو مانو نے کی جبکہ پروفیسر ایس اے شکورسابق صدر شعبہء اُردو عثمانیہ یونیورسٹی، پروفیسر قاسم علی خان سابق صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، پروفیسر شوکت حیات سابق صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی اور پروفیسر ارجمند آراء شعبہ ء اُردو دہلی یونیورسٹی نے مہمانانِ خصو صی کی حیثیت سے شرکت کی اور خطاب کیا۔پروفیسر سید فضل اللہ مکرم پروفیسر شعبہء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے اس دو روزہ سمینار کی بحیثیت سر پرست نگرانی کی، انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ شعبہء اردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے اس طرح کی پہل وقتاً فوقتاً ہو تی رہیگی اور اس طرح کی علمی سرگرمیوں سے مختلف موضوعات پر تحقیقی دریچے کھلتے ہیں اور نئی راہیں فراہم ہوتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ ترجمہ اہم شعبہ ہے جس سے اُردو زبان و ادب کو فروغ حاصل ہوتا ہے

۔ڈاکٹر محمد کاشف اسسٹنٹ پروفیسر شعبہء اُردو نے سمینار کی رپورٹ پیش کی اور بتایا کہ 40سے زائد مقالہ نگاروں نے اس دو روزہ قومی سمینار میں اپنے تحقیقی مقالے پیش کئے ہیں۔ڈاکٹر ناظم علی سابق پرنسپل گورنمنٹ ڈگری کالج موڑتاڑ نے سمینار کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔وفیسر ایس اے شکورسابق صدر شعبہء اُردو عثمانیہ یونیورسٹی، پروفیسر قاسم علی خان سابق صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی، پروفیسر شوکت حیات سابق صدر شعبہء اُردو ڈاکٹر بی آر امبیڈکر یونیورسٹی اور پروفیسر ارجمند آراء شعبہ ء اُردو دہلی یونیورسٹی نے شعبہ ء اردویونیورسٹی آف حیدرآباد کو مبارکباد پیش کی کہ اس طرح کی علمی سرگرمی میں جنوب سے شمال تک کی علمی شخصیتوں کو مدعو کرتے ہوے ایک نایا ب موقع فراہم کیا گیا۔ پروفیسر نسیم الدین فریس سابق صدر شعبہء اُردو مانو نے اپنے صدار تی خطاب میں کہا کہ ترجمے کا عمل زبان کے وجود ہی سے جاری ہے

 

جس کے ذریعہ علمی، سماجی،مذہبی ودیگر سرمایوں کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا رہا ہے اور اب بھی یہ عمل جاری ہے۔ انہوں نے قومی سمینار کے انعقاد پر اپنی مسرت کا اظہار کیا۔اختتامی اجلاس کی نظامت جوائنٹ کنوینر سمینار ڈاکٹر اے آر منظر (شعبہ ء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآباد) نے کی ۔اس دو روزہ سمینار کے پہلے روز ڈاکٹر ذاکر حسین لکچر کامپلیکس میں واقع آڈیٹوریم میں افتتاحی اجلاس منعقد کیا گیا جس کی صدارت پروفیسر رحت یوسف زئی سابق صدر شعبہ ء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کی جبکہ پروفیسر اشرف رفیع سابق صدر شعبہء اُردو عثمانیہ یونیورسٹی، پروفیسر مجید بیدار سابق صدر شعبہء اُردو عثمانیہ یونیورسٹی، پروفیسر سجاد حسین سابق صدر شعبہء اُردو مدراس یونیورسٹی اور پروفیسر شہاب عنایت ملک (جموں یونیورسٹی)نے مہمانا نِ خصوصی کے طور پر شرکت کرتے ہوے خطاب کیا۔ پروفیسر آر ایس سر راجو پرووائس چانسلر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے مہمانِ اعزازی کے طور پر شرکت کرتے ہوے افتتاحی خطبہ دیا۔

 

پروفیسر حبیب نثار،صدر شعبہء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآبادنے مہمانوں اور شرکاء کا خیرمقدم کیا جبکہ افتتاحی اجلاس کی نگرانی بھی بہ حیثیت سرپرست سمینار پروفیسر سید فضل اللہ مکرم ہی نے کی۔ پروفیسر ارجمند آراء (یونیورسٹی آف دہلی) نے کلیدی خطبہ دیا جس کے دوران انہوں نے ترجمے کے دوران عملی میدان میں پیش آنے والی مشکلات اور اُ ن کے حل پر تفصیلی روشنی ڈالی، انہوں نے کہا کہ کامیاب ترجمہ وہی ہے جس میں محنت، مشقت اور ریاضت کے ساتھ اصل کی روح بھی منتقل ہوجائے۔افتتاحی اجلاس کی نظامت ریسرچ اسکالر محمد خوشتر نے کی اور جوائنٹ کنوینر سمینار ڈاکٹر نشاط نے ہدیہ ء تشکر پیش کیا جبکہ مہمانان کو تہنیت کو طور پر مومنٹوزبھی پیش کئے گئے۔

 

اس سمینار کے لئے شعبہ ء اُردو یونیورسٹی آف حیدرآباد کی جانب سے ملک بھر سے تقریباً 100مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا،افتتاحی اور اختتامی اجلاس کے علاوہ جملہ آٹھ اجلاس منعقد ہوے جس میں ملک کی کئی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور ریسرچ اسکالرز نے مختلف موضوعات پر اپنے مقالے پیش کئے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button