نیشنل

کسی وجوہات کے بغیر اندرون 3ماہ مسجد کو ہٹانے کے احکامات ناقابل فہم 

 الہ آباد ہائی کورٹ احاطہ سے مسجدسے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ پرصدر تعمیر ملت محمد ضیأالدین نیئر کا ردعمل

حیدرآباد۔14/مارچ(پریس نوٹ)صدر کل ہند مجلس تعمیر ملت جناب محمد ضیأالدین نیئر نے سپریم کورٹ کی جانب سے الہ آباد ہائی کورٹ احاطہ سے مسجد کو ہٹانے کے احکامات کی مذمت کی اور کہا کہ وقف مسجد ہائی کورٹ اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کی درخواستوں کو مسترد کرتے ہوئے جسٹس ایم آر شاہ اور سی ٹی روی کمار کی بنچ نے بلا کسی وجوہات کے درخواست گزاروں کو مسجد کو ہٹانے کیلئے 3ماہ کا جو وقت دیاہے وہ ناقابل فہم ہے اور کہا کہ ہائی کورٹ کی مسجد سنی سینٹرل وقف بورڈ میں درج رجسٹرڈ اور1981 سے باقاعدہ نمازوں کی ادائیگی کے باوجود ہائی کورٹ کی جانب سے مسجد کو ہٹانے کا حکم عدلیہ میں بھی زغفرانی ذہنیت کے حامل افراد کے غالب ہونے کا خدشہ ظاہر کررہا ہے جب کہ جس جگہ مسجد بنائی جاتی ہے وہ جگہ تاقیامت مسجد ہی رہے گی جس کی منتقلی شریعت میں مداخلت ہوگی اور یہی وجہ ہے کہ مسجد کو قانونی طور سے بچانے کیلئے ہی سپریم کورٹ کا رخ کیا گیاتھا لیکن وہاں بھی مسلمانوں کو مایوسی ہاتھ آئی اور سپریم کورٹ نے درخواست گزار کو اندرون 3ماہ مسجد کے تخلیہ کے احکامات جاری کردئیے جس کی وجہ سے عدلیہ پر مسلمانوں کا اعتماد ختم ہوتاجارہا ہے اورمسلمانوں میں بے چینی پائی جارہی ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ استدلال کہ درخواست گزار کو مسجد کیلئے یہ جگہ لیز پر دی گئی تھی وہ بھی ناقابل قبول ہے جب کہ مسجد کا وقف ریکارڈ متعلقہ سنی وقف بورڈ میں موجود ہے۔

 

انہوں نے کہا کہ مسجد کو ہٹانے کے خلاف مفادعامہ کے تحت درخواست داخل کرنے سے قبل ہی دو ججوں کی جانب سے مسجد کا معائنہ کرنے کے بعد مسجد کی موجودگی پر اظہار اطمینان کیاگیاتھا جس کے ساتھ ہی مسلمانوں میں مثبت توقعات پائی گئی تھیں لیکن اب ملک کی سب سے بڑی عدلیہ کے احکامات سے مسلمانوں میں تشویش پائی جارہی ہے اورمساجد کی موجودگی پر عدلیہ کا اعتراض قانونی پہلوؤں میں مداخلت کے مترادف ہوگا اور کہا کہ سینئر ایڈوکیٹ روی کرن جین کے بموجب ہائی کورٹ نے وقف قوانین اور سپریم کورٹ کی بعض گائیڈ لائنس کو نظر اندازکرکے اندرون تین ماہ مسجد کو ہٹانے سے متعلق جو فیصلہ دیاتھااس میں بھی کئی قانونی خامیاں پائی گئی تھیں۔انہوں نے کہا کہ معاملہ چوں کہ عدالت سے جڑا ہوا ہے اس لئے اس معاملہ میں مسلمان کھل کر کچھ کہنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ اب سپریم کورٹ سے انصاف کی جو امید کی جا رہی تھی وہ بھی مایوسی میں بدل گئی۔

متعلقہ خبریں

Back to top button