مضامین

ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا .وعدہ پورا کرو وعدہ کے متعلق آخرت میں باز پرس ہوگی

ڈاکٹر سراج الدین ندویؔ
9897334419
مرزا غالب کی غزل کا یہ مصرع جس کو میں نے اپنے مضمون کا عنوان بنایا ہے مکمل شعر مضمون کے آخر میں ملاحظہ کیجیے گا،انھوں نے کسی بے وفا اور حیلہ باز محبوب کے لیے کہا ہوگا۔لیکن آج کل پورا مسلم معاشرہ اس کی تصویر پیش کررہا ہے۔اس وقت امت مسلمہ نے اپنی جن اخلاقی اقدار کو گنوایا ہے اس میں ایفائے عہد بھی ہے۔ایک زمانہ وہ تھا کہ قتل کے ایک مجرم کو جب قتل کرنے کے لیے لے جایا جاتاہے اور وہ یہ مہلت مانگتا ہے کہ میں اپنے اہل خانہ کو اطلاع دے آؤں تو اس سے پوچھا جاتا کہ تمہاری ضمانت کون لے گا۔تم تو مسافر ہو۔یہاں تمہیں کوئی پہچانتا تک نہیں ہے۔اس وقت صحابی رسولؐحضرت ابو ذر غفاریؓ آگے بڑھ کر اس کی ضمانت لے لیتے ہیں اور وہ مجرم اپنے وعدے پر واپس آجاتاہے۔ یہ قتل کا مجرم تھایہ جانتے ہوئے بھی وہ مجرم کی ضمانت لیتے ہیں،اگر وہ نہ آتا تو ابو ذر غفاری ؓ کی گردن اڑا دی جاتی اور مجرم یہ جانتے ہوئے کہ جاتے ہی اسے قتل کردیا جائے گا واپس آجاتا ہے۔یہ ایفائے عہد کی انتہا ہے۔اس کے بعد کچھ نہیں باقی نہیں رہتاہے۔ایک آج کا زمانہ ہے کہ قدم قدم پر عہد شکنی ہے۔ملاقات کا وقت دیجیے تو کئی کئی گھنٹے انتظار کیجیے،کسی کو کچھ رقم ادھاردے دیجیے تو بھکاریوں کی طرح ا س سے واپس مانگتے پھریے،مل گئے تو ٹھیک ورنہ اللہ اللہ خیر صلّا،وعدہ شکنی کی یہ صورت حال انفرادی بھی ہے اور اجتماعی بھی۔جماعتیں،تنظیمیں،ملی ادارے قوم سے بڑے بڑے وعدے کرتی ہیں،لیکن ان میں کتنے پورے ہوتے یہ ہم سب جانتے ہیں،مسلم سیاسی لیڈر شپ جو گاؤں میں پردھان اور شہروں میں چیرمین بنتی ہے یا اللہ انھیں کوئی اور عزت والا مقام عطا کردیتا ہے تو اپنے وعدوں کو چناوی ہتھکنڈہ کہہ کر ٹال دیتے ہیں،انھیں لگتا ہے کہ ان وعدوں کا تعلق اللہ کے ذریعے باز پرس کیے جانے والے وعدوں سے نہیں ہے۔اس وقت ایک مومن اور کافر کی زبان میں کوئی فرق نہیں ہے۔
اخلاقی اوصاف میں وعدہ پورا کرنا بھی ایک اہم وصف ہے۔وعدہ خلافی سے انسان کی اپنی شخصیت ہی متأثر نہیں ہوتی بلکہ جس سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا بڑا نقصان ہوتا ہے۔ہم نے کسی سے ملاقات کا وقت لیا اور ہم نہیں گئے،وہ شخص ہمارے انتظار میں بیٹھا رہا۔ہم اندازہ نہیں کرسکتے کہ اس کے کتنے کام متأثر ہوئے ہوں گے۔نہ ہم اس کے نقصان کا اندازہ کرسکتے ہیں،نہ معلوم اسے بھی ہمارے بعد کہیں جانا ہو۔ہماری اس عہد شکنی سے اس کو ذہنی اذیت بھی پہنچی اور وقت کا نقصان بھی ہوا۔ہوسکتا ہے اسے کچھ مال کا خمیازہ بھی برداشت کرناپڑا ہو۔اسی طرح ہم نے کسی کو کوئی رقم یا چیز دینے کا وعدہ کیا اور ہم نے نہیں دی تو اس کا کام متأثر ہوتا ہے۔ہمارے سماج میں یہ برائی عام ہے۔ہم ایک منٹ کو کہہ کر جاتے ہیں اور گھنٹوں واپس نہیں آتے۔یہ سب وعدہ خلافی کے زمرے میں آتا ہے۔
وعدہ کے بارے میں قرآن مجید میں سخت تاکید کی گئی ہے۔فرمایا گیا:أَوْفُواْ بِالْعَہْدِ إِنَّ الْعَہْدَ کَانَ مَسْؤُلاً(بنی اسرائیل:۴۳)وعدہ پورا کرو وعدہ کے متعلق آخرت میں باز پرس ہوگی۔اسی طرح نبی ﷺ نے فرمایا:لَادِیْنَ لِمَنْ لَاعَھْدَ لَہٗئ اس شخص کا کوئی دین نہیں جسے عہد کا پاس ولحاظ نہیں۔ (بیہقی بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الایمان۔راوی انسؓ)
تعجب ہے کہ قرآن و حدیث کی واضح تعلیمات کے باوجود موجودہ دور میں امت مسلمہ کا اس معاملہ میں ناگفتہ بہ حال ہے۔ان کو لگتا ہے اللہ کے یہاں بس نماز کی پوچھ گچھ ہوگی،ان کو پڑھادیا گیا ہے کہ نماز ٹھیک نکلی تو سب ٹھیک نکلے گا۔نہ معلوم امت مسلمہ میں اس قسم کی روایات کہاں سے داخل ہوگئی ہیں،جنھوں نے دینی اعمال کی ترجیحات کو یکسر بدل دیا ہے۔آج کے دور میں ایک شخص ایک بار سبحان اللہ کہہ کر ایک درخت جنت میں لگواکر چین کی سانس لیتا ہے،ایک مالدار آدمی ہر سال عمرہ کرکے سارے گناہ بخشوالیتا ہے،آخر عمر میں حج کرکے نومولود اور معصوم ہوجاتا ہے۔حالانکہ اللہ کے یہاں ہر عمل کی باز پرس ہوگی اور اسی ترتیب سے ہوگی جو ترتیب ان کی دین میں ہے۔
دین اسلام اپنے ماننے والوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ جو بھی وعدہ کریں اسے پورا کریں۔ وعدہ کرکے اسے پورا نہ کرنا بدترین قسم کا گناہ ہے۔اسے منافقت قراردیا گیا ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”منافق کی تین نشانیاں ہیں۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے۔ جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرے۔“(بخاری ومسلم)آپؐ نے وعدہ پورا کرنے والوں کوجنت کی خوشخبری سنائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم مجھے تین باتوں کی ضمانت دو، میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ جب بولو توسچ بولو، جب وعدہ کرو تو پورا کرو، جب امانت تمہارے پاس رکھی جائے تو خیانت نہ کرو۔“
حضرت عمرؓ کی خلافت کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ ہر مزان کو گرفتار کرکے آپؓ کے پاس لایاگیا۔ وہ کئی بار مکروفریب کے جال بُن کر مسلمانوں کو نقصان پہنچا چکاتھا۔ ایک شہر کی فتح کے موقع پر یہ ایک منارہ پر چڑھ گیا اور مسلمانوں سے بولا کہ”میرے ترکش میں جتنے تیر ہیں میں اتنے ہی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتاروں گا یا تم مجھے اپنے خلیفہ کے پاس لے چلو اور میں ان سے بات کرکے اپنا معاملہ طے کرلوں۔“مسلمانوں کے سپہ سالار نے اس کی بات مان لی۔ چنانچہ ہرمزان کو حضرت عمرؓکے پاس لایا گیا۔
گفتگوشروع ہوئی تو ہرمزان نے پانی طلب کیا،اسے ایک کٹورہ میں پانی پیش کیا گیا۔ ہرمزان نے کٹورہ ہاتھ میں لیا تو اس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”کیا بات ہے؟ ہرمزان نے کہا:”مجھے ڈر لگ رہا ہے کہ یہ پانی پینے سے پہلے آپ لوگ مجھے قتل نہ کردیں۔“ حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم اطمینان سے پانی پیو، تم جب تک یہ پانی نہیں پی لوگے تمہیں قتل نہیں کیا جائے گا۔“ یہ سنتے ہی ہرمزان نے کٹورہ اپنے ہاتھ سے پھینک دیا اور بولا:”اب تم لوگ مجھے قتل نہیں کرسکتے کیونکہ تمہارے خلیفہ نے زبان دی ہے کہ جب تک میں یہ پانی نہ پی لوں مجھے قتل نہیں کیا جاسکتا اور اب میں کبھی بھی یہ پانی نہیں پی سکتا،کیونکہ یہ پانی زمین میں جذب ہوچکا ہے۔“مسلمان مشتعل ہوگئے۔ بولے”مکار ہے، فریبی ہے،یہ اس سے پہلے بھی دھوکہ دے چکا ہے۔اسے فوراً قتل کردیا جائے۔“ مگر حضرت عمرؓ نے فرمایا: ”سچی بات یہ ہے کہ ہم اسے قتل نہیں کرسکتے۔ ہماری زبان سے جو الفاظ نکل چکے ہیں ہم ان کے پابند ہیں۔“ یہ سنتے ہی ہرمزان نے کلمہ پڑھا اور اسلام میں داخل ہوگیا اور بولا۔”میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ مسلمان جو کہتے ہیں اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں۔دوسری بات یہ ہے کہ اگر میں اسی وقت ایمان لے آتا تو لوگ یہ سمجھتے کہ میں موت کے ڈر سے ایمان لایا ہوں۔ مگر اب مجھے موت کا کوئی ڈر نہیں ہے اس لیے خلوص کے ساتھ اسلام کا اعلان کرتا ہوں۔“
اس وقت ہم اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔مجھے معاف کیجیے کہ ہمارے وہ لوگ بھی جو پنجوقتہ نمازی ہیں،ہر وقت ان کے ہاتھوں میں تسبیح ہے،لیکن جب معاملہ اخلاق اور معاملات کا آتا ہے تو ان میں اور عام مسلمانوں میں کوئی فرق نہیں رہتا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے پر اعتبار نہیں کرتے،آپس میں تعاون کی فضا ختم ہوتی جارہی ہے۔جس کی وجہ سے ملت کی تصویر خراب ہورہی ہے، مسلمانوں کی ترقی کو بریک لگ گیا ہے۔ادارے زوال کا شکار ہیں۔اس لیے وعدہ سوچ سمجھ کر کیجیے۔پورا کرنے کی نیت سے کیجیے۔پورا کرنے کی پوری کوشش کیجیے۔اگر کسی وقت ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ آپ وعدہ پورا کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں تو جس سے وعدہ کیا گیا ہے اس سے معذرت کیجیے۔اسے وقت سے پہلے مطلع کیجیے تاکہ وہ اپناانتظام کرسکے۔لیجیے حسب وعدہ مرزا غالب کا مکمل شعر ملاحظہ کیجیے۔
ترے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
rr
مضمون نگار ماہنامہ اچھا ساتھی کے مدیر،سینکڑوں کتابوں کے مصنف اور ملت اکیدمی کے چیرمین ہیں۔

متعلقہ خبریں

Back to top button