جنرل نیوز

سردار سلیم کی شاعری مستقبل کے شعراء کا لب و لہجہ طے کرے گی،کتاب ”سانسوں کی مالا” کی رسم اجراء میں دانشواران ادب کا اظہار خیال  

کامیاب شاعری اظہار کی انفرادیت اور الفاظ کی ندرت سے پہچانی جاتی ہے، سردار سلیم نے اپنے اختراعی اسلوب میں وہ شاعری کی ہے جو اس سے پہلے نہیں کی گئی، انھوں نے اپنے منفرد انداز بیاں اور جدت طراز لہجے میں پامال مضامین میں بھی نئی جان ڈال دی ہے وہ خود کو کسی بھی تحریک یا رجحان سے وابستہ نہیں مانتے لیکن ان کی اچھوتی فکر انھیں جدید رجحان سے جوڑتی ہے اور ان کی یہ کتاب آنے والے دور میں کس طرح شاعری کرنی ہے اس بات کو طے کرے گی کیونکہ یہ آج کا لہجہ ہے

 

، ان خیالات کا اظہار اردو مسکن، خلوت مبارک حیدرآباد میں منعقدہ سردار سلیم کے مجموعہ کلام ”سانسوں کی مالا” کی تقریب رونمائی میں جناب مصحف اقبال توصیفی نے اپنی صدارتی تقریر میں کیا، پروفیسر رحمت یوسف زئی نے رسم اجراء انجام دینے کے بعد اپنی تقریر میں کہا کہ سردار سلیم کے لہجے میں ایک عجیب سی قوت ہے جو دلوں کو جھنجھوڑ دیتی ہے، عروض دانی فن دانی سب اپنی جگہ پر ہے مگر اظہار کی سادگی، رومانی انداز، سماج کی نا ہمواریوں پر چوٹ کرتے ہوئے بھی لہجے کی خوبصورتی کو برقرار رکھنا یہ سردار سلیم کا ہی حصہ ہے، ممتاز سینیر شاعر جناب صلاح الدین نیر نے والہانہ انداز میں بے ساختہ گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سردار سلیم خورشید احمد جامی، مخدوم، شاذ، سکندر علی وجد اور اوج یعقوبی کے معیار کا تسلسل ہے وہ اپنے وقت سے اگر چالیس سال پہلے پیدا ہوتے تو بڑے بڑوں سے داد وصول کرتے، سمجھ میں نہیں آتا کہ سردار سلیم کی شاعری کو سراہا جائے یا ان کی نثر کو، صلاح الدین نیر نے بڑے پرجوش، مخلصانہ اور والہانہ انداز میں سردار سلیم کے پینتیس منتخب شعر سنا کر سماں باندھ دیا اور کثیر تعداد میں موجود سامعین کے دلوں کو موہ لیا،

 

جدید لب و لہجے کے ممتاز شاعر و ادیب ڈاکٹر محسن جلگانوی نے فکاہیہ پیش کیا اور بے تکلفانہ اسلوب میں خوبصورت تبصرہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ سردار سلیم نے اپنے دل کی بات اپنے ہمزاد کی زبانی بیان کی ہے، ان کے چاہنے والوں نے انھیں طرح طرح کے القابات سے نوازا ہے میں انھیں شاعر اختراع کے خطاب سے نوازتا ہوں، پروفیسر ایس اے شکور نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ شاعر تین قسم کے ہوتے ہیں چھپنے والے، مشاعرے پڑھنے والے اور دونوں میدانوں میں یکساں مقبول رہنے والے، سردار سلیم کا کلام رسائل و جرائد میں شائع بھی ہوتا ہے اور انھیں مشاعروں میں بھی شوق سے سنا جاتا ہے، وہ حیدرآباد ہی نہیں بلکہ ملک گیر سطح پر بلکہ عالم گیر سطح پر کامیاب نمائندگی کرتے ہیں، پروفیسر شکور نے مزید کہا کہ سردار سلیم ایک فطری شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہردلعزیز شخصیت کے مالک بھی ہیں، پروفیسر خالد قادری نے کہا کہ سردار سلیم کی غزلوں میں جاذبیت اور انفرادیت ہے وہ انوکھے اور اچھوتے لہجے کے شاعر ہیں، اس کتاب میں ان کا پیش لفظ خاصے کی چیز ہے جس کا راوی ان کا ہمزاد ہے،

 

پروفیسر عبدالسمیع صدیقی نعیم نے اپنے مضمون میں نہایت جچے تلے لفظوں کے ذریعے سردار سلیم کے فنی محاسن کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ سردار سلیم ابتدائی دور میں پختہ لہجے میں شاعری کرتے تھے اور اب تازہ لہجے میں شاعری کرتے ہیں، کئی اصناف سخن میں انھوں نے طبع آزمائی کی ہے غزل ان کی محبوب صنف ہے اور وہ بڑی سے بڑی بات آسان لفظوں میں کہہ جاتے ہیں، الانصار فاؤنڈیشن کے صدر قاضی اسد ثنائی نے پر اثر انداز میں اجلاس کی کارروائی چلای، پرانی یادیں بھی تازہ ہوئیں اور پر لطف انداز میں سردار سلیم کی شخصیت اور ان کی شاعری کو خراج تحسین پیش کیا گیا، جناب ظہیر ناصری، جناب سید یوسف روش، جناب سید سمیع اللہ حسینی سمیع، جناب ممتاز لکھنوی اور ڈاکٹر خواجہ فرید الدین صادق نے منظوم تہنیتیں پیش کیں،

 

ڈاکٹر فاروق شکیل، ڈاکٹر جاوید کمال، نواب برکت علی خان، تسنیم جوہر، سیف نظامی، نور آفاقی، منور علی مختصر،ڈاکٹر غوثیہ بانو، ارجمند بانو، الزبتھ کورین مونا، ظفر فاروقی، ڈاکٹر طیب پاشاہ قادری، افتخار عابد،واجد اللہ خان، کیلاش بھٹڈ، ثنا اللہ وصفی انصاری، جہانگیر قیاس، نور الدین امیر، نجیب احمد نجیب، قاری انیس احمد، بصیر خالد، سید سہیل عظیم،ضیاء سلطانی، خادم رسول عینی، ظفر محی الدین، میر مبشر علی، ساجد سنجیدہ، جلال اکبر، سید ماجد خلیل، معراج جعفری، افضل عارفی، شہباز خان، ایڈوکیٹ حسان عمر احسن کے علاوہ سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی، سردار سلیم نے اپنی گفتگو میں تخلیقی اظہار کے اسرار و رموز پر مختصر اور جامع انداز میں روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ شاعری کوئی ذہنی ورزش نہیں ہے اچھی شاعری دل سے کی جاتی ہے، جو لوگ محبت نہیں کر سکتے وہ لوگ شاعری نہیں کر سکتے، یہ زہر پی کر امرت بانٹنے کا کام ہے، انھوں نے کہا کہ میں جمالیات کا دلدادہ ہوں شاعری میرے لئے ڈوپٹوں میں ستارے ٹانکنے کا کام ہے، میں کبھی دھوپ میں ننگے پاؤں چلتا ہوں اور کبھی محبت کی چھاؤں میں بیٹھ کر اپنے محبوب کی خوبصورت ہتھیلی میں مہندی سے اپنا نام لکھتا ہوں،

 

اس پروگرام میں کثرت سے صاحب کتاب کی گلپوشی کی گئی، اسماعیل قدیر، سراج یعقوبی، سلطان محمود ایڈووکیٹ، محمد واجد، شہریار، بختیار اور ڈاکٹر غیاث پاشاہ حکم شرفی نے مہمانوں کا خیر مقدم کیا یہ خوشگوار اور یادگار اجلاس بغیر مشاعرے کے بھی شاعرانہ ماحول کا منظر پیش کر رہا تھا، آخر میں سید جعفر کے شکریہ کے ساتھ اجلاس کا اختتام عمل میں آیا۔

متعلقہ خبریں

Back to top button