نیشنل

مولانا کلیم صدیقی کے ساتھ گرفتارعرفان خواجہ خان نے قانونی امدا د کے لیئے جمعیۃ علماء کا شکریہ ادا کیا          

          ملک سے دشمنی جیسی سنگین دفعات کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا، گلزاراعظمی       

ممبئی 5/ اپریل ( پریس نوٹ) مذہب تبدیل کرانے کے سنگین الزامات کا سامنا کررہے عرفان خواجہ خان 23/ ماہ بعد جیل سے رہا ہونے کے بعد اس کے اہل خانہ کے ہمراہ اسے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) کے دفتر واقع امام باڑہ، ممبئی پہنچ کر اسے قانونی امداد دیئے جانے پر شال اور گلدستہ پیش کرتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

عرفان خواجہ خا ن نے سیکریٹری قانونی امداد کمیٹی گلزار اعظمی اور قانونی مشیر ایڈوکیٹ شاہد ندیم سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند بالخصوص آپ حضرات کا تعاون ہمیں پہلے دن سے ہی تھااور ہر موقع پر ہماری رہنمائی کی گئی اور ہمیں ہمت اور حوصلہ دیا گیا۔ ٹرائل کورٹ سے لیکر سپریم کور ٹ تک قابل وکلاء کی تقرری کرکے مقدمہ کی پیروی کرائی گئی اور جمعیۃ کی جانب سے ایسے وقت میں مقدمہ کی پیروی کی گئی جب ماحو ل ایکدم مخالف تھا، اتر پردیش حکومت کی جانب سے کوئی رعایت نہیں دی جارہی تھی۔ اس موقع پر جمعیۃ علماء مراٹھوڑہ کے صدر حافظ محمد ذاکر، امین پٹیل (ضلع بیڑ خازن)مولانا معین قاسمی (صدرجمعیۃ علماء سرسالہ)، مولانا اختر ملی(نائب صدر سرسالہ)، فرقان خان خواجہ خان، شیخ نور ولد عبدالغنی، انور پٹھان عثمانی غنی و دیگر موجود تھے۔

عرفان خان نے مزید بتایا کہ گرفتاری کے وقت وہ مرکزی حکومت کے زیر انصرام منسٹری آف ومن اینڈ چلڈرن ڈیولپمنٹ میں بطور ترجمان کام کرتا ہے نیز یو پی اے ٹی ایس نے اس پر جو الزام لگایا ہے کہ ہ وہ گونگے بچوں کو عمر گوتم کے کہنے پر اسلام قبول کرنے میں ان کی مدد کرتا تھا اس میں کوئی صداقت نہیں ہے کیونکہ وہ عمر گوتم کو جانتابھی نہیں ہیں اور نوئیڈا ڈیف سوسائٹی سے اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے اس کے باوجود اس مقدمہ میں اسے ماخوذ کیا گیاجس کی وجہ سے اسے تقریباً دو سال تک جیل میں قید رکھا گیا۔

عرفان نے مزید کہاکہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا اسے اس طرح کے مقدمہ میں گرفتار کرلیاجائے گا، ماضی میں اس نے وزیر اعظم ہند نریندر مودی، یوگی ادتیہ ناتھ اور دیگر ہائی پروفائل شخصیا ت کے لیئے ترجمانی کی ہے، بیرون ہندوستان پرروگراموں میں ہندوستان کی کامیاب نمائندگی کی ہے، اب اسے پھر سے اپنی زندگی کا آغاز کرتے ہو ئے بکھرے ہوئے شیرازے کو اکھٹا کرنا ہوگا۔ گرفتاری سے قبل میں اور میری اہلیہ دہلی میں رہتے تھے لیکن میری گرفتاری کے بعد میری اہلیہ کودہلی چھوڑنا پڑا اور وہ بھی میری رہائی کے لیئے کوشش کرنے والوں کے شانہ بشانہ کھڑی رہی۔ عرفان خا ن نے جیل کے ایام بیان کرتے ہوئے کہا کہ شروعاتی دنوں میں انہیں ”حساس بیرک“ میں رکھا گیا جہاں ایک وقت میں صرف دس سے بارہ لوگ رہتے تھے جن پر انتہائی سنگین الزامات عائد تھے، ان کے ساتھ رہنے میں انہیں شدید پریشانی ہوتی تھی لیکن اس کے باوجود انہیں حساس بیرک میں رکھا گیا۔

عرفان نے مزید کہاکہ سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے باوجود اسے جیل سے رہا ہونے میں چالیس دن سے زائد کا وقت لگ گیا، جیل میں ایک ایک لمحہ گذارنا مشکل ہورہا تھا، وکلاء اور اہل خانہ اپنی جانب سے پوری کوشش کررہے تھے لیکن ریاستی انسداد دہشت گرد دستہ نے کاغذی کارروائی مکمل کرنے میں تاخیر کی ورنہ اس کی رہائی بہت پہلے ہوچکی ہوتی۔

عرفا ن نے مزیدکہا کہ وہ اس مقدمہ کا پہلا ملزم ہے جسے جیل سے رہائی ملی، گذشتہ سنیچر کی شام ساڑھے سات بجے مجھے جیل سے رہاکیا گیا اور آج چار دن بعد میں جمعیۃ علماء کا شکریہ ادا کرنے یہاں آیا ہوں۔

اس موقع پر جمعیۃ علماء قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے کہا کہ ضمانت پر رہائی صرف عرفان کا ہی امتحان نہیں تھا بلکہ ایک طرح سے ہمارا بھی امتحان تھا، عوام کی نظریں لگی ہوئی تھی اور الحمداللہ ہم اس امتحان میں ناصر ف کامیاب ہوئے بلکہ دوسروں کے لیئے بھی امتحان کو آسان کردیا۔انہوں نے کہا کہ اگر دیگر ملزمین جمعیۃ علماء سے رجوع ہوتے ہیں تو ان کی بھی رہائی کے لیئے کوشش کی جائے گی۔

گلزار اعظمی نے کہا کہ عرفان اور دیگر ملزمین کی گرفتاری کے بعد ہندوستان اور بالخصوص اتر پردیش میں جو خوف کا ماحول بنایا گیا تھا ان حالات میں مقدمہ کی پیروی کرنے میں شدید دشواریوں کا سامنا تھا، ضمانت پر بحث کے وقت عدالت میں سنگھی ذہنیت کے وکلاء گھس کر سماعت میں خلل پیدا کرتے تھے اور ججوں پر دباؤ بناتے تھے اور انہیں سب وجوہات کی بنیاد پر ٹرائل کورٹ اور پھر ہائی کورٹ سے ضمانت مسترد ہوئی لیکن ہمیں یقین تھا کہ عرفان کو سپریم کورٹ آف انڈیا سے انصاف ضرور ملے گا۔

گلزاراعظمی نے مزید کہا کہ صدر جمعیۃعلماء ہند مولانا سید ارشد مدنی کی اس مقدمہ پر خصوصی نظر تھی، اکثر وہ عرفان کے تعلق سے جانکاری لیا کرتے تھے اور سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے اور جیل سے رہا ہونے کے بعد انہوں نے بھی مسرت کا اظہار کیا۔گلزار اعظمی نے کہا کہ ابھی تو عرفان کو ضمانت ملی ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ اسے مقدمہ سے باعز ت رہائی ملے نیز عرفان کے خلاف جو دیش سے غداری اور دیش سے جنگ کرنے کی جو دفعات لگائی گئی ہیں اسے جلد ہی لکھنؤ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا نیز جو بھی ملزم کو قانونی امداد کی ضرورت ہوگی انہیں قانونی امداد دی جائے گی۔

واضح رہے کہ گذشتہ سال ا تر پردیش انسداد دہشت گرد دستہ ATSنے عمر گوتم اور مفتی قاضی جہانگیر قاسمی، مولاکلیم صدیقی سمیت کل 17ملزمین کو جبراً تبدیلی مذہب کے الزام میں گرفتار کیا تھا اور ان پر الزام عائد کیا ہیکہ وہ پیسوں کا لالچ دے کر ہندوؤں کا مذہب تبدیل کراکے انہیں مسلمان بناتے تھے اور پھر ان کی شادیاں بھی کراتے تھے۔ پولس نے ممنو عہ تنظیم داعش سے تعلق اور غیر ملکی فنڈنگ کا بھی الزام عائد کیا ہے۔

متعلقہ خبریں

Back to top button