مضامین

اسلام میں قتل کی سنگینی کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

از :۔ پروفیسر ابو زاہد شاہ سید وحید اللہ حسینی القادری الملتانی

کامل الحدیث جامعہ نظامیہ ، M.A., M.Com., Ph.D (Osm)

اسلام میں قتل کی سنگینی کو سمجھنا اور سمجھانا وقت کی اہم ضرورت

 

اسلامی تعلیمات کا پورا زور انسان کی اپنی باطنی اصلاح پر ہے جبکہ ہماری توجہات ظاہری پرستی اور دوسروں کی اصلاح پر مرکوز ہے یہی وجہ ہے کہ پورا معاشرا ظلم و فساد کے دلدل میںدھنستا چلا جارہا ہے۔ کسی نے خوب کہا ہے کہ ’’معاشرے پر تمہارا اس سے بڑا کوئی احسان نہیں ہوسکتا کہ تم خود سنور جائو‘‘رب کائنات نے انسان کی سرشت و جبلت میںشہوت و غضب کے عوارض و موانع ودیعت فرمائے ہیں جس سے قدسی صفات ملائکہ پاک ہیں شہوت و غضب کے بغیر رب کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا بہت آسان ہے لیکن گناہ و معصیت کے محرکات و جذبات کو قابومیں رکھتے ہوئے راہ مستقیم پر گامزن رہنا بہت مشکل ہے ۔

 

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی کی ہر آن تسبیح و تحمید، تقدیس وتہلیل اور احکام الٰہی کی تعمیل کرنے والی معزز مخلوق یعنی فرشتوں کو بھی وہ مقام و مرتبہ عنایت نہیں کیا گیا جس سے مشت خاک سے معرض وجود میں آنے والے انسان کو سرفراز کیاگیا چونکہ وہ محض رضائے الٰہی کے لیے اپنی طبعی حاجات اور نفسانی لذات و اشتہاء کو قابو میں رکھتے ہوئے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کرتا ہے۔ لیکن جب یہی انسان مذہبی تعلیمات سے اعراض کرتا ہے اور اپنی فطری توانائیوں اور صلاحیتوں کو فساد و خرابی کے لیے استعمال کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے تو وہ احکامات الہیہ کو پس پشت ڈال کر جانور سے بھی بدتر بنجاتاہے۔ قرآن حکیم متعدد اقوام و ملل کی تاریخی حقائق واضح الفاظ میں بیان کررہا ہے کہ جس نے

 

بھی رب کائنات کے متعین کردہ حدود سے تجاوز کیا تباہی و بربادی ان کا مقدر بن گیا۔انسان کو جانوں سے جو چیز ممتاز کرتی ہے وہ اخلاقی حس ہے جو اسے گناہوں سے باز رکھتی ہے لیکن جب یہ حسکمزور ہوجاتی ہے تو انسان سفلی جذبات کا اسیر اور اخلاقی زبوں حالی کا شکار ہوجاتا ہے ۔وقار و متانت کو قرآن مجید نے مومنین کی روشن سیرت کی ایک باعظمت روحانی صفت قرار دیا ہے جس کے باعث اس سے کوئی سفلی فعل سرزد نہیں ہوتا جو اس کے کردار کے شایان شان نہ ہو ۔ تاریخ انسانی شاہد ہے کہ بدخلقی سے ہمیشہ نفرتیں اور عداوتیں پھیلی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ آج مسلم معاشرےمیں بے شمار بیہودگیاں اور خرابیاں جنم لے رہی ہیںاور مفسد و فاسد افراد کی فراوانی میں روز افزوں اضافہ ہورہا ہے جس کی وجہ سے مسلم معاشرے میں انتشار اور فساد پھیل رہا ہے۔ جب انسانی کردار تواضع و انکساری اور تحمل و بردباری جیسی صفات عالیہ سے عاری ہوجاتا ہے تو انسان درندہ صفت بن جاتا ہے اور خاندانی و معاشرتی نظام تباہ و تاراج ہوجاتا ہے جس کے بعد زمین میں فتنہ و فساد کا برپا ہونا یقینی امرہے۔ اس کی واضح دلیل مسلم معاشرے میں قتل و خونریزی کی بڑھتی ہوئی وارداتیں ہیں جہاں اجتماعی خیر و شر کی فکر سے عاری ،مرغوبات دنیا کا اسیر اور مذہبی تعلیمات سے ناآشنا

 

مسلمان اپنے گھنائونے اور ناپاک عزائم اور ذاتی و مالی مفادات کی تکمیل کے لیے اس انسان کو قتل کرنے سے بھی گریز نہیں کررہا ہے اللہ جل شانہ نے لکھنے و پڑھنے اورادراک و اظہار کی صلاحیت عنایت فرمائی جس سے دیگر مخلوقات محروم ہیں، جس کو خدائے بزرگ و برتر نے مخدوم کائنات و مسجود ملائکہ بنایا ،تمام مخلوقات پر رفعت و فضیلت ،عظمت و کرامت ، امتیازات و اعزازات، اور استعدادیں اور شائستگیاں بخشیں ،اس کے قتل ناحق کو حرام قرار دیکر اس گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والے قاتل کے لیے غضب الٰہی، رحمت کردگار سے محرومی ،جہنم کی ابدی سزا، اور بڑی ذلت و خواری کے ساتھ عذاب عظیم میں مبتلا کیے جانے جیسے سخت ترین عذابات کا ذکر بھی کیا ہے۔

 

 

ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’اور جو شخص قتل کرے کسی مومن کو جان بوجھ کر تو اس کی سزاجہنم ہے ہمیشہ رہے گا اس میں اور غضبناک ہوگا اللہ تعالی اس پر اور اپنی رحمت سے دور کردے گا اسے اور تیار کر رکھا ہے اس نے اس کے لیے عذاب عظیم‘‘ (سورۃ النسآء آیت 93) اس آیت پاک سے ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام میں انسانی نفسوس قابل احترام ہے یہی وجہ ہے کہ کفر و شرک کے بعد سب بے بڑا جرم اور گناہِ کبیرہ بے قصور انسان کو قتل کرنا ہے۔ ان حقائق کو جاننے کے باوجود مسلمان کا قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کرنا اس بات کو ظاہر کرتا ہے ہمارا ایمان کتنا کمزور اور ہمارے دل خوف و خشیت الٰہی سے کس قدر خالی ہوچکے ہیں۔ معاشرے میں قتل کا بڑھتا ہوا رجحان اسلامی معاشرہ کے چہرہ پر بدنما داخ ہے۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ اسلام میں قتل کی سنگینی اور اس جرم کی سزا کے متعلق لوگوں میں بیداری پیدا کریں۔

 

قرآنی ارشادات سے ثابت ہے کہ قاتل کو بروز محشر دگنا عذاب ہوگا۔ بعض اوقات انسانی ذہن میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ قاتل کو دگنا عذاب کیوں؟ چونکہ یہ بظاہر عدل و انصاف کے مغائر نظر آتا ہے۔ علماء اسلام نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ بعض اوقات ایک ہی گناہ دوسرے گناہوں کا سرچشمہ بن جاتا ہے مثال کے طور پر قتل ہی کو لیجیے کہ ایک گناہ ہے لیکن یہی گناہ مقتول کے اہل و عیال کے دین، جان، عقل ، نسل اور مال کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بن سکتا ہے اسی لیے قاتل کو دگنے عذاب کامستحق قرار دیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر قاتل کسی گھر کے سربراہ اور کفیل کا خون کردے تو اس کے ضمنی اثرات مقتول کے گھر والوں پر پڑیں گے اور اگر مقتول کے ورثا معاشی مشکلات سے دوچار ہوجائیں اور اس کے بچے تعلیم ترک کرنے اور چوری و ڈکیتی کرنے اور گھر کی خواتین بے حیائی کے کام کرنے پر مجبور ہوجائیں تو ان سب کا وبال قاتل پر ہوگا۔ چونکہ مقتول کے پسماندگان کے تمام ذہنی، قلبی، جسمانی، روحانی اضطراب و بے چینی ، غمگینی و افسردگی اور ان کی زندگی میں آنے والے تمام حوادث کی وجہ قاتل بنتا ہے اسی لیے قاتل کو بروز محشر صرف قتل کے برابر سزا نہیں دی جائے گی بلکہ اسے دگنا عذاب دیا جائے گا۔ بعض علماء کرام ارشاد فرماتے ہیں کہ قاتل کو جسمانی عذاب کے ساتھ ساتھ روحانی عذاب بھی دیا جائے گا جو قاتل کی تحقیر و توہین کے لیے ہوگا اسی کو قرآن مجید نے دگنے عذاب سے تعبیر کیا ہے۔قتل کی ایک اور نحوست بیان کرتے ہوئے علماء اسلام ارشاد فرماتے ہیں۔

 

غضب الٰہی اور رحمتِ رب سے محرومی کے باعث اس بات کا قوی احتمال ہے قاتل کو حقیقی توبہ کیتوفیق ہی نہ ملے اور وہ بے ایمان ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوجائے (العیاذ باللہ)۔ نسائی شریف کی ضرروایت کے مطابق بروز قیامت سب سے پہلے بندے سے نماز کے بابت پوچھا جائے گا ۔مسلم شریف کی روایت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انسان سے سب سے پہلے انسان کشی کے بارے میں پوچھا جائےگا۔ محدثین کرام اس تعارض میں تطبیق پیدا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ نیکیوں میں سب سے پہلے نماز اور برائیوں میں سب سے پہلے قتل کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔محدثین کرام نے یہ توجیہ بھی کی ہے کہ جس طرح حقوق اللہ میں سب سے پہلے نماز کے بارے میں سوال کیا جائے گا اسی طرح حقوق العباد میں سب سے پہلے قتل نفس کے بارے میں باز پرس ہوگی۔ مردِ پاکباز یعنی حقیقی مومن قتل جیسی گنائونی حرکت کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتا چونکہ قتل کرنے کا جذبہ دل کی ظلمت سے پیدا ہوتا ہے جبکہ مومن کا دل ہدایت کے نور سے روشن ہوتا ہے اور رب کی بے پایاں رحمتوں کے باعث یہی نور ایمان میدان حشر میں مومنین کے آگے اور دائیں جانب روشنی بکھیرے گا

 

اور جنت کی طرف ان کی راہ کو روشن کرے گا۔علاوہ ازیں اس کے ذہن و دماغ پر جواب دہی کا احساس اس قدر حاوی ہوتا ہے کہ وہ زمین پر بھی آہستہ آہستہ چلتا ہے کہ کہیں رعونت والی چلن پر ہی اس کی گرفت نہ ہوجائے تو وہ قتل جیسے سنگین جرم کا ارتکاب کیا کرے گا؟سچا مومن اس حقیقت سے بھی اچھی طرح واقف ہوتا ہے کہ دین اسلام نے کسی انسان کو بہتان اور الزام تراشی کے ذریعہ بھی نقصان پہنچانے سے منع فرمایاہے۔ دین اسلام نے محترم مہینوں (یعنی رجب، ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم) اور حدود حرم اپنی جان بچانے کے لیے دفاع کی اجازت دی ہے۔تعلیمات اسلام میں اس بات کو بھی جائز رکھا گیا ہے کہ انسان اپنے آپ کو بچانے کے لیے حالت اضطرار میں حرام شدہ اشیااستعمال کرسکتا ہے ۔ دین اسلام میں اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈالنے کو قہر و غضب کردگار کےمستحق بننے کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ جس دین نے مومن کو اپنے آپ کو اذیت و نقصان پہنچانے کیاجازت نہیں دی وہ کسی اور کو کیا نقصان پہنچائے گا؟ لیکن صد حیف کہ دنیا کو کردار کی روشنی سے منور کرنے والی اور بحر ظلمات میں گھوڑے دواڑنے والی قوم کی اکثریت آج خود گمراہی کے دلدل میں دھنستی جارہی ہے یہی وجہ ہے کہ مسلم معاشرے میں قتل جیسے سنگین جرم اور گناہ کبیرہ کے ارتکاب میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے ۔ قرآن مجید نے ایک انسان کے قتل کو روئے زمین کے تمام لوگوں کے تہِ تیغ کردینے کے مترادف قرار دیا ہے۔

 

ارشاد ربانی ہورہا ہے ترجمہ: ’’جس نے قتل کیا کسی انسان کو سوائے قصاص کے اور زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تو گویا اس نے قتل کردیا تمام انسانوں کو ‘‘ (سورۃ المائدۃ آیت 32) علامہ بیضاویؒ اس آیت پاک کی تفسیر میں رقمطراز ہیں کہ ’’جس نے ایک بے گناہ کو مال ڈالا اس نے خون انسانی کی بے حرمتی اور توہین کی نیز اس نے قتل کی رسم کا از سرِ نو آغاز کیا اور دوسرے لوگوں کو بھی اس جرم کے ارتکاب کی جرأت دلائی‘‘ (بحوالہ تفسیر ضیاء القرآن) اس آیت پاک سے واضح ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید میں انسان کی زندگی کس قدر اہمیت رکھتی ہے ۔یہ بھی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ معاشرہ افراد سے تشکیل پاتا ہے اسی لے فرد کے قتل کا راست اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے اسی لیے اللہ تعالی کو شرک کے بعد سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل قتل ناحق ہے۔رسول رحمتﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ ناحق انسان کو قتل کرنا اللہ کے نزدیک تمام دنیا کے برباد ہونے سے بڑا حادثہ ہے۔ حضرت براء بن عازب ؓ سےمروی ہے رحمت عالمﷺ نے فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک پوری کائنات کا ختم ہوجانا بھی کسی

 

 

شخص کے قتلِ ناحق سے ہلکا ہے (بیہقی، شعب الایمان) ۔مسلم معاشرے میں قتل کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا نہ صرف حسن معاشرت کا تقاضہ ہے بلکہ ہم سب کی مذہبی ذمہ داری بھی ہے تاکہ ہماری نئی نسل معاشرے میں رائج برائیوں کے منفی اثرات سے محفوظ رہ سکے ۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ! یہ مظلوم ہے ہم اس کی مدد کریں گے لیکن ہم ظالم کی کیسے مدد کریں؟ آپﷺ نے فرمایا تم اس کے ہاتھوں کو پکڑ لو۔ چونکہ قاتل بھی ظالم ہوتا ہے اسی لیے محولہ بالا حدیث پاک کی روشنی میں مسلمانوں پر لازم ہے‌کہ اس کو اس سنگین جرم کے ارتکاب سے باز رکھنے کی حتی المقدور کوشش کریں۔ قاتل کو قتل سے روکنا، اس کو سزائے عمر قید اور پھانسی سے روکنا ہے اور یہی اس ظالم کی مدد کرنا ہے۔لیکن دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ جہاں قتل کی واردات ہوتی ہے وہاں لوگوں کی خاصی تعداد ہونے کے باوجود تمام لوگ محض تماش بین بنکر اس واردات کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ کل بروز قیامت یقینا ہم سے ہماری اس غفلت اور تساہلی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔ حضرت سیدنا عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے فرمایا مرقع ہر خوبی و زیبائی ﷺ نے فرمایا کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، وہ نہ اس پر خود ظلم کرے اور نہ کسی اور کو اس پر ظلم کرنے دے۔ (بخاری شریف) ۔ ہمارے پاس دین کاانتہائی ناقص تصور ہے ہم نے عبادات ہی کو سب کو کچھ سمجھ لیا ہے ۔ہم اس زعم میں ہیں کہ نماز ،روزہ ، زکوٰۃ اور حج کی ادائیگی کے ساتھ ہی ہماری مذہبی ذمہ داری ختم ہوجاتی ہے جبکہ حقیقت یہہے کہ ان کو ارکان اسلام یعنی اسلامی عمارت کی بنیادیں کہا جاتا ہے۔ اور ہم سب جانتے ہیں کہ صرف ستون سے عمارت پائے تکمیل کو نہیں پہنچتی۔ مکمل عمارت کے لیے ستونوں کے ساتھ فرش، چار دیواری، اور چھت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ عقائد صحیحہ، عبادات، حسن معاملات اور حسن اخلاق اسلامی عمارت کے بالترتیب بنیاد، ستون، چاردیواری اور چھت ہے۔ لہٰذا اپنے آپ کو اخلاق سے مزین کرنا اور دوسروں کو اخلاق کی تعلیم دینا بھی تبلیغ اسلام کا ایک اہم اور اٹوٹ حصہ ہے ۔ اگر بروقت قتل جیسے سنگین جرم کا تدارک نہ کیا گیا تو ضلالت و گمراہی کی مزید شاہراہیں کھلتی چلی جائیں گی اور انسانی معاشرے سے امن و آمان ختم ہو جائے گا جو نہ صرف مسلم معاشرے کے لیے بلکہ پوری انسانیت کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔

 

چونکہ جب تک سنگ دل لوگ بے پرواہ رہیں گے بے قصور افراد کی زندگانیاں ہمیشہ خطرے میں رہیں گی اسی لیے دین اسلام نے قتل کے واقعات کی روک تھام اور احترام خون کی حفاظت کے لیے قصاص جیسا عادلانہ دستور دیا ہے جو انسان کو قتل انسانی کے ارادے سے بھی باز رکھتا ہے۔ آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ بطفیل نعلین پاک مصطفیﷺ ہمیں قرآن اور صاحب قرآن ﷺ کی تعلیمات کے مزاج کو سمجھنے اور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق رفیق عطا فرمائیں۔آمین ثم آمین بجاہ سید المرسلین طہ و یسین۔

متعلقہ خبریں

Back to top button